سفارتکاری

روس کی طرف سے پاکستان سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش سے مشاہدین میں تشویش

پاکستان فارورڈ

روس کے وزیرِ خارجہ سیرگی لیوروف (بائیں) پاکستان کے وزیرِ خارجہ خواجہ محمد آصف کو ان کے ماسکو کے دورے کے دوران 20 فروری کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ ]ویزلی میکسیموف/ اے ایف پی[

روس کے وزیرِ خارجہ سیرگی لیوروف (بائیں) پاکستان کے وزیرِ خارجہ خواجہ محمد آصف کو ان کے ماسکو کے دورے کے دوران 20 فروری کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ ]ویزلی میکسیموف/ اے ایف پی[

اسلام آباد -- پاکستان کے بہت سے تجزیہ نگاروں اور مشاہدین نے روس کی طرف سے پاکستان کے ساتھ گرم جوشی دکھانے کی کوششوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

سوویت یونین کے خاتمے اور اس کے بعدشام اور یوکرائن میں اس کے کاموں کے نتیجہ میں سویت فیڈریشن کے عالمی طور پر تنہا ہو جانے کے بعد، روس کے صدر ولادیمر پوٹن کی حکومت، بہت سالوں سے مشرقِ وسطی، افغانستان، وسطی ایشیاء اور اس سے آگے، دوبارہ سے متعلق ہونے کی کوششیں کر رہی ہے۔

اب یوں لگتا ہے کہ ماسکو کی نظریں پاکستان پر ہیں اور اس نے حالیہ مہینوں میں اسلام آباد کو بہت سے معاہدوں میں باندھنے کے لیے انتہائی سنجیدہ کوششیں کی ہیں۔

مثال کے طور پر، روس کے وزیرِ خارجہ سیرگی لیوروف کی دعوت پر، پاکستان کے وزیرِ خارجہ خواجہ محمد آصف نے تین روزہ دورے کے لیے جمعہ کو ماسکو کا سفر کیا۔

روس کی مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل ویلری گیرامیسوف اور پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ 25 مارچ کو ماسکو میں علاقائی سیکورٹی کے معاملات پر بات چیت کر رہے ہیں۔ ]روس کی وزارتِ دفاع[

روس کی مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل ویلری گیرامیسوف اور پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ 25 مارچ کو ماسکو میں علاقائی سیکورٹی کے معاملات پر بات چیت کر رہے ہیں۔ ]روس کی وزارتِ دفاع[

روسی کا ایک عسکری وفد جس کی قیادت ڈپٹی چیف آف جنرل اسٹاف کرنل جنرل سیرگی استراکوف کر رہے تھے، نے 30 مارچ 2017 کو مانسہرہ، شمالی وزیرستان ایجنسی کا دورہ کیا۔ ]آئی ایس پی آر[

روسی کا ایک عسکری وفد جس کی قیادت ڈپٹی چیف آف جنرل اسٹاف کرنل جنرل سیرگی استراکوف کر رہے تھے، نے 30 مارچ 2017 کو مانسہرہ، شمالی وزیرستان ایجنسی کا دورہ کیا۔ ]آئی ایس پی آر[

روسی کی زمینی افواج کا ایک عسکری دستہ دونوں ممالک کی اولین مشترکہ مشقوں کے لیے ستمبر 2016 میں پاکستان پہنچا۔ ]آئی ایس پی آر[

روسی کی زمینی افواج کا ایک عسکری دستہ دونوں ممالک کی اولین مشترکہ مشقوں کے لیے ستمبر 2016 میں پاکستان پہنچا۔ ]آئی ایس پی آر[

اس دوسرے کے نتائج میں سے ایک روس اور پاکستان کے درمیان مشترکہ "انٹی ٹیرر ملٹری کوآپریشن کمیشن" قائم کرنا تھا۔

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی 24 اپریل کو ماسکو کا دورہ کیا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعلقات کے بارے میں بات چیت کی جا سکے۔

اس ملاقات کے بعد روس کے بیان سے واضح طو رپر ظاہر ہوتا ہے کہ کریملین پاکستان کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق، روس کی زمینی افواج کے کمانڈر کرنل جنرل اولیگ سیلیکوف نے باجوہ کے دورے کے دوران کہا کہ "پاکستان جغرافیائی طور پر ایک اہم ملک ہے اور روس اس وقت موجود فوج سے فوج کے دو طرفہ تعاون کو وسیع کرنے کی خواہش رکھتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم پاکستان کے ساتھ دفاعی تعلقات کو فروغ دینا چاہتے ہیں"۔

