معیشت

مکران کے شہری ایران کی طرف سے بجلی بند کرنے پر احتجاج کر رہے ہیں جبکہ معاشی بحران منڈلا رہا ہے

عبدل غنی کاکڑ

مظاہرین، اگست میں گوادر ڈسٹرکٹ، صوبہ بلوچستان میں بجلی کے بحران کے بارے میں مذمتی کتبے اٹھائے ہوئے ہیں۔ ]عبدل غنی کاکڑ[

مظاہرین، اگست میں گوادر ڈسٹرکٹ، صوبہ بلوچستان میں بجلی کے بحران کے بارے میں مذمتی کتبے اٹھائے ہوئے ہیں۔ ]عبدل غنی کاکڑ[

کوئٹہ -- مشاہدین کا کہنا ہے کہ ایران کی طرف سے بلوچستان کے ساحلی علاقوں کی بجلی بند کر دینے سے عوامی غصہ بھڑک رہا ہے اور کاروباری شعبے کے انتہائی شدید نقصان پہنچا ہے۔

ایران عام طور پر ان علاقوں کو 100 میگاواٹ تک بجلی فراہم کرنے کے معاہدے کے حصہ کے طور پر 80 میگا واٹ بجلی فراہم کرتا ہے۔

ایران بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو80 میگا واٹ بجلی روزانہ فراہم کرتا رہا ہے مگر اسے غیر سرکاری طور پر گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے کسی وجہ کے بغیر بند کر دیا گیا ہے۔ یہ بات پاکستان کی نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کوآپریشن کے سینئر اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پاکستان فارورڈ کو بتائی۔

انہوں نے کہا کہ "ہمیں اپنے ساحلی علاقوں کو ایرانی بجلی کی فراہمی کے خاتمے پر بہت تشویش ہے جو کہ دونوں ممالک کے درمیان معاہدے کی خلاف ورزی ہے"۔

پنجگور کے رہائشی 9 جولائی کو ایران کی طرف سے ان کی ڈسٹرکٹ کی بجلی بند کر دینے کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ]عبدل غنی کاکڑ[

پنجگور کے رہائشی 9 جولائی کو ایران کی طرف سے ان کی ڈسٹرکٹ کی بجلی بند کر دینے کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ]عبدل غنی کاکڑ[

انہوں نے کہا کہ ایران کی طرف سے سرحد کی اپنی طرف بجلی کی قلت کا دعوی سچ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ایران کے پاس ملک میں 70,000 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی اہلیت ہے اور ہر سال یہ اپنے مرکزی نظام میں 5,000 میگا واٹ کا اضافہ کرتا ہے۔ پاکستان کے علاوہ ایران ترکی، عراق، افغانستان، آزربائیجان اور ترکمانستان کو بھی بجلی برآمد کرتا ہے"۔

اہلکار نے کہا کہ "ہماری ساحلی پٹی کے علاقوں کو بجلی کی فراہمی بند کرنے کی ہو سکتا ہے کہ کوئی اور وجہ ہو کیونکہ ایران جو بجلی پیدا کرتا ہے وہ ملک کی ضروریات سے کہیں زیادہ ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "ایران کو بجلی کی معطلی کی سفارتی اور دیگر متعلقہ ذرائع سے وضاحت کرنی چاہیے"۔

معاہدے کی خلاف ورزی

کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کے ایک سینئر اہلکار محمد الیاس نے کہا کہ ایران نے ستمبر 2003 میں پاکستان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے کہ وہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو بجلی فراہم کرے گا"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ابتدا میں وہ روزانہ 35 میگا واٹ فراہم کرتا تھا مگر بعد میں بجلی کی صلاحیت بڑھ کر 100 میگا واٹ ہو گئی"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم نے اس مسئلے کو متعلقہ ایرانی حکام کے سامنے اٹھایا ہے تاکہ اس کا مستقل حل نکالا جا سکے مگر انہوں نے ابھی تک کوئی مناسب قدم نہیں اٹھایا ہے۔ بجلی کی معطلی ایک سنگین مسئلہ ہے اور ہم ایران سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اسے جلد ہی حل کر لے گا"۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکام نے اس مسئلے کو کوئٹہ میں ایران کے کونسل جنرل کے سامنے اٹھایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے "مزید کوششیں کی جا رہی ہیں"۔

پنجگور ڈسٹرکٹ کے ایک سیاسی راہنما واحد بلوچ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "بلوچستان کی ساحلی پٹی -- جس میں گوادر، پسنی، ارمارا، پنجگور اور دوسرے علاقے شامل ہیں -- کو ایرانی بجلی کی فراہم کا معطل ہونا -- ہمارے علاقے میں گھریلو استعمال اور کاروباری شعبے کو بری طرح متاثر کر رہا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم نے متعلقہ حکام کے سامنے اپنی تشویش کو کئی بار اٹھایا ہے ۔۔۔ مگر وہ کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھا رہے ہیں"۔

ایران کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اور اس معاہدے کی خلاف ورزی جس پر اس نے پاکستان کے ساتھ دستخط کیے تھے، بلوچستان کے متاثرہ علاقوں میں ایران کی طرف عوامی غصے کو بھڑکا رہے ہیں۔ یہ بات بلوچ نے کہی۔

انہوں نے کہا کہ "یہ ہمارے ملک کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ یا تو ہماری عوام کو اپنے وسائل سے یہ سہولت فراہم کرے یا ایران سے معاہدے کی اس بڑی خلاف ورزی کے بارے میں وضاحت طلب کرے"۔

انہوں نے کہا کہ "بلوچستان کی ہماری 760کلومیٹر طویل ساحلی پٹی کے ہر علاقے میں شہری بجلی کی قلت کے بارے میں مظاہرہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے پینے کے صاف پانی کی شدید قلت بھی پیدا ہو رہی ہے"۔

پاکستانیوں کو مشکلات کا سامنا

انجمنِ تاجران ٹریڈ ایسوسی ایشن کے ایک راہنما شوکت بلوچ نے 5 اگست کو پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "بجلی کی عدم دستیابی نے ہماری کاروباری سرگرمیوں کو روک دیا ہے اور گوادر اور مکران ڈویژن کے دوسرے علاقوں کے تاجر گزشتہ 18 دنوں سے احتجاج کر رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ایرانی بجلی کے بند ہو جانے کے باعث، فروخت میں 80 فیصد کمی آئی ہے اور ہماری برادری کو انتہائی شدید مالی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے"۔

بلوچ نے کہا کہ "ہم بلوچستان کی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایرانی بجلی کی فراہمی کو دوبارہ سے بحال کرنے کے لیے فوری طور پر قدم اٹھائے"۔

گوادر ڈسٹرکٹ کے علاقے پسنی سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن محمد نبی نے کہا کہ "ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہمارے عوام کو آرام مہیا کرنے کے لیے مناسب اقدامات اٹھائے کیونکہ اس گرم ترین موسم میں بجلی کے نہ ہونے کے باعث ہمارے لوگ مصائب کا شکار ہیں"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "بجلی کی قلت بلوچستان کی مکرانی پٹی میں ایک اہم ترین مسئلہ کے طور پر ابھر رہی ہے جہاں کے رہائشی زیادہ تر ایرانی بجلی پر انحصار کرتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "بجلی کے نہ ہونے کے باعث عوام بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور گزشتہ تین ہفتوں سے ہر مکتبہِ فکر کے ارکان پنجگور، تربت، پسنی اور دوسرے علاقوں میں مظاہرے کر رہے ہیں"۔

ایران کا دہرا کھیل

"ایران نے ہمیشہ دوہرا کھیل کھیلا ہے اس لیے ہم اس کے اس دعوی پر یقین نہیں کر سکتے کہ ہمارے ساحلی علاقوں کو ایرانی بجلی کی فراہمی ایران میں بجلی کی کمی کے باعث بند ہوئی ہے"۔ یہ بات نبی نے کہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران اپنی سرحد کے ساتھ واقع دوسرے علاقوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کرچکا ہے جنہیں وہ بجلی فراہم کرتا تھا۔

نبی نے کہا کہ "صوبہ سیستان و بلوچستان، ایران میں شہری اپنے حقوق کے لیے مظاہرے کر رہے ہیں اور وہاں پر آزادی کی تحریک جاری ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "ہماری قبائلی پٹی کے بہت سے رہائشیوں کے سرحد کی دوسری طرف قریبی تعلقات ہیں اور وہاں کے آبادی میں ان کے رشتہ دار بھی ہیں۔ ایران اسٹریٹجک فوائد کے لیے ان لوگوں کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے"۔

طافتان سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے تجزیہ کار شانتل گرگناری نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ساحلی پٹی میں بجلی کا بحران مصنوعی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی ایرانی حکومت صوبہ سیستان و بلوچستان میں سنی آبادی کو دبانا چاہتی ہے تو بلوچستان کے ساحلی علاقوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور احتجاج کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس حمایت سے ایران میں خوف پیدا ہو جاتا ہے اور بجلی کو بند کرنے سے ایرانی حکومت ایک پیغام پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران نے گزشتہ دو سالوں کے دوران بلوچستان کوبجلی کی فراہمی بند کرنے سے اس پر دباؤ ڈالنے کی "کئی بار کوشش" کی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500