سلامتی

قومی ایکشن پلان پر ’صفر برداشت‘ ثمر آور

جاوید محمود

19 مارچ کو پاکستان سپر لیگ کے کرکٹ میچ سے قبل قذافی سٹیڈیم کے باہر پاکستانی فوجی گشت کر رہے ہیں۔ مشاہدین کا کہنا ہے کہ این اے پی کے نتیجہ میں سیکیورٹی میں ہونے والی بہتری کی وجہ سے پاکستانی روزمرہ کی ثقافتی تقاریب میں شرکت کر سکتے ہیں۔ [عارف علی/اے ایف پی]

19 مارچ کو پاکستان سپر لیگ کے کرکٹ میچ سے قبل قذافی سٹیڈیم کے باہر پاکستانی فوجی گشت کر رہے ہیں۔ مشاہدین کا کہنا ہے کہ این اے پی کے نتیجہ میں سیکیورٹی میں ہونے والی بہتری کی وجہ سے پاکستانی روزمرہ کی ثقافتی تقاریب میں شرکت کر سکتے ہیں۔ [عارف علی/اے ایف پی]

اسلام آباد – ادارہ برائے تزویری علوم اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) کے مطابق، جنوری 2015 میں شروع ہونے والا قومی ایکشن پلان (این اے پی) تاحال پاکستان میں امن کی راہ ہموار کر رہا ہے۔

یہ رپورٹ عسکریت پسندی کو کچلنے اور ملک میں بحالیٴ امن کے سلسلہ میں پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں کی کامیابیوں پر روشنی ڈالتی ہے۔

دہشتگردی کے لیے فراہمیٴ مالیات کے خلاف کریک ڈاؤن

14 جون کو شائع ہونے والی رپورٹ تحریر کرنے والے آئی ایس ایس آئی ریسرچ فیلو، اسد اللہ خان کے مطابق، جنوری 2015 سے مارچ 2018 تک پاکستانی حکام نے کالعدم عسکریت پسند گروہوں سے منسلک 4,962 مالیاتی کھاتے منجمد کیے— جو 94 بلین روپے (817 ملین ڈالر) کی نمائندگی کرتے ہیں۔

حکام نے غیر قانونی حوالہ کے 919 واقعات درج کیے، جس کے نتیجہ میں 1209 گرفتاریاں ہوئیں اور 1.5 بلین روپے (13 ملین ڈالر) ضبط ہوئے۔ مزید برآں غیر قانونی ترسیلِ زر کے 426 واقعات درج ہوئے، جس کے نتیجہ میں 574 گرفتاری ہوئیں۔

انٹر سروسز پبلک ریلیشنز نے 28 جون کو خبر دی کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز کے دوران اسلحہ اور گولہ بارود کا ایک بڑا زخیرہ دریافت کیا۔ [انٹر سروسز پبلک ریلیشنز]

انٹر سروسز پبلک ریلیشنز نے 28 جون کو خبر دی کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز کے دوران اسلحہ اور گولہ بارود کا ایک بڑا زخیرہ دریافت کیا۔ [انٹر سروسز پبلک ریلیشنز]

ایک معاشیات دان اور کراچی میں محمّد علی جناح یونیورسٹی کے ڈین شجاعت مبارک نے کہا، "پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 120 بلین ڈالر [14 ٹرلین روپے] مالیت سے زائد کے نقصانات اٹھائے، اور [این اے پی] نے اس مالیاتی رساؤ کا خاتمہ کیا۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "غیر قانونی ترسیلِ زر کے خلاف کریک ڈاؤن کو شدید تر کیا جانا چاہیئے، جبکہ عسکریت پسندوں کی دراندازی کو مزید کم کرنے کے لیے سرحدوں اور ہوائی اڈّوں کی انتظامیہ کو سخت تر کیا جانا چاہیئے۔"

انہوں نے کہا، "انسدادِ دہشتگردی سے متعلقہ سیکیورٹی اہلکاروں کی استعداد میں اضافہ ناگزیر ہے، جبکہ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور سیکیورٹی اداروں کے مابین معلومات کے تبادلہ اور تعاون میں مزید بہتری لائے کی ضرورت ہے۔"

’صفر برداشت‘ نتیجہ خیز

اسلام آباد میں نظریہٴ پاکستان فورم اور پاکستان اکانومی واچ کے صدر، ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا، "ملک کے مختلف حصّوں میں سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز اور صفائی کے آپریشنز نے نہ صرف دہشتگردی کے خدشہ کو کم کیا بلکہ عسکریت پسند نیٹ ورکس کو شدید دھچکہ بھی لگایا۔"

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی سے متعلقہ اموات میں تیزی سے کمی آئی، جو کہ 2014 میں 5,496 کے مقابلہ میں کم ہو کر 2017 میں 1,260 رہ گئیں۔

انہوں نے ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جنوری 2018 سے 10 جون تک دہشتگردی سے متعلقہ صرف 254 اموات کی اطلاع دی گئی، جن میں 79 عام شہری، 87 سیکیورٹی اہلکار اور 88 عسکریت پسند شامل ہیں۔

مغل نے کہا، "یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ قومی ایکشن پلان کے تحت اپنائی گئی صفر برداشت کی حکمتِ عملی نے ملک میں دہشتگرد نیٹ ورکس کا صفایا کر دیا اور ان کی فراہمیٴ مالیات کو مسدود کیا، جبکہ کالعدم گروہوں کے بدنام رہنماؤں [کو مجبور کیا گیا کہ وہ فرار ہو کر] افغانستان جاکر اپنی زندگیاں بچائیں۔"

انہوں نے کہا، "آج پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ تقریباً جیت چکا ہے۔ یہ اس امر سے ثابت ہے کہ ملک میں امن ہے اور دسیوں لاکھوں شہری عسکریت پسندی کے خوف کے بغیر اپنے مذہبی اور ثقافتی تہوار پر امن طور پر منا رہے ہیں۔"

اسلام آباد اساسی تھنک ٹینک پاکستان ادارہ برائے علومِ تنازعات و سلامتی کے مینیجنگ ڈائریکٹر عبداللہ خان نے کہا، " قومی ایکشن پلان نے دہشتگردی کا خاتمہ کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور بعد از این اے پی سیکیورٹی فورسز اور حکومت کی کامیابی قابلِ تعریف ہے۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ این اے پی کے بارے میں آئی ایس ایس آئی کی رپورٹ کے نتائج حوصلہ افزا اور نہایت قابلِ پذیرائی ہیں۔

انہوں نے کہا، "قبل ازاں کسی نے بھی این اے پی کے نفاذ کی پیش رفت سے متعلق کوئی حقیقی تحقیق نہیں کی، جبکہ گزشتہ حکومت بھی درست طور پر عوام اور میڈیا کو این اے پی کی کامیابیوں سے آگاہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500