دریں اثنا، روس نے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے دوسرے اقدامات بھی کیے ہیں جیسے کہ فروری میں پشاور میں ایک کونسلیٹ کھولنا۔

روسی کی خودغرضانہ کوششیں

ماسکو کی طرف سے تعلقات کو بہتر بنانے کی دوستانہ کوششوں کے باجود، بہت سے پاکستانی تجزیہ نگاروں اور مشاہدین کا کہنا ہے کہ وہ کریمیلن کی خودغرضانہ کوششوں کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں۔

پاکستان کے ایکسپریس ٹریبیون نے پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ایک بیان کی وضاحت کرتے ہوئے فروری میں کہا کہ"بے مثال اظہار کے طور پر ۔۔۔ ایک ایسا ملک جو ابھی بھی تلخ سرد جنگ کا پاکستانی حریف ہے" روس کو "ہماری خارجہ پالیسی میں ایک خصوصی مقام حاصل ہے"۔

پشاور یونیورسٹی کے ایک لیکچرار عبدل رحمان نے کہا کہ "حال ہی میں روس کی پاکستان کے بارے میں پالیسی میں تبدیلی بہت واضح ہے"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "پاکستان نے افغانستان میں اپنے کردار کے باعث، روس کے لیے زیادہ اہمیت حاصل کر لی ہے"۔

انہوں نے یو ایس ایس آر کے افغانستان پر حملے اور اس وقت باغیوں کو پاکستان کی امداد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "تاہم، جہاں تک افغانستان میں جنگ کا تعلق ہے تو ان میں وسیع خلیج کی تاریخ کے باعث، دو سابقہ دشمنوں کے لیے اپنے تعلقات میں بہتری کو دیکھنا ممکن نہیں ہے"۔

انہوں نے کہا کہ روس کا پاکستان کے گرد گھومنا "بحیرہ عرب اور اس سے آگے تک رسائی حاصل کرنے کی اس کی خواہش" پر بنیاد رکھتا ہے۔

رحمان نے کہا کہ "روس کی طرف سے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی اس کے اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ہے۔ پاکستان کی روس کے ساتھ دوستی، اس کے چین، امریکہ، سعودی عرب اور یورپی ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات کو نقصان پہنچائے گی جن کے پاکستان کے ساتھ کئی دیہائیوں سے تجارتی تعلقات ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "روس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات، اسلام آباد کے باقی دنیا کے ساتھ تعلقات کو بہت زیادہ حد تک کم کر دے گی"۔

روس امریکہ کی جگہ نہیں لے سکتا

رحمان نے امریکہ کی غیر عسکری معاملات میں امداد کا حوالہ بھی دیا۔

انہوں نے کہا کہ "پاکستان میں اس کی فوجی امداد کے علاوہ، امریکہ چاروں صوبوں میں بجلی پیدا کرنے کے کئی منصوبوں کو لگانے سے توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے پاکستان کی مدد کرتا رہا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "ہزاروں پاکستانی طلباء وظائف پر امریکہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ ہزاروں امریکہ میں ملازمت کرتے ہیں"۔

رحمان نے کہا کہ "روس کی معیشت انتہائی کمزور ہے اور وہ پاکستانی کو کسی قسم کی امداد نہیں دے سکتا۔ پاکستان کو علم ہے کہ روس کے پاس معیاری برآمدات نہیں ہیں۔ اس کے برعکس، دیگر ممالک جن میں امریکہ بھی شامل ہے کے پاس اعلی ترین معیار کی برآمدات ہیں جن میں ادویات، مشینیں وغیرہ شامل ہیں جن کی یہاں پر بہت مانگ ہے"۔

پشاور یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے ایک لیکچرار محمد عاصم نے اس سے ملتا جلتا بیان دیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "روس کی معیشت بہت کمزور ہے اور وہ اس طرح پاکستان کی مدد نہیں کر سکتا جیسے امریکہ کر سکتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "ہمارے امریکہ کے ساتھ وقت کے آزمائے ہوئے تعلقات ہیں۔ امریکہ ہمیں مالی، عسکری اور تکنیکی طور پر طویل عرصے سے امداد فراہم کرتا رہا ہے جبکہ روس میں ہماری مدد کرنے کی صلاحیت کی کمی ہے"۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے سینئر تجزیہ نگار سابقہ برگیڈیر سعید محمد نے اتفاق کیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "امریکہ ایک سُپر پاور ہے اور روس کے پاس اس قسم کی اہلیت نہیں ہے"۔

