سلامتی

داعش کے امیر البغدادی نے تسلیم کر لیا کہ دنیا بھر میں ہونے والے نقصانات کی وجہ سے تنظیم پسپائی کا شکار ہے

سلام ٹائمز

جون 2014 کی ایک ویڈیو کے اس سکرین شاٹ میں داعش کا امیر ابوبکر البغدادی اپنی نام نہاد خلاف کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے۔ [فائل]

جون 2014 کی ایک ویڈیو کے اس سکرین شاٹ میں داعش کا امیر ابوبکر البغدادی اپنی نام نہاد خلاف کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے۔ [فائل]

کابل -- "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کا امیر ابوبکر البغدادی پوشیدگی سے ظاہر ہوا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ اس کی تنظیم پسپائی کا شکار ہے، افغان اور اتحادی افواج نے افغانستان میں داعش کی شاخ کے امیر کو ہلاک کر دیا ہے۔

داعش کے میڈیا آپریشنز کی جانب سے بدھ (22 اگست) کے روز نشر کردہ ایک 55 منٹ کے پیغام میں، البغدادی نے تسلیم کیا کہ مشرقِ وسطیٰ میں اس کے عسکری نقصانات کے بعد داعش کس طرح رو بہ زوال ہے۔

جب اس نے اپنے پیروکاروں سے کہا کہ وہ اپنا "مذہب، صبر یا جہاد" نہ چھوڑیں، تو ایسا لگتا ہے کہ یہ میدان میں تنظیم کی شکست کی نشاندہی ہے، البغدادی نے اعلان کیا کہ "مجاہدین کے لیے فتح یا شکست کا پیمانہ ایک شہر یا قصبے کا چھن جانا نہیں ہے نہ ہی یہ ان سے مشروط ہے جنہیں فضائی برتری حاصل ہے۔"

البغدادی نے تنظیم کے بچے کھچے لوگوں کے مابین ابھرنے والی نظم و ضبط کی کمی کی طرف بھی اشارہ کیا اور اپنے نائبین کو تنبیہ کی کہ اپنے جوانوں میں بغاوت کی علامات پر نظر رکھیں۔ اس نے مختلف قومیتوں، خطوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے داعش کے ارکان کو اندرونی چپلقشوں اور لڑائی جھگڑوں سے اجتناب کرنے کی ترغیب دی۔

عراقی فوج کے سپاہیوں کو 2 جولائی 2017 کو موصل، عراق میں النوری مسجد میں دکھایا گیا ہے جہاں ابوبکر البغدادی نے سنہ 2014 میں داعش کے امیر کے طور پر اپنا پہلا خطبہ دیا تھا۔ 23 جون 2017 کو، عراقی فوج کی جانب سے علاقے کو گھیر لینے پر داعش نے مسجد کو دھماکے سے اڑا دیا تھا، جس سے عمارت اپنے قدیمی میناروں سمیت زمین بوس ہو گئی تھی۔ [احمد الرباعی / اے ایف پی]

عراقی فوج کے سپاہیوں کو 2 جولائی 2017 کو موصل، عراق میں النوری مسجد میں دکھایا گیا ہے جہاں ابوبکر البغدادی نے سنہ 2014 میں داعش کے امیر کے طور پر اپنا پہلا خطبہ دیا تھا۔ 23 جون 2017 کو، عراقی فوج کی جانب سے علاقے کو گھیر لینے پر داعش نے مسجد کو دھماکے سے اڑا دیا تھا، جس سے عمارت اپنے قدیمی میناروں سمیت زمین بوس ہو گئی تھی۔ [احمد الرباعی / اے ایف پی]

اتحادی افواج کے فضائی حملوں نے 10 جولائی کو صوبہ ننگرہار میں داعش کے ٹھکانے تباہ کیے۔ [تصویر بشکریہ نیٹو]

اتحادی افواج کے فضائی حملوں نے 10 جولائی کو صوبہ ننگرہار میں داعش کے ٹھکانے تباہ کیے۔ [تصویر بشکریہ نیٹو]

مبصرین، جنہوں نے غور کیا ہے کہ شکست کا سایہ نافرمانی کی ایک لہر پیدا کرنے والا تھا، خصوصاً اس بارے میں کہ لڑائی جاری رکھی جائے یا نہیں، کا کہنا ہے کہ اگر وہ مسائل زیادہ غالب نہ ہوتے تو البغدادی ان کا حوالہ کبھی نہ دیتا۔

سنہ 2014 میں جب سے البغدادی نے نام نہاد "خلافت" کا اعلان کیا ہے، داعش عراق اور شام میں اپنے 95 فیصد علاقے سے محروم ہو چکی ہے اورشام میں زیادہ تر غیر آباد علاقوں کے چند چھوٹے چھوٹے حصوں تک سکڑ گئی ہے۔

