حقوقِ نسواں

گلابی بسیں کے پی میں خواتین کو محفوظ پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کریں گی

محمد آحل

پشاور میں 25 اگست کو گلابی بسیں پارکنگ لاٹ میں کھڑی ہیں۔ مکمل طور پر خواتین پر مبنی سہولت کا آغاز آنے والے ہفتوں میں ایبٹ آباد اور مردان میں ہو گا۔ ]محمد آحل[

پشاور میں 25 اگست کو گلابی بسیں پارکنگ لاٹ میں کھڑی ہیں۔ مکمل طور پر خواتین پر مبنی سہولت کا آغاز آنے والے ہفتوں میں ایبٹ آباد اور مردان میں ہو گا۔ ]محمد آحل[

پشاور -- خیبر پختونخواہ صوبہ (کے پی) جاپان اور اقوامِ متحدہ (یو این) کے تعاون سے، مردان اور ایبٹ آباد کی ڈسٹرکٹس میں مکمل طور پر خواتین پر مبنی بس سروس کا افتتاح کرنے والا ہے۔

پنک بس سروس خواتین کو تنہا سفر کرنے کے قابل بنائے گی جو کہ ایسے سماجی قاعدوں سے ہٹ کر ہے جن میں توقع کی جاتی ہے کہ خاندان کے مرد ارکان عوامی جگہوں پر خواتین ارکان کے ساتھ جائیں۔ یہ خواتین کو روایتی بسوں میں موجود جارحیت پسند مرد مسافروں سے بھی بچاتی ہیں۔

The brightly coloured buses will not only provide women a more secure and comfortable mode of transportationشوخ رنگوں والی یہ بسیں نہ صرف خواتین کو نقل و حمل کا ایک آرام دہ اور محفوظ ذریعہ فراہم کریں گی بلکہ انہیں سفر کا ایک خاندان جیسا اور کم خرچ تجربہ بھی مہیا کریں گی۔

توقع ہے کہ یہ سہولت بتدریج پورے کے پی میں پھیل جائے گی۔

پشاور میں 25 اگست کو گلابی بسیں دکھائی گئی ہیں۔ ]محمد آحل[

پشاور میں 25 اگست کو گلابی بسیں دکھائی گئی ہیں۔ ]محمد آحل[

جاپان نے مردان اور ایبٹ آباد میں اس منصوبے کے پائلٹ مرحلے کے لیے، اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے پراجیکٹ سروسز (یو این او پی ایس) کو اپنی عمومی امداد کے حصہ کے طور پر، 14 بسیں عطیہ کی ہیں جن کی مالیت 100 ملین روپے (815,000 ڈالر) ہے۔

پاکستانی حکام نے 11 مئی کو ان گاڑیوں کو باضابطہ طور پر قبول کیا۔ وہ اگست کے آخیر یا ستمبر کے آغاز میں کام کرنا شروع کر دیں گی۔ ان میں آرام دہ نشستیں، ایرکنڈیشنگ اور خودکار دروازے ہیں۔

بسوں کے علاوہ، یو این او پی ایس ہر ڈسٹرکٹ میں ایسے 15 بس سٹاپ تعمیر کرنے میں بھی مدد فرام کر رہا ہے جو شمسی توانائی کے پینلوں اور روشنیوں سے لِیس ہوں گے۔

یہ سہولت جاپان اور یو این او پی ایس اور کے پی ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کے درمیان 2016 میں دستخط کیے جانے والے معاہدے کا حصہ ہے۔ بچے، جن میں 12 سال سے کم عمر کے لڑکے بھی شامل ہیں، ان بسوں پر سفر کر سکتے ہیں۔

ٹرانس پشاور، جسے پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) سروس کو چلانے کے لیے بنایا گیا تھا، گلابی بسوں کو چلائے گا۔ پشاور میں پہلے سے ہی تجرباتی طور پر انہیں چلا لیا گیا ہے۔

خواتین کی حمایت رکھنے والا قدم

پاکستانی خواتین، خصوصی طور پر جو کے پی میں رہائش پذیر ہیں، حکومت کے اس نئے اقدام کی تعریف کر رہی ہیں۔

بینک کی ایک ملازم رابعہ خان جو ایبٹ آباد میں ہر روز اپنے دفتر اور گھر کے درمیان سفر کرتی ہیں، نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "میرے خیال میں یہ خواتین کے لیے ایک بہت اچھا خیال ہے -- وہ خود کو محفوظ تصور کریں گی اور ستائے جانے کے خوف کے بغیر سفر کر سکیں گی"۔

انہوں نے کہا کہ "یہ سہولت خواتین کو، اس بات سے قطعہ نظر کہ وہ کہاں ہیں اور کیا کر رہی ہیں، محفوظ محسوس کروانے کے لیے ایک اچھا آغاز ہے۔ مگر اسے دوسرے شہروں تک وسیع کیا جانا چاہیے جس میں پورا کے پی اور اس کے تمام دیہی علاقے شامل ہیں"۔

سماء ٹی وی کے ساتھ کام کرنے والی، پشاور سے تعلق رکھنے والی صحافی حرا شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ کے پی کی خواتین کے لیے کچھ اچھا ہوتا ہوا دیکھنا ایک خوشگوار حیرت تھی اور صوبائی حکومت اس کے لیے داد کی مستحق ہے۔

انہوں نے کہا کہ "خواتین کو پبلک ٹرانسپورٹ پر ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لیے خواتین کی نقل و حرکت کو آسان اور زیادہ محفوظ بنانے کے لیے یہ ایک بہت اچھا قدم ہے"۔

پشاور سے تعلق رکھنے والی خاتونِ خانہ بیگم آصف نے کہا کہ خواتین کے لیے پنک بس سروس حکومت کی طرف سے ایک اچھا قدم ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اس سے پہلے ہم مردوں کے ساتھ مقامی بسوں میں سفر کرتے تھے اور زیادہ تر مرد خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر بھی قبضہ کر لیتے تھے۔ خواتین کے لیے علیحدہ بس سروس بہت ہی اچھا قدم ہے -- ہم کسی خوف اور ہچکچاہٹ کے سفر کرنے کے قابل ہو جائیں گے"۔

خواتین کے حقوق کے لیے ایک قدم آگے

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی سرگرم کارکن گللئی خان جو پشاور سے تعلق رکھنے والے خواتین کے حقوق کے گروپ خیوندو کور (بہن کا گھر) کے لیے کام کرتی ہیں، نے کہا کہ گلابی بسیں ایک بہت ہی اچھا قدم ہیں اور یہ پیشہ ور خواتین اور طالبات کی حفاظت کرے گا جنہیں بسوں پر اکثر جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سہولت مالیاتی سرگرمی کو بھی پیدا کرے گی اور خواتین کو خودمختار بنائے گی کیونکہ خواتین اپنی دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے خود کو آرام دہ محسوس کریں گی۔

خان کے مطابق، تعمیر ہونے کے بعد، ٹرانسپورٹیشن کی سہولیات بہت سی نوجوان خواتین کو اسکولوں اور کام کرنے کی جگہوں تک پہنچانے میں مدد کریں گی جو اس سے پہلے حفاظت کے اندیشوں کے باعث ناقابلِ رسائی تھیں۔

کے پی اسمبلی کی ایک قانون ساز اور خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن نگہت اورکزئی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "کوئی بھی مقامی قدم جو خواتین کو خودمختار بنائے ۔۔۔ اسے خوش آمدید کہا جاتا ہے اور خواتین کے لیے مخصوص بس سروس، پیشہ ور خواتین اور ان کے ساتھ ہی ان کے والدین کے لیے بھی خودمختاری کا ایک ذریعہ ہوں گی"۔

پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی -- جس کے بارے میں توقع ہے کہ وہ 207 ملین سے بڑھ جائے گی -- نے پہلے سے ہی پیشہ ور خواتین کے لیے نقل و حمل کے مسائل میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنک بس سروس خواتین کے لیے نقل و حمل کو آسان بنانے، پبلک ٹرانسپورٹ میں ہراسگی کے ان کے خوف پر قابو پانے اور ٹیکسی یا دوسرے ذرائع نقل و حمل کے مقابلے میں کم خرچ ثابت ہونے میں مدد فراہم کرے گی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500