سلامتی

اے پی ایس میں بچ جانے والے اور والدین ملّا فضل اللہ کی موت پر خوشی منا رہے ہیں

اشفاق یوسفزئی

پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ٹی ٹی پی حملے کو دو برس پورے ہونے پر 16 دسمبر 2016 کو ملتان میں ایک تقریب کے دوران ایک لڑکی لالٹین اٹھائے رہائشیوں کے ساتھ شریک ہے۔ ٹی ٹی پی دہشتگردوں نے اس سکول میں 150 سے زائد بچوں اور اساتذہ کو قتل کیا۔ [ایس ایس مرزا/اے ایف پی]

پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ٹی ٹی پی حملے کو دو برس پورے ہونے پر 16 دسمبر 2016 کو ملتان میں ایک تقریب کے دوران ایک لڑکی لالٹین اٹھائے رہائشیوں کے ساتھ شریک ہے۔ ٹی ٹی پی دہشتگردوں نے اس سکول میں 150 سے زائد بچوں اور اساتذہ کو قتل کیا۔ [ایس ایس مرزا/اے ایف پی]

پشاور – تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) رہنما ملّا فضل اللہ کی ہلاکت دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) قتلِ عام کے متاثرین اور شہید ہونے والوں کے خاندانوں کے لیے باعثِ چین و اطمینان ہے۔

صوبہ کنڑ، افغانستان کے ضلع ماراوارا میں 15 جون کو ایک فضائی حملے میں فضل اللہ مارا گیا جہاں وہ 2009 میں پاک فوج کی جانب سے آپریشن راہِ نجات کے دوارن وادیٴ سوات سے بے دخل کیے جانے کے بعد سے روپوش تھا۔

فضل اللہ ایک غیر قانونی ریڈیو، جسے "ملّا ریڈیو" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، پر نفرت انگیز تقاریر کرنے کی وجہ سے 2013 میں ٹی ٹی پی کا رہنما بنا۔

وہ اے پی ایس حملے کے منصوبہ سازوں میں سے ایک تھا، جس میں 150 سے زائد پاکستانی شہید ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے تھے۔

ایک پاکستانی صحافی 23 جولائی 2010 کو پشاور میں بنیاد پرست مولوی ملّا فضل اللہ کی فوٹیج دیکھ رہا ہے۔ فضل اللہ نے ضلع سوات میں قانونِ شریعہ کے نفاذ کے لیے ایک دو سالہ پر تشدد مہم چلاتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت کی اور مخالفین کے سرقلم کیے، یہاں تک کہ حکومت نے ہزاروں فوجیوں کو وہاں جانے کا حکم دیا۔ وہ جون میں ایک امریکہ-افغان فضائی حملے میں مارا گیا۔ [اے۔ مجید/اے ایف پی]

ایک پاکستانی صحافی 23 جولائی 2010 کو پشاور میں بنیاد پرست مولوی ملّا فضل اللہ کی فوٹیج دیکھ رہا ہے۔ فضل اللہ نے ضلع سوات میں قانونِ شریعہ کے نفاذ کے لیے ایک دو سالہ پر تشدد مہم چلاتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت کی اور مخالفین کے سرقلم کیے، یہاں تک کہ حکومت نے ہزاروں فوجیوں کو وہاں جانے کا حکم دیا۔ وہ جون میں ایک امریکہ-افغان فضائی حملے میں مارا گیا۔ [اے۔ مجید/اے ایف پی]

29 جولائی، 2015 کو اپ لوڈ کی گئی ایک تصویر میں، کوئٹہ کے نوجوان ٹی ٹی پی کی جانب سے قتلِ عام میں شہید ہونے والے اے پی ایس پشاور کے بچوں اور اساتذہ کی یاد میں موم بتیاں جلانے کی تقریب میں شریک ہیں۔ [وطن پال فوٹوگرافی/فلکر]

29 جولائی، 2015 کو اپ لوڈ کی گئی ایک تصویر میں، کوئٹہ کے نوجوان ٹی ٹی پی کی جانب سے قتلِ عام میں شہید ہونے والے اے پی ایس پشاور کے بچوں اور اساتذہ کی یاد میں موم بتیاں جلانے کی تقریب میں شریک ہیں۔ [وطن پال فوٹوگرافی/فلکر]

’ہماری تکلیف دور ہو گئی‘

جاوید خٹک، جن کا بیٹا اے پی ایس میں شہید ہوا، کہتے ہیں کہ فضل اللہ کی ہلاکت "اے پی ایس کا شکار بننے والوں کے والدین اور رشتہ داروں کے لیے ایک وجہِ اطمینان ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ فضل اللہ کی ہلاکت ان کا بیٹا واپس نہیں لائے گی، تاہم اس سے ان کو بے پناہ خوشی حاصل ہوئی ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "انصاف کا ترازو ہمارے حق میں جھک گیا ہے۔"

اجون خان، جن کا بیٹا اسفند اے پی ایس میں شہید ہوا، بھی فضل اللہ کی ہلاکت کی خبر پر خوش تھے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہم اپنے بیٹے کی موت پر غمزدہ تھے، لیکن ہمارا دکھ دور ہو گیا ہے۔ فضل اللہ کی ہلاکت پر طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف مہم کا خاتمہ نہیں ہونا چاہیئے ۔۔۔ یہ کاوش شورشیوں کے خلاف مکمل کامیابی تک جاری رہنی چاہیئے۔"

اے پی ایس قتلِ عام میں زندہ بچ جانے والوں نے بھی ملّا فضل اللہ کی ہلاکت پر خوشی منائی۔

نویں جماعت کے طالبِ علم سہیل احمد جو اس روز پانچویں جماعت میں تھا، نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہم نے اس روز جو خون کی ہولی دیکھی، وہ اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ عسکریت پسند کس قدر سنگدل ہیں کیوں کہ ان کے دل میں بچوں کے لیے کوئی رحم نہیں۔"

ایک اور زندہ بچ جانے والے اعجاز خان، جو اس وقت چھٹی جماعت میں تھا اور اب دسویں کا طالبِ علم ہے، کا کہنا ہے کہ وہ بہت خوش ہے کہ ٹی ٹی پی منصوبہ ساز ہلاک ہو چکا ہے۔

اس نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "میں بہت خوش قسمت تھا کہ اس روز مجھے خراش تک نہیں آئی، لیکن میں نے قریب سے دیکھا کہ انہوں نے کیسے بے دردی سے ہمارے دوستوں کو ہدف بنایا۔ میں نے عسکریت پسندوں کی بزدلی کو اس وقت محسوس کیا جب وہ نہتے طالبِ علموں کو ایسے ہدف بنا رہے تھے جیسے وہ کسی منظم فوج سے معرکہ آرا ہوں۔"

دہشت گردوں کا مقصد ناکام

پشاور میں اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی ایک طالبہ سلیمہ بی بی نے بتایا، فضل اللہ اے پی ایس کے قتل عام کا ہی نہیں بلکہ اکتوبر 2012 میں سوات میں ملالہ یوسف زئی پر ہونے والے قاتلانہ حملہ کا ذمہ دار بھی تھا،جو بچ گئی اور لڑکیوں کی تعلیم کی کارکن اور کم عمر ترین نوبل انعام جیتنے والی بن گئی۔

"طالبان کے اے پی ایس اور ملالہ پر حملے طلبا کو تعلیم کے حصول سے نہیں روک سکے،" انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا۔ "طالبان کی خواتین کی تعلیم سے نفرت کا نتیجہطلبا اور ان کے والدین میں اسکولوں سے محبت میں ظاہر ہوا۔"

انہوں نے بتایا، خیبر پختونخواہ کی بہت سی یونیورسٹیوں میں طالبات کی تعداد کا لڑکوں سے زیادہ ہونا واضح ثبوت ہے کہ خواتین بڑی تعداد میں تعلیمی اداروں داخلے لے رہی ہیں۔

پشاور یونیورسٹی کے مطالعہ پاکستان کے ایک استاد، شفاعت علی نے بتایا، کہ فضل اللہ کی موت دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فضل اللہ کی موت ایک بڑی کامیابی ہے.

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، [پاکستانی] واقف ہیں کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کرنا معاشرہ میں قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ اسلام تعلیم کو بہت اہمیت دیتا ہے۔

انہوں نے بتایا، "کچھ نے طالبان کی حمایت کی جب پہلے پہل وہ ظاہر ہوئے، لیکن [پاکستانیوں] نے گروہ سے اس وقت نفرت شروع کی جب انہوں نے اسکولوں اور طلبا کو نشانہ بنایا۔"

علی نے بتایا، "پاکستان میں اب یہ ایک عمومی طور پر قبول شدہ حقیقت ہے کہ تمام طالبان عسکریت پسندوں کو ختم کیے بغیر ترقی ناممکن ہے۔"

انہوں نے بتایا، "طالبان کے سربراہ کی ہلاکت انتہائی حوصلہ افزا ہے کہاس سے عسکریت پسندوں کا اتحاد پارہ پارہ ہوجائے گا اور انھیں ختم ہونے پر مجبور کردے گا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ye tu news confirm nh hy q k abhi tk TTP ki taraf sy koi news nh mili agr ye mara hy tu achi news hy baki pak army ko khud Afghanistan mein drone attacks krny chahy

جواب