نئی ریکارڈنگ اس کے حالیہ ترین پیش رو کے لگ بھگ ایک سال بعد آئی ہے۔

اطلاعات بتاتی ہیں کہ البغدادی زخمی ہے، اور حکام کا کہنا ہے کہ 24 مارچ کو شام میں داعش کے چوٹی کے پانچ کمانڈروں کی عراقی فوج کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد پھندا جہادی رہنماء کے قریب تر ہو رہا ہے۔

داعش کا ایک اور افغانی رہنماء ہلاک

دریں اثناء افغانستان میں،داعش کو دھچکوں کے ایک سلسلے میں ایک اور نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) کے مطابق، داعش کی خراسان شاخ (داعش-خ) کا امیر، ابو سعد ارہابی، جو ابو سید اورکزئی کے طور پر بھی جانا جاتا تھا، ہفتے (25 اگست) کی شام صوبہ ننگرہار کے ضلع خوگیانی میں افغان اور اتحادی افواج کے مشترکہ ہوائی حملے میں مارا گیا۔

تنظیم کو اس کے عربی مخفف نام سے پکارتے ہوئے، این ڈی ایس کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا، "افغانستان میں داعش کا امیر دیگر 10 افراد کے ساتھ مارا گیا۔"

ننگرہار کے صوبائی گورنر کے ترجمان، عطاء اللہ خوگیانی نے ارہابی کی ہلاکت کی تصدیق کی۔

خوگیانی نے کہا، "علاقے میں فضائی حملہ کیا گیا تھا، اور اتحادی افواج نے جلال آباد ہوائی اڈے سے راکٹ مارے تھے۔" انہوں نے مزید کہا کہ "ہمیں داعش کے اس امیر کے علاقے میں ہونے کے متعلق مخبری ہوئی تھی، اور ہم نے اس کا تبادلہ اپنے غیر ملکی شراکت داروں سے کیا۔"

یہ واضح نہیں ہوا کہ ارہابی "راکٹوں سے مارا گیا ۔۔۔ یا فضائی حملوں میں"، کہتے ہوئے خوگیانی نے بات جاری رکھی، "دس سے زائد جنگجو، بشمول چند کمانڈر، بھی مارے گئے۔"

ارہابی داعش-خراسان کا چوتھا رہنماء ہے جو سنہ 2014 کے لگ بھگ ملک میں پہلی بار اس تنظیم کے ظہور کے بعد سے مارا گیا ہے۔

افغانستان میں امریکی افواج کے ترجمان، لیفٹیننٹ کرنل مارٹن اوڈونل، نے تصدیق کی کہ انہوں نے افغان حکام کی جانب سے بیان کردہ مقام پر ایک فضائی حملہ کیا تھا، جس میں "نامزد کردہ دہشت گرد تنظیم کے ایک اعلیٰ عہدے دار کو نشانہ بنایا گیا"۔

حملے سے چند گھنٹے پہلے، تنظیم نے ایک خونریز خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں بظاہر جلال آباد میں صوبائی الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر احتجاجی دھرنے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ افغان حکام کے مطابق، خودکش حملے میں مبینہ طور پر دو افغان جاں بحق اور چار زخمی ہوئے تھے۔

جلال آباد کا بم دھماکہ حالیہ ہفتوں میں داعش کی طرف سے ذمہ داری قبول کیے جانے والے بہت سے خونریز حملوں کے بعد ہوا تھا، بشمول کابل میں کئی سرکاری تنصیبات پر حملے اور ایک اسکول میں بم دھماکہ جس میں کم از کم 37 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

دہشت گردی کی کثیر کارروائیاں کرنے کے باوجودتنظیم بھاگ رہی ہے اور طالبان کے ساتھ ایک خونریز لڑائی کے دوران گزشتہ سال اس نے بارہا نقصانات اٹھائے ہیں۔

اس ماہ کے اوائل میں، داعش کے 150 سے زائد جنگجوؤں نے جوزان میں افغان فوج کے ایک گروہ کا محاصرہ کیا، ایک ایسا اقدام جسے افغان فوج نے ملک کے شمال میں تنظیم کے قبضے کے اختتام کے طور پر پکارا۔

داعش کی یہ مشروط اطاعت جوزان میں طالبان کے ساتھ شدید لڑائی کے کئی ہفتوں بعد ہوئی ہے جس میں مبینہ طور پر دونوں اطراف کے 300 سے زائد جنگجو ہلاک ہوئے تھے۔

ارہابی نے ابو سید کی جگہ لی تھی، جو 11 جولائی کو صوبہ کنڑ میں ایک امریکی فضائی حملے میں، اپنے پیش رو، عبدالحسیب جو ننگرہار میں مارا گیا تھا، سے صرف چند ماہ بعد مارا گیا تھا۔

[ننگرہار سے خالد زیرائی نے اس رپورٹ میں حصہ لیا]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

آپ کا یہ مضمون بہت زبردست تھا.اس سے داعش کے بارے میں بہت کچھ جا ننے کو ملا.

جواب