روس ایک عالمی اچھوت

روس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ روس ایک ایسا بوجھ ہے جو پوٹن کی حکومت کے ساتھ آتا ہے۔

ایک تکلیف دہ بات ماسکو تہران کے ساتھ بڑھتے ہوئے قریبی تعلقات ہیں جو ساری مسلمان دنیا میں فرقہ ورانہ خلیج کو بڑھا رہے ہیں اور ایران کی عدم استحکام کی سرگرمیوں کا ساتھ دینے سے اثرو رسوخ حاصل کرنے کے کریمیلن کے مقاصد کو عیاں کرتے ہیں۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، اس میں ایران کی زینبیون برگیڈ، جو کہ شام میں لڑنے والے شیعہ جنگجو ہیںجو پاکستان کی خودمختاری کو نقصان پہنچاتے ہیں کی مسلسل حمایت اور اس کے ساتھ ہی ایران کی طرف سے ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-انڈیا (تاپی) پائپ لائن کو نقصان پہنچانے کی ایران کی کئی کوششیں، شامل ہیں۔

ایک اور مسئلہ روس کی بڑھتی ہوئی عالمی تنہائی کا ہے جو اس کی2014 میں کریمیا کی غیر قانونی ضبطیاور روس کے آمر بشیر الاسد، جس نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں، کی مسلسل مدد اور حفاظت کے باعث ہے۔

عاصم نے کہا کہ "مجھے یقین ہے کہ سرکاری یا عوامی سطح پر روس کے لیے کوئی قبولیت ہو گی"۔

انہوں نے کہا کہ "تاریخی طور پر، ہمارے لوگ اور اس کے ساتھ ہی ہماری حکومت پاکستان میں روس کی مداخلت کی مخالف رہی ہے۔ روس کی جدوجہد اور پاکستان میں قدم جمانے کی خواہش کے باجود، میں تعلقات میں کسی قابلِ قدر بہتری نہیں دیکھتا ہوں"۔

انہوں نے کہا کہ "پاکستان پوٹن کی حکومت پر اعتماد نہیں کر سکتا۔ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان کے لوگ بھی روس کو ایک مستقل دشمن سمجھتے ہیں"۔

]پشاور سے اشفاق یوسف زئی نے اس خبر کی تیاری میں حصہ لیا۔[

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 11

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

روس سے متعلق فضول مکالہ۔ ہم پاکستانی روس کے ساتھ گرمجوش تعلقات کے خواہاں ہیں۔

جواب

روس سے متعلق فضول مکالہ۔ ہم پاکستانی روس کے ساتھ گرمجوش تعلقات کے خواہاں ہیں۔

جواب

فضول اور انتہائی متعصب تجزیہ ہے۔ سرد جنگ اور افغان جنگ کے عہد کے بعد سے چین روس کو پاکستان کے قریب لانے میں معاون رہا ہے، تو کیا روس کی وجہ سے چین سے ہمارے تعلقات خراب ہوں گے؟ امریکہ ہمیشہ پاکستان کا سب سے ناقابلِ اعتبار شریک رہا ہے۔ انہوں نے تاریخ میں ہر نازک وقت پر پاکستان سے منہ پھیر کر پاکستان پر ناجائز دباؤ ڈالا کہ وہ عالمی غلبہ کی امریکی پالیسیوں پر عمل کرے۔ مصنّف اختباطی تصوّر کے برعکس ایک علاقائی ممبعٴ اقتدار ہوتے ہوئے روس کو ہماری خارجہ پالیسی میں شامل ہونا چاہیئے۔ ان کے ساتھ بہتر تعلقات بھارت کے علاقائی غلبہ کے منصوبوں سے روکنے کا ایک ذریعہ بھی ہو سکتے ہیں۔

جواب

کون کہتا ہے کہ پاکستانی عوام روس کو اپنا مستقل دشمن سمجھتے ہیں، ایسا بیان دینا انتہائی حماقت ہے، جس نے بھی اس آرٹیکل میں حصّہ لیا ہے، میرا خیال ہے وہ شاید گزشتہ صدی میں رہتے ہیں یا وہ سچائی جانتے ہیں لیکن یقین نہیں کرنا چاہتے۔ ہمیں ہر ملک کے ساتھ اپنے تعلقات متوازن رکھنے چاہیئیں۔ ہم نے ماضی میں ساتھ دے کر یہ غلطی کی ہے اور ان پالیسیوں کے نتیجے میں بہت کچھ کھویا ہے۔ اس لئے پشاور یونیورسٹی کے آٗئی آر لیکچررز کو ایسے احمقانہ تبصروں سے دور رہنا چاہئیