انتخابات

پاکستانی رائے دہندگان نے نوجوان، تعلیم یافتہ امیدواروں کی حمایت میں انتہاپسندوں کو مسترد کر دیا

از جاوید خان

پی ٹی آئی کے امیدوار مراد سعید 22 جولائی کو پوسٹ کی گئی ایک تصویر میں انتخابی مہم کی ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے۔ مراد سعید نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 4 سوات 3 جیتنے کے لیے 71،600 ووٹ حاصل کیے۔ وہ ان بہت سے نوجوان افراد میں سے ایک ہیں جو پاکستان میں سیاست کے چہرے کو تبدیل کر رہے ہیں۔ [مراد سعید/فیس بُک]

پی ٹی آئی کے امیدوار مراد سعید 22 جولائی کو پوسٹ کی گئی ایک تصویر میں انتخابی مہم کی ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے۔ مراد سعید نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 4 سوات 3 جیتنے کے لیے 71،600 ووٹ حاصل کیے۔ وہ ان بہت سے نوجوان افراد میں سے ایک ہیں جو پاکستان میں سیاست کے چہرے کو تبدیل کر رہے ہیں۔ [مراد سعید/فیس بُک]

پشاور -- نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں رائے دہندگان نے حالیہ عام انتخابات میں انتہاپسند نظریات رکھنے والے امیدواروں کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا ہے، اور اس کی بجائے نوجوان اور تعلیم یافتہ امیدواروں کا ساتھ دیا ہے۔

لگ بھگتمام امیدوار جو شدت پسند جماعتوں کی جانب سے کھڑے کیے گئے تھےانتخابات کے دوران رائے دہندگان کی جانب سے مسترد کر دیئے گئے، جس میں قومی اسمبلی نیز پاکستان کے چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار شامل تھے۔

پشاور کے مقامی صحافی، یوسف علی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "پورے خیبرپختونخوا [کے پی] میں شدت پسند جماعتوں کی جانب سے کھڑے کیے گئے تمام امیدواروں کو اپنے حریفوں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔"

کالعدم اہلِ سنت والجماعت (اے ایس ڈبلیو جے) کی نمائشی جماعت، پاکستان راہِ حق، ملک میں ایک بھی نشست جیتنے میں ناکام رہی۔ اے ایس ڈبلیو جے کے امیر ابراہیم قاسمی خود بھی حلقہ پی کے 75 (لکی مروت-2) میں شکست کھا گئے۔

تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے امیر، خادم حسین رضوی (سامنے درمیان میں)، 30 جولائی کو لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے۔ [عارف علی / اے ایف پی]

تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے امیر، خادم حسین رضوی (سامنے درمیان میں)، 30 جولائی کو لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے۔ [عارف علی / اے ایف پی]

وسیع طور پر دہشت گرد سمجھی جانے والی جماعت کے بانی، حافظ سعید (درمیان میں)، اپنی نئی بنائی گئی سیاسی جماعت اللہ اکبر تحریک کے ارکان کے ساتھ ہتھیار بلند کیے ہوئے، جب وہ 21 جولائی کو اسلام آباد میں انتخابی مہم کے سلسلے میں ایک اجتماع میں شریک ہوئے۔ [عامر قریشی/ اے ایف پی]

وسیع طور پر دہشت گرد سمجھی جانے والی جماعت کے بانی، حافظ سعید (درمیان میں)، اپنی نئی بنائی گئی سیاسی جماعت اللہ اکبر تحریک کے ارکان کے ساتھ ہتھیار بلند کیے ہوئے، جب وہ 21 جولائی کو اسلام آباد میں انتخابی مہم کے سلسلے میں ایک اجتماع میں شریک ہوئے۔ [عامر قریشی/ اے ایف پی]

پشاور میں لگے ایک بل بورڈ پر راہِ حق جماعت کے سربراہ، ابراہیم قاسمی کو دکھایا گیا ہے۔ انہیں 25 جولائی کے انتخابات کے دوران خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشست کے لیے مقابلے میں شکست ہوئی تھی۔ [جاوید خان]

پشاور میں لگے ایک بل بورڈ پر راہِ حق جماعت کے سربراہ، ابراہیم قاسمی کو دکھایا گیا ہے۔ انہیں 25 جولائی کے انتخابات کے دوران خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشست کے لیے مقابلے میں شکست ہوئی تھی۔ [جاوید خان]

علی نے کہا، "قاسمی 6،232 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے ان کے مقابلے میںپاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)کے امیدوار واجد اللہ نے 27،659 ووٹ اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کےسید عقیل شاہ نے 8،484 ووٹ حاصل کیے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ اللہ اکبر تحریک (اے اے ٹی) کے امیدوار، ظفر علی نے پی کے-75 میں 283 ووٹ حاصل کیے۔ یہ جماعتملی مسلم لیگ (ایم ایم ایل)کی نمائندگی کرتی ہے، ایک سیاسی جماعت جو گزشتہ برس حافظ سعید کی جماعت الدعوۃ (جے یو ڈی)کی جانب سے بنائی گئی تھی -- جو کی عسکری تنظیم لشکرِ طیبہ (ایل ای ٹی) کا فلاحی ونگ ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے جون میں ایم ایم ایل پربطور ایک سیاسی جماعت اندراج کروانے پرپابندی عائد کر دی تھی۔

حافظ سعید کے بیٹے طلحہ سعید اور ان کے داماد خالد ولید دونوں نے اے اے ٹی کے بینر تلے انتخابات میں حصہ لیا۔ دونوں ہی ہار گئے، جیسے کہ اس جماعت کے دیگر تمام امیدوار ہارے تھے۔

دریں اثناء، خادم حسین رضوی کی زیرِ قیادت شدت پسند دینی تحریک تحریکِ لبیک یا رسول اللہ پاکستان کے سیاسی ونگ، تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے امیدوار، شکیل علی شاہ نے پی کے-75 میں صرف 233 ووٹ حاصل کیے۔

علی کے مطابق، حلقہ پی کے-64 میں حکام نے غلطی سے ٹی ایل پی کے امیدوار، حیدر علی شاہ، کو فاتح قرار دے دیا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے اپنی غلطی کی تصحیح کر لی -- خیبرپختونخوا کے سابق وزیرِ اعلیٰ پی ٹی آئی کے پرویز خٹک حیدر علی شاہ کے 3،935 ووٹوں کے مقابلے میں 38،234 ووٹوں کے ساتھ جیت گئے۔

ٹی ایل پی نے پورے ملک میں 180 امیدوار کھڑے کیے تھے۔ صرف دو نے سندھ کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر فتح حاصل کی اور قومی اسمبلی کی نشست کوئی بھی نہ جیت سکا۔

انتخابات میں کم انتہاپسندانہ پلیٹ فارم رکھنے والی دیگر مذہبی رجحان کی جماعتوں نے بھی ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ مرکزی دھارے کی اسلامی جماعتوں کے قائدین اپنے آبائی حلقوں میں نشستیں جیتنے میں ناکام رہے۔

جماعت اسلامی (جے آئی) کے امیر، سراج الحق، دیر میں پی ٹی آئی کے امیدوار سے شکست کھا گئے۔

جمعیت علمائے اسلام (فضل) (جے یو آئی-ایف) کے امیر، مولانا فضل الرحمان ڈیرہ اسماعیل خان میں قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر ہار گئے۔ پی ٹی آئی کے امیدواروں نے دونوں مقابلوں میں انہیں شکست دی۔

کے پی کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور متحدہ مجلسِ عمل (ایم ایم اے) کے رکن، اکرم خان درانی، حلقہ این اے-35 (بنوں) میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان سے شکست کھا گئے۔ ان کی جماعت نے سنہ 2002 میں 63 نشستوں کے مقابلے میں، اس بار قومی اسمبلی کی صرف 12 نشستیں حاصل کیں۔

انتہاپسندی کو مسترد کرنا

پی ٹی آئی کے ایک ترجمان، عمیر خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "پورے ملک میں [رائے دہندگان نے] انتہاپسند عناصر کو مسترد کر دیا اور نوجوان اور تعلیم یافتہ امیدواروں کو ووٹ دیا۔"

انہوں نے مزید کہا، پی ٹی آئی نے پورے ملک میں بہت سے نوجوان مرد و خواتین کو ٹکٹ دیئے تھے، جن میں سے بہت سے اپنی عمر کے 30 ویں عشرے کے اوائل میں اور کچھ 20 ویں عشرے کے اختتام میں تھے۔

خان نے کہا، "صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں داخل ہو رہے یہ تمام مرد و خواتین تعلیم یافتہ ہیں اور انہوں نے اپنے متعلقہ شعبوں میں مہارت حاصل کر رکھی ہے۔"

پی ٹی آئی نے ایک خاتون امیدوارحمیدہ شاہد کو، حلقہ پی کے-10 (دیر-1)سے کھڑا کیا تھا، جو کہ مالاکنڈ ڈویژن کا ایک انتہائی رجعت پسند حصہ ہے۔ گزشتہ برسوں میں مالاکنڈ طالبان کے زیرِ اثر رہا ہے۔

اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار ملک بادشاہ صالح 20،936 ووٹوں کے ساتھ فاتح رہے، شاہدہ نے حلقے میں 10،904 ووٹ حاصل کیے جو کہ تاریخی طور پر خواتین کو ووٹ ڈالنے دینے کا بھی مخالف رہا ہے۔علاقے کی بہت سی خواتین نے جولائی میں زندگی میں پہلی بار ووٹ ڈالا۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک کالم نگار اور سیاسی مبصر پروفیسر یاسمین علی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "انتہاپسند جماعتوں کی جانب سے کھڑے ہونے والے امیدواروں کو مسترد کرنا پاکستان کے عوام کی جانب سے ایک پختہ سوچ کی نمائندگی کرتا ہے، جو انتہاپسندی سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ ان عناصر کا مرکزی دھارے میں خیرمقدم صرف تبھی کیا جائے گا اگر وہ کھلے عام انتہاپسندی کی مذمت کریں اور یہ وعدہ کرتے ہوئے ایک تحریری حلف نامہ دیں کہ وہ مستقبل میں ایسی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوں گے۔‎

علی نے کہا، "ان جماعتوں کی جانب سے انتخابات میں کھڑے کیے گئے لگ بھگ تمام امیدوار ہار گئے، ماسوائے سندھ میں ایک یا دو کے۔"

تشویش باقی

اے ایف پی نے کہا ہے کہ اگرچہ اسلامی بنیاد پرست جماعتوں کی جانب سے کھڑے کیے گئے 1،500 سے زائد امیدواروں میں سے چند ایک نے نشستیں جیتیں، ان جماعتوں نے مجموعی طور پر جتنے ووٹ حاصل کیے اس پرتشویش باقیہے۔

ای سی پی کے مطابق، ٹی ایل پی کو قومی اسمبلی کے انتخابات میں 2.23 ملین ووٹ پڑے، جو کہ اس کا پہلا عام انتخاب ہے، اور صوبائی اسمبلیوں میں اسے 2.38 ملین سے زائد ووٹ پڑے۔

اے اے ٹی نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں 435،000 سے زائد ووٹ حاصل کیے۔

سیاسی مبصر فصیح ذکاء نے اے ایف پی کو بتایا، "ان کے مجموعی ووٹوں کی تعداد حیران کن ہے۔"

ذکاء کے مطابق، ان کا کافی زیادہ ووٹ بینک انہیں بڑھتے ہوئے مسابقتی سیاسی منظرنامے میں حوصلہ دے گا۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، "اس انتخاب کے متعلق دلچسپ بات یہ ہے کہ ۔۔۔ یہ اگلے پانچ برسوں میں پاکستان کے لیے کس قسم کی جگہ بناتا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اسلامی ونگز کے ناکام ہونے کی اہم وجہ انجینئرڈ اور دھاندلی زدہ انتخاب ہے

جواب

......Jihad Ta Qayamat Jari Rahega

جواب