سفارتکاری

مشاہدین نے امریکہ کے بارے میں عمران خان کے سفارتی موقف کی تعریف کی ہے

ضیاء الرحمان

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا ایک حامی، 26 جولائی کو اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے راہنما، عمران خان کے پوسٹر کے سامنے کھڑا ہے۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا ایک حامی، 26 جولائی کو اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے راہنما، عمران خان کے پوسٹر کے سامنے کھڑا ہے۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

اسلام آباد -- پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان، جو پاکستان کے بہت جلد وزیراعظم بننے والے ہیں، نے امریکہ کے ساتھ "متوازن تعلقات" قائم کرنے کا عہد کیا ہے۔

امریکہ پاکستان کی طرف سے 1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے، اس کا بنیادی اتحادی رہا ہے مگر گزشتہ تین دہائیوں سے دونوں ممالک کے تعلقات اونچ نیچ کا شکار رہے ہیں۔

ڈان نے خبر دی ہے کہ خان نے پاکستان کے لیے امریکہ کے قائم مقام سفیر جان ایف ہوور سے بدھ (8 اگست) کو کہا کہ "ہماری حکومت امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرے گی تاکہ اس تعلق کو زیادہ متوازن اور بااعتماد بنایا جا سکے۔ ہم امریکہ کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو انتہائی اہم تصور کرتے ہیں"۔

خان نے سفارتی تعلقات کو بحال کرنے اور دونوں ممالک کے فائدے کے لیے تعلقات میں تبدیلی لانے پر زور دیا۔

خارجہ سیکریٹری تہمینہ جنجوعہ (بائیں) اور امریکہ کی سفیر ایلس ویلس 2 جولائی کو اسلام آباد میں ملاقات کر رہی ہیں۔ ویلس نے 30 جون کو پاکستان پر زور دیا کہ وہ افغان طالبان پر امن کے عمل میں شامل ہونے کے لیے مزید دباؤ ڈالے۔ ]حکومتِ پاکستان[

خارجہ سیکریٹری تہمینہ جنجوعہ (بائیں) اور امریکہ کی سفیر ایلس ویلس 2 جولائی کو اسلام آباد میں ملاقات کر رہی ہیں۔ ویلس نے 30 جون کو پاکستان پر زور دیا کہ وہ افغان طالبان پر امن کے عمل میں شامل ہونے کے لیے مزید دباؤ ڈالے۔ ]حکومتِ پاکستان[

خان نے اس سے پہلے عام انتخابات میں اپنی جماعت کی کامیابی کے بعد 26 جولائی کو نشر ہونے والی اپنی فتح کی تقریر میں کہا تھا کہ "ہم امریکہ کے ساتھ ایک ایسا تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں جس سے دونوں ممالک کو فائدہ ہو، یہ ایک متوازن تعلق ہو اور انشاء اللہ ہم متوازن تعلق قائم کرنے کے لیے اپنی پوری کوشش کریں گے"۔

خان نے انتخابی مہم کے دوران بار بار کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ختم کرنے سے آگے چل نہیں سکتا۔

اپنے حصہ کے طور پر، امریکی انتظامیہ نے بھی کہا کہ وہ پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کی مشتاق ہے۔

امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک ترجمان نے 27 جولائی کے ایک بیان میں کہا کہ "نئی حکومت سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے منتخب راہنماؤں کی طرح، امریکہ ان کے ساتھ کام کرنے کے ایسے مواقع تلاش کرے گا جن سے سیکورٹی، استحکام اور جنوبی ایشیاء میں خوشحالی کے ہمارے مقاصد میں پیش رفت ہو سکے"۔

مشکلات باقی ہیں

اگرچہ پاکستانی تجزیہ کاروں نے خان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کے وعدے کو خوش آمدید کہا ہے مگر ابھی بھی مشکلات باقی ہیں۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے صحافی احسان اللہ محسود جو بین الاقوامی جرائد کے لیے سیکورٹی تعلقات کو کور کرتے ہیں، نے کہا کہ "پی ٹی آئی کا چین کی طرف رحجان واشنگٹن میں احتیاط کے ساتھ دیکھا جائے گا"۔

محسود نے کہا کہ دوسری طرف، خان اپنے پہلے عوامی خطاب میں امریکہ کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات کے خواہش مند تھے جو باہمی احترام پر بنیاد رکھتے ہوں، یہ موقف انتخابات سے پہلے علاقے میں امریکہ کی پالیسیوں کے بارے میں ان کی تنقید کے برعکس تھا۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگار ریئس احمد نے امریکہ کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے خان کے عہد کی حمایت کی۔

احمد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "آنے والی حکومت کی پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کو بڑے پیمانے پر خوش آمدید کہا جائے گا مگر ایسا قدم بہت دشوار ہو گا۔ عمران نے اپنی تقریر میں ایک مثبت اور ترقی پسند لہجا اپنایا"۔

احمد نے کہا کہ "پاکستان کو بھی دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے باعث مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان اور اس کے ساتھ ہی ہمسایہ ممالک جیسے کہ افغانستان اور انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات، علاقے میں امن لا سکتے ہیں"۔

افغانستان ایک بڑا مسئلہ

تجزیہ نگاروں کے مطابق، افغانستان میں تنازعہ، امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں حالیہ تنزلی کے پیچھے موجود بڑی وجہ ہے۔

احمد نے کہا کہ "پاکستان اور امریکہ کے درمیان اچھے تعلقات کا راستہ افغانستان سے گزرتا ہے۔ اور عمران نے پاکستانی سرحدوں کے اندر عسکریت پسند گروہوں کی موجودگی سے نپٹنے کے سوال کے بارے میں کچھ نہیں کہا"۔

افغان اور امریکی حکام نے افغان طالبان پر پاکستان کے اندر موجود پناہ گاہوں کو ہلاکت خیز حملے کرنے کے لیے استعمال کرنے کا مسلسل الزام لگایا ہے۔ اسلام آباد نے ایسے دعوؤں کی تردید کی ہے اور الزام لگایا ہے کہ پاکستانی عسکریت پسند گروہ جیسے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان کے سرحدی علاقوں میں چھپے ہوئے ہیں۔

جنوری میں، واشنگٹن نے اپنی زمین پر دہشت گرد گروہوں سے نپٹنے میں مبینہ ناکامی پر پاکستان کی سیکورٹی کی امداد کو معطل کر دیا تھا۔

بعد میں جون میں، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) جو کہ منی لانڈرنگ کا ایک عالمی واچ ڈاگ ہے، نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے سرمایے کی فراہمی کو روکنے میں "اسٹریٹجک خامیوں" کے باعث پاکستان کو اپنی "گرے لسٹ" میں شامل کر دیا تھا۔

عمران خان نے 26 جولائی کی اپنی تقریر میں افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات پر بھی زور دیا اور اس کے لیے کھلی سرحدوں اور آزاد تجارت کی تجویز پیش کی۔

ان کے تبصرے سے سیاسی تجزیہ نگاروں میں امید پیدا ہو گئی ہے کہ خان علاقے میں امن لانے، سرحدی کشیدگی کو کم کرنے اور بین سرحدی تجارت اور سفر کو فروغ دینے کے لیے کام کریں گے۔ تاہم، ابھی بھی یہ تشویش باقی ہے کہ پاکستان کی مضبوط فوج کو سامنے رکھتے ہوئے، حکومت افغانستان میں آزادانہ پالیسی کو اپنانے میں کامیاب نہیں رہے گی۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگار اور پشاور یونیورسٹی کے سابقہ فیکلٹی ممبر اعجاز خان نے کہا کہ خان کے تبصروں کا مقصد افغانستان اور انڈیا کے ساتھ سودے باری کی بہتر پوزیشن حاصل کرنا اور پاکستان کی سیکورٹی پالیسی کی ہمت افزائی کرنا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات یا کسی بھی دو ممالک کے درمیان تعلقات "سودے بازی کا ایک مسلسل عمل" ہوتے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500