جرم و انصاف

کے پی میں بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر 800 پولیس اہلکار برطرف

جاوید خان

19 اپریل کو ملک سعد شہید پولیس لائنز میں یادگارِ شہداء پر پھولوں کی چادر چڑھانے کے بعد کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر قاضی جمیل الرّحمٰن (دائیں) دکھائے گئے ہیں۔]جاوید خان[

19 اپریل کو ملک سعد شہید پولیس لائنز میں یادگارِ شہداء پر پھولوں کی چادر چڑھانے کے بعد کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر قاضی جمیل الرّحمٰن (دائیں) دکھائے گئے ہیں۔]جاوید خان[

پشاور – خیبرپختونخوا (کے پی) میں پولیس نے بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر 2014 سے اب تک اپنے ہی 800 اہلکاروں کو برطرف کر دیا ہے۔

کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) قاضی جمیل الرّحمٰن نے ایک خصوصی انٹرویو میں پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس عرصہ میں بدعنوانی اور اختیارات کا ناجائز استعمالکرنے پر، بشمول نوکری سے نکالے جانے کے، کسی بھی طریق پر سزا حاصل کرنے والے کے پی پولیس کے اہلکاروں کی تعداد تقریباً 6,000 ہے۔ ان اقدامات میں سے زیادہ تر کے پی کے صدرمقام، پشاور میں کیے گئے۔

19 اپریل کو سی سی پی او بننے والے رحمٰن نے کہا، "تمام افسران، بطورِ خاص سٹیشن ہاؤس آفیسرز (سی ایچ اوز) کو واضح طور پر مطلع کر دیا گیا ہے کہ بدعنوانی یا اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے پائے جانے پر ہم شدید ترین کاروائی ]کریں گے[۔"

انہوں نے مزید کہا کہ وہ میرٹ پر مقابلے کا امتحان منعقد کر کے ہر تھانے میں داخلی امور کا ایک سربراہ تعینات کریں گے، جسے محرر کہا جاتا ہے۔

7 اگست کو پشاور کے کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر قاضی جمیل الرحمٰن امنِ عامہ کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات سے متعلق پاکستان فارورڈ سے بات کر رہے ہیں۔ ]جاوید خان[

7 اگست کو پشاور کے کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر قاضی جمیل الرحمٰن امنِ عامہ کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات سے متعلق پاکستان فارورڈ سے بات کر رہے ہیں۔ ]جاوید خان[

انہوں نے مزید کہا، "آئندہ مرحلہ میں ہم اسی قسم کے امتحانوں کے ذریعے ایس ایچ اوز تعینات کریں گے تاکہ ان افراد کو موقع مل سکے جو سمجھتے ہیں کہ انہیں ان کی قابلیتوں کے باوجود نظرانداز کیا جا رہا ہے۔"

انہوں نے مقدمات کی موزوں طور پر تفتیش اور حملوں کی انسداد کی ضرورت کا حوالہ دیتے ہوئے وضاحت کی کہ وہ پشاور پولیس کی انٹیلی جنس اور تحقیقات کی استعداد کو مزید بہتر بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

رحمٰن نے کہا، "ہم پولیس اہلکاروں تک آسان رسائی فراہم کر کے، انہیں تصفیہ تنازعات کے متبادل طریق ہائے کار میں شامل کر کے اور ناکوں اور تھانوں میں ان کے احترام کو یقینی بنا کر۔۔۔ ]شہریوں[ کو چین فراہم کرنا چاہتے ہیں۔"

'محفوظ' پشاور

کئی برسوں سے پشاور عسکریت پسندوں اور دہشتگردوں کی آماجگاہ رہا ہے اور قبل ازاں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سمیت متعدد عسکریت پسند اور جہادی گروہوں کے لیے مہمان نواز علاقے مہیا کرتا رہا ہے۔

رحمٰن نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہم نے ]پشاور کو[ تمام اطراف اور ہر دہشتگرد حملے سے محفوظ کیا ہے۔"

گزشتہ دہائی میں پشاور نے کسی بھی دیگر پاکستانی شہر کی نسبت زیادہ دہشتگردانہ حملوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ 25 جولائی کے عام انتخابات سے قبل، 10 جولائی کو پشاور میں ایک خودکش بمبار نے سیکولر عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی ایک ریلی کو ہدف بنایا، جس سے قومی اسمبلی میں ایک نشست کے لیے لڑنے والے ایک اعلیٰ اے این پی رہنما سمیت 20 پاکستانی جانبحق ہوئے۔

رحمٰن کے مطابق، "دیہی، شہری اور نیم شہری علاقوں میں آپریشنز نے پولیس کو عسکریت پسندوں کے نیٹ ورک اور انفراسٹرکچر کے خاتمہ میں مدد دی ہے، جس سے عوام کو شہر کے اندر سے لاحق خدشات میں کمی واقع ہوئی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ چند برسوں میں سیکیورٹی فورسز نے پشاور اور کے پی کے دیگر حصّوں سے ٹی ٹی پی، لشکرِ اسلام اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کو بے دخل کر دیا ہے۔ رحمٰن نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ میں کے پی پولیس نے "دولتِ اسلامیۃ عراق و شام (داعش) کے متعدد ارکان کو ہلاک یا گرفتار کر لیا ہے۔"

رحمٰن نے کہا، "شہر میں انٹیلی جنس پر مبنی متعدد آپریشنز نے باہر سے آنے والے دہشتگردوں کی تسہیل، انہیں پناہ فراہم کرنے اور ان کی حمایت کرنے والے متعدد افراد کو گرفتار یا ہلاک کرنے میں مدد کی ہے۔"

آباد علاقوں کا تحفظ

مزید برآں، کے پی پولیس نے دہشتگرد حملوں سے دفاع کی غرض سے قبائلی پٹی کے ساتھ جڑے علاقوں میں بم سے محفوظ چوکیاں تعمیر کی ہیں۔

رحمٰن نے کہا، "پشاور میں ہونے والے زیادہ تر حملے قبائلی علاقہ جات سے ہوتے ہیں۔ ہم نے خیبر، درّہ آدم خیل اور مہمند کی سرحد کے ساتھ ایک حلال کی شکل میں بموں سے محفوظ 31 چوکیاں تعمیر کی ہیں"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ٹھیک ہے

جواب

دیر بالا سے متعلق کچھ کہیں۔ وہاں ابھی تک جاگیردارانہ نظام ہے۔

جواب