احتجاج

پشاور کے مہاجرین افغانستان بھر میں ہونے والے امن مارچ میں شریک ہوئے

خالد زری

خیبر پختونخواہ، پاکستان میں رہائش پذیر نوجوان افغان مہاجرین کے ایک گروہ نے 21 جون کو کابل تک مارچ کا آغاز کیا تاکہ طالبان اور دوسرے عسکری گروہوں سے مطالبہ کیا جا سکے کہ وہ لڑائی بند کر کے امن قائم کریں۔ ]خالد زری[

جلال آباد -- خیبر پختونخواہ، پاکستان میں قیام پذیر، نوجوان افغان مہاجرین کے ایک گروہ نے، پشاور سے کابل تک مارچ کیا جہاں انہوں نے افغانستان بھر میں ہونے والے مارچوں کے ساتھ شمولیت اختیار کی جو طالبان اور دوسرے عسکریت پسندوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ لڑائی بند کر کے امن قائم کریں۔

افغان ریفوجی یوتھ پیس کاروان نے 21 جون کو، پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم بارڈر کراسنگ سے مارچ کا آغاز کیا اور وہ 25 جون کا کابل پہنچا۔

گروپ کے راہنما جرنیل پختون کا تعلق افغانستان کے پکتیا صوبہ سے ہے مگر وہ پشاور میں قیام پذیر ہیں۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "مارچ کرنے والے 25 افراد تھے جنہوں نے پشاور سے امن کاروان کا آغاز کیا۔ ایسے بہت سے دوست جن کے پاس افغان پاسپورٹ نہیں تھے انہیں طورخم پر سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں واپس گھر بھیج دیا گیا۔ ہم میں سے 15 باقی بچے تھے اور ہم نے سفر کا آغاز کیا"۔

افغان مہاجر نوجوانوں کا ایک گروہ 21 جولائی کو جلال آباد میں دیکھا جا سکتا ہے، انہوں نے اس دن پہلے ایک امن کاروان کا آغاز کیا تھا۔ یہ گروہ پشاور سے کابل تک مارچ کر رہا ہے تاکہ طالبان سے امن قائم کرنے کا مطالبہ کیا جا سکے۔ ]خالد زری[

افغان مہاجر نوجوانوں کا ایک گروہ 21 جولائی کو جلال آباد میں دیکھا جا سکتا ہے، انہوں نے اس دن پہلے ایک امن کاروان کا آغاز کیا تھا۔ یہ گروہ پشاور سے کابل تک مارچ کر رہا ہے تاکہ طالبان سے امن قائم کرنے کا مطالبہ کیا جا سکے۔ ]خالد زری[

انہوں نے کہا کہ "ہم نے طورخم سے پیدل چلنے کا آغاز کیا مگر کچھ ایسی جگہیں جہاں ہمیں سیکورٹی کے خطرات کا سامنا تھا، ہم نے کار میں سفر کیا"۔

خبروں کے مطابق سات نوجوان سفر کرتے ہوئے افغانستان کے دارالحکومت پہنچ گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "یہ امن کا ایک مطالبہ ہے اور ہم اسے کابل تک پہنچائیں گے۔ دوسرے دوستوں اور سول سوسائٹی کے سرگرم کارکنوں نے راستے میں ہمارے ساتھ شرکت اختیار کر لی اور ہماری تعداد مارچ کرنے والوں کی بڑی تعداد تک بڑھ گئی ہے اور ہم پیدل کابل تک سفر کرنا چاہتے ہیں"۔

پختون نے کہا کہ "ہم طالبان اور دوسرے عسکریت پسندوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ امن بحال کریں۔ جنگ سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا"۔

'جنگ حل نہیں ہے'

طورخم کراسنگ سے کابل جاتے ہوئے تقریبا آدھے راستے پر آنے والے شہر جلال آباد میں، کاروان نے ننگرہار کے گورنر حیات اللہ حیات، مقامی شہریوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کے ساتھ ملاقات کی۔ بہت سے شہریوں نے کاروان میں شامل ہونے کا وعدہ کیا اور وہ پیدل کابل کے لیے روانہ ہوئے۔

حیات نے گروہ کو بتایا کہ "میں آپ کی تحریک کی تعریف کرتا ہوں اور آپ کو مبارک باد دیتا ہوں۔ عید الفطر کے موقع پر تین روزہ جنگ بندی کے دوران طالبان نے جب عوام کی طرف سے محبت کو دیکھا تو بہت سے شہریوں نے حکومت اور (ننگرہار امن کونسل) سے رابطہ کیا اور ملک میں امن کے آنے کے بارے میں اپنی امیدوں کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ طالبان کے گروہ امن کے عمل میں شریک ہو جائیں گے"۔

جلال آباد سے تعلق رکھنے والے سول سوسائٹی کے ایک رکن حامد محمودی جنہوں نے کاروان میں شمولیت اختیار کی کہا کہ "ہم امن کے اس مطالبے کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہم امن کی تلاش میں اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم اس مطالبے سے دستبردار نہیں ہوں گے کیونکہ یہ افغان شہریوں کے لیے ایک بڑی امید ہے"۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "خواہ وہ طالبان ہوں یا دوسرے گروہ، انہیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ وہ بہت سالوں سے لڑ رہے ہیں اور انہیں اموات یا زخموں کے علاوہ کچھ نہیں ملا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "جنگ کی وجہ سے بہت سی عورتیں بیوہ ہو گئی ہیں اور بچے یتیم ہو گئے ہیں اور انہیں اپنی گزر اوقات کے لیے بھیک مانگنی پڑ رہی ہے"۔

امن کے لیے بڑھتے ہوئے مطالبے

تازہ ترین امن کاروان، عوام کی طرف سے طالبان سے کیے جانے والے ان دوسرے مطالبات کی تقلید کرتا ہے جن میں طالبان سے امن کے عمل میں شامل ہونے کے لیے کہا گیا ہے۔

تقریبا 20 خواتین اور لڑکیوں نے 13 جون کو جلال آباد میں مخبرت چوک سے پشتونستان چوک تک مارچ کیا اور طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ امن قائم کریں اور انہوں نے حالیہ جنگ بندیوں کے لیے اپنی حمایت کا اعلان بھی کیا۔

قبل ازیں، لشکر گاہ میں نوجوانوں اور بزرگوں کے ایک گروہ نے "پیپلز پیس موومنٹ" کو بنایا۔

لشکرگاہ میں 50 دونوں تک ایک خیمے میں دھرنے کے بعد، جس کا آغاز 24 مارچ کو ہوا تھا، گروہ کے بہت سے ارکان نے اپنے مقصد کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے ہلمند سے کابل تک پیدل چلنے کا فیصلہ کیا۔

راستے میں، دوسرے لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے اور 19 جون کو درجنوں مظاہرین کابل پہنچے۔

ننگرہار صوبہ کے 28 سالہ شہری محمد انور نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "طالبان کو علم ہونا چاہیے کہ عوام نے عید کے موقع پر تین دونوں کے دوران ان کے لیے کسی قدر محبت کا اظہار کیا اور انہیں احساس ہو گیا ہے کہ عوام امن کے کس قدر پیاسے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "افغان شہری اب مزید لڑائی نہیں چاہتے ہیں اور جیسے میں نے ان کی خوشی دیکھی ہے میں کہہ سکتا ہوں کہ طالبان بھی لڑائی کو جاری رکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ انہیں امن قائم کرنا ہو گا"۔

انور نے کہا کہ "انہیں ہلمند کی پیپلز پیس موومنٹ اور پورے افغانستان کی طرف سے امن کے مطالبے کو لازمی سننا چاہیے۔ انہیں امن کی طرف آنا چاہیے"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم اب مزید ایک دوسرے کو مارنا نہیں چاہتے اور ایک دوسرے پر گولیاں نہیں برسانا چاہتے۔ یہ نتیجہ تک پہنچنے کا راستہ نہیں ہے۔ میں اس کاروان کی حمایت کرتا ہوں جس کا آغاز پشاور میں ہوا اور میں چاہتا ہوں کہ جنگ کا خاتمہ ہو جائے"۔

اس کاروان کی پرامن نوعیت کے باوجود، عسکریت پسندوں نے اس نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ جمعرات (28 جون) کو افغانستان کے صوبہ لوگر میں امن کے مظاہرے میں شریک آٹھ افراد ایک بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اس حملے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ طالبان اور دوسرے عسکریت پسندوں کو امن کے ان سرگرم کارکنوں سے ڈر لگا اور کہا کہ "امن اب پوری قوم کا بنیادی مطالبہ بن گیا ہے اور اب یہ عوام اور قوم کی خواہش بن گیا ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500