صحت

کے پی کے حکام کا عطائی اور غیر سند یافتہ ڈاکٹروں پر کریک ڈاون

محمد شکیل

شانگلہ ڈسٹرکٹ کے اسسٹنٹ کمشنر طارق محمود اپریل میں ایک طبی کلینک کی دستاویزات کا معائنہ کر رہے ہیں۔ ]محمد شکیل[

شانگلہ ڈسٹرکٹ کے اسسٹنٹ کمشنر طارق محمود اپریل میں ایک طبی کلینک کی دستاویزات کا معائنہ کر رہے ہیں۔ ]محمد شکیل[

پشاور -- خیبر پختونخواہ (کے پی) کے حکام ایسے کلینکوں اور طبی سہولیات پر کریک ڈاون کر رہے ہیں جنہیں عطائی اور غیر سند یافتہ طبی پیشہ ور چلا رہے ہیں۔

سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ جس کی صدارت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کر رہے ہیں، نے 20 اپریل کو اس کریک ڈاون کا حکم دیا تھا اور کے پی کے ہیلتھ کیئر کمیشن (کے پی ایچ سی سی) کو ہدایت کی تھی کہ وہ غیر قانونی کلینکس کو بند کرے۔

کے پی ایچ سی سی کے چیف ایگزیکٹیو افسر عذر سردار نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت صوبہ بھر میں ایسے تقریبا 15,000 کلینک ہیں جنہیں غیر مجاز طبی پیشہ ور چلا رہے ہیں۔

کے پی ایچ سی سی کے ڈائریکٹر آف آپریشنز ارسلان احمد خان نے جون میں پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم نے عطائی اور غیر قانونی کلینکس کے خلاف بڑے پیمانے پر مہم شروع کر دی ہے مگر ہماری کوششیں اس امر کے باعث غیر نمایاں ہیں کہ ہمیں سپرد کیے گئے کام کی وسعت بہت زیادہ ہے"۔

انہوں نے کہا کہ عطائیت میں نہ صرف ایسے پیشہ ور شامل ہیں جو جعلی ڈگریوں کے ساتھ مریضوں کا علاج کر رہے ہیں بلکہ ایسے ڈاکٹر بھی شامل ہیں جو اپنی اہلیت اور مہارت سے بڑھ کر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کریک ڈاون کو سول سوسائٹی کی طرف سے مدد درکار ہے۔

خان نے کہا کہ ایک سند یافتہ ڈاکٹر یا عام معالج دھوکہ باز تصور کیا جاتا /جاتی ہے اگر وہ اپنی مہارت سے بڑھ کر کام انجام دے رہا/ رہی ہو (جیسے کہ ایک جلد کا ماہر الٹراساونڈ کر رہا ہو)۔

انہوں نے کہا کہ عطائیت کے لیے سزا 5,000 سے 10,000 روپے (43 ڈالر- 86 ڈالر) سے ایک ملین روپے ( 8,600 ڈالر) اور چھہ ماہ کی قید کی سزا ہے جو سنگین ترین جرم پر دی جاسکتی ہے-- ایسے واقعات جن میں جان یا کسی اعضاء کا نقصان ہو گیا ہو۔

1,000 سے زیادہ عطائی کلینک بند

دی نیوز انٹرنیشنل نے 30 مئی کو سردار کے حوالے سے خبر دی کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد سے، کے پی ایچ سی سی نے صوبہ بھر میں 929 کلینکس اور لیبارٹریوں کو بند کیا ہے۔

خان کے مطابق، جون میں تین دنوں کے اندر، کے پی کے حکام نے تقریبا 250 کلینکس کو بند کیا ہے جس میں ایک سرجری کا سینٹر بھی شامل ہے جسے سند یافتہ طبی عملہ چلا رہا تھا مگر اس کے پاس آپریشن کے لیے درکار انتہائی نگہداشت کا شعبہ اور بلڈ بینک نہیں تھا۔

کے پی کو چار زونوں میں تقسیم کیا گیا ہے: پشاور اور چارسدہ زون (زون 1)، ہزارہ ڈویژن (زون 2)، نوشہرہ، مردان اور صوابی (زون 3) اور جنوبی زون (زون 4 )۔ انہوں نے کہا کہ ہر متعلقہ علاقے میں دھوکہ باز طبی پیشہ وروں کے خلاف مہم کی نگرانی کے لیے ایک انسپکٹر تعینات کیا گیا ہے۔

پشاور کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے ایک ترجمان ساجد خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ضلعی انتظامیہ اور ہیلتھ کیئر کمشن کے ارکان مل جل کر کام کر رہے ہیں تاکہ چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے دیے جانے والے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے درکار سرعت اور کارکردگی کو یقینی بنایا جا سکے"۔

انہوں نے کہا کہ "پشاور کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے زیرِ انتظام آنے والے علاقوں میں کام کرنے کے لیے ایک الگ ٹیم کو متعین کیا گیا ہے"۔

خان نے کہا کہ پشاور کے مختلف علاقوں میں 104 کلینکس کو ان ٹیموں نے بند کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان چھاپوں کی قیادت اسسٹنٹ کمشنر یا ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر کرتے ہیں تاکہ ایسے غیر مجاز طبی پیشہ وروں کے خلاف اقدامات کو یقینی طور پر بلا امتیاز بنایا جا سکے جو معصوم مریضوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

بہتر صحت عامہ کو یقینی بنانا

پشاور میں طبی ساز و سامان کا کاروبار کرنے والے ادریس میر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "عطائیت باہر اور دور دراز کے علاقوں میں پھلتی پھولتیہے جہاں رہائشیوں کے پاس اتنے علم کی کمی ہوتی ہے جو انہیں ڈاکٹر اور عطائی میں فرق کرنے کے قابل بنائے"۔

انہوں نے کہا کہ "حکومت کی طرف سے مہم کو شروع کرنے کا فیصلہ عوام میں عطائیت کے بارے میں آگاہی پیدا کرے گا جو مشکوک طبی مشوروں کے ساتھ عوم کو دھوکہ دے رہے ہیں جس کا نتیجہ ممکنہ طبی پیچیدگیوں کی صورت میں نکلتا ہے"۔

پاکستان ریلوے کے ایک ریٹائرڈ کمپیوٹر آپریٹر محمود خان، جن کا تعلق پشاور سے ہے، نے کہا کہ غیر اہل پیشہ وروں کو کام کرنے سے روکنے سے عوام کے لیے صحت عامہ کی بہتر سہولیات کو یقینی بنایا جا سکے گا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اس سے وبائی امراض جیسے کہ ہیپیٹائٹس کے پھیلاؤکو قابو کرنے میں مدد ملے گی جو زیادہ تر صفائی کے ناقص حالات اور عطائیوں کی طرف سے آلودہ آلات کو استعمال کرنے کی وجہ سے پھیلتی ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "حکام کو دور دراز کے علاقوں میں صحت عامہ کی بہتر اور سستی سہولیات فراہم کرنی چاہیے جہاں شہری ہنگامی حالات میں ان غیر اہل طبی پیشہ وروں کے پاس جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

انسپکٹر یا انچارج سائوتھ زون کے پی کے کا رابطہ نمبر

جواب

Governament jin ko nonqualified awr attai kehtay hain ..yahe log governament hospitals awr health facilities mai 50 to 70% services provide krte hain jiska hospital se bhar in logo par babandi hy Ajeeb mantaq hy governament ka agr ye log governament k lye kaam karain tu qualified awr hospital se bhar karaain tu ataai??? Ye governament ka dughla pan nahe tu awr kia hy? Is k ilawa governament mai itni salahiat b nahe keh wo tamam logo ko ghar k dehleez par health facilities provide karain. Big cities mai big hospitals ka ye haal hy keh sirf aik OPD slip k lye logo ko 2/3 hours line mai lagna parta hy tu tasawr karain keh smaal cities awr village ka kia haal hoga?? Bhai awal tu tum apnay apko is qabil tu banao keh apnay awam ko mulk k kone kone mai health facilities provide kar sko phir in qualified ataaion ko band kr do

جواب