معاشرہ

پاکستانی، افغان نوجوانوں نے ایک دوسرے کا یومِ آزادی مشترکہ طور پر منایا

محمد آحل

پاکستانی سرحدی گارڈ، 19 اگست کو افغانستان کا یومِ آزادی منانے کے لیے طورخم کی سرحدی چوکی پر افغان بچوں اور سیکورٹی فورسز کو مبارک باد دے رہے ہیں۔ ]محمد آحل[

پاکستانی سرحدی گارڈ، 19 اگست کو افغانستان کا یومِ آزادی منانے کے لیے طورخم کی سرحدی چوکی پر افغان بچوں اور سیکورٹی فورسز کو مبارک باد دے رہے ہیں۔ ]محمد آحل[

پشاور -- اس سال پاکستان اور افغانستان کی یومِ آزادی کی تقریبات -- جو بالترتیب 14 اور 19 اگست کو ہوئیں -- کو مشترکہ طور پر منایا گیا اور وہ برادرانہ محبت کا اظہار تھیں۔

طورخم کی سرحدی چوکی پر دونوں دن کے موقع پر جشن کا ماحول تھا اور سرحد کی دونوں اطراف کی سیکورٹی فورسز نے مبارک باد، پھولوں اور مٹھائیوں کا تبادلہ کیا۔

اپنے کمانڈروں کے حکم کے مطابق، پاکستانی سرحدی گارڈز نے 19 اگست کو اپنے ہم منصبوں کو مبارک باد دی جبکہ افغان بچے جنہوں نے روایتی ملبوسات پہنے ہوئے تھے اور افغان پرچم اٹھا رکھے تھے، نے گانے گائے اور قومی ترانوں پر رقص کیا۔

سرحد پر اس سے مماثل تقریبات 14 اگست کو بھی منعقد ہوئیں جب افغان سیکورٹی حکام نے اپنے پاکستانی ہم منصبوں کو پھول اور خشک میوہ جات کے تحفے دیے۔

پاکستانی اور افغان نوجوانوں نے 19 اگست کو پشاور میں ایک دوسرے کا یومِ آزادی مشترکہ طور پر منایا۔ ]محمد آحل[

پاکستانی اور افغان نوجوانوں نے 19 اگست کو پشاور میں ایک دوسرے کا یومِ آزادی مشترکہ طور پر منایا۔ ]محمد آحل[

پاکستانی سیکورٹی فورسز 19 اگست کو پاکستان- افغانستان سرحد پر افغان بچوں اور سیکورٹی فورسز سے مباک باد کا تبادلہ کر رہی ہیں۔ ]محمد آحل[

پاکستانی سیکورٹی فورسز 19 اگست کو پاکستان- افغانستان سرحد پر افغان بچوں اور سیکورٹی فورسز سے مباک باد کا تبادلہ کر رہی ہیں۔ ]محمد آحل[

پشاور میں، پاکستانی نوجوان 19 اگست کو سڑکوں پر جشن منانے والے نوجوانوں کے ساتھ شامل ہو گئے جو "پاکستان زندہ باد" اور "افغانستان زندہ باد" کے نعرے لگا رہے تھے۔

اس سے چند دن پہلے ہی، افغان نوجوانوں نے، 14 اگست کو جب پاکستان اپنا یومِ آزادی منا رہا تھا، افغانی اور پاکستانی پرچم لہرائے اور پشتو گانوں پر رقص کیا۔

ہمسایہ ملکوں کے درمیان خلیج کو پُر کرنا

سرحد کے دونوں اطراف پر رہنے والے شہری اس بات پر پُر امید ہیں کہ خیرسگالی کا ایسا اظہار دونوں ملکوں کے درمیان موجود خلیج کو پُر کرے گا اور انہیں ایک دوسرے کے قریب لے آئے گا۔

افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ کے ترجمان حکمت صفی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "افغانستان اور پاکستان دونوں ہی تاریخی اور مذہبی طور پر ایک دوسرے سے قریبی طور پر جڑے ہوئے ہیں اور دونوں قومیں ایک دوسرے کے درد کو محسوس کرتی ہیں"۔

انہوں نے افغانستان کے صوبہ غزنی میں طالبان کی طرف سے کئی دن تک جاری تشدد اور "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کی طرف سے کابل کے تعلیمی مرکز پر کیے جانے والے ہلاکت خیز حملے کا حوالہ دیتے ہوئے جہاں طلباء کالج کے داخلے کے امتحانات کے لیے پڑھ رہے تھے، کہا کہ "ایسی تقریبات خوش آئند ہیں مگر یہ زیادہ خوشی کا موقعہ ہوتا اگر غزنی اور کابل میں ہونے والے حالیہ واقعات نہ ہوئے ہوتے"۔

انہوں نے کہا کہ کابل اور اسلام آباد میں سیاسی سطح پر اگرچہ کچھ کشیدگی موجود ہے مگر افغان اور پاکستانی شہریوں کی طرف سے پشاور میں مشترکہ جشن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاست پشتونوں کے حقیقی بندھن کو متاثر نہیں کر سکتی۔

انہوں نے کہا کہ "ہماری تاریخ اور قربانیاں ہمیں الگ رہنے کی اجازت نہیں دیں گی۔ ہمارا خون مشترک ہے اور ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں"۔

افغانستان میں پیدا ہونے والے تاجر حاجی پرویز جو پشاور میں ایک سُپر سٹور کے مالک ہیں، نے باب پشاور پُل جو کہ "سیلفی پُل" کے طور پر بھی مشہور ہے، پر لہرانے والے پاکستانی اور افغان پرچموں کی طرف اشارہ کیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "میں پاکستان اور افغان شہریوں کو اکٹھا مل کر جشن مناتا ہوا دیکھ کر بہت خوش ہوں"۔

انہوں نے کہا کہ "حکومتی سطح پر سیاسی زبانی جھگڑوں سے قطع نظر، دونوں ملکوں کے شہری قریبی طور پر جڑے ہوئے ہیں اور وہ ایک دوسرے کے لیے بہت زیادہ احترام اور محبت رکھتے ہیں

افغانستان میں پیدا ہونے والے ٹیکسی ڈرائیور وحید اللہ جو پشاور میں کام کرتے ہیں، نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "دیکھیں۔۔۔ ہم کتنے خوش ہیں -- پاکستانی اور افغان دونوں ہی۔ ہم اپنی حکومتوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے معمولی مسائل کو حل کریں اور دونوں ملکوں کی ترقی میں مدد کریں"۔

درست سمت میں ایک قدم

پشاور سے تعلق رکھنے والے، افغانستان اور پاکستان کے مسائل کے عالم پروفیسر اعجاز احمد نے کہا کہ مشترکہ تقریبات اور سرحد پر دونوں ملکوں کے درمیان تحائف کے تبادلے کے تعلقات پر مثبت اثرات ہوں گے"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ ایک چھوٹا مثبت قدم گے مگراختلافات کو مٹانے اور خلیج کو پُر کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس صورتِ حال میں عوام حقیقی طور پر حالات کو بدلنے والے ہیں"۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے سینئر سیکورٹی تجزیہ نگار برگیڈیر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے کہا کہ افغانی اور پاکستانی لوگوں اور سرحدی گارڈز کے درمیان رابطہ اور نیک خواہشات کا تبادلہ اچھا ہے مگر دونوں حکومتوں کو علاقے میں امن کی بحالی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جسے صرف مشترکہ طور پر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "مسقبل میں بہتر تعلقات کے لیے، ایسے اشارے ایک شروعات ہو سکتے ہیں مگر افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر دیرپا اثرات اور مسلسل موجود کشیدگی کو ختم کرنےکے لیے زیادہ بڑے اقدامات کی ضرورت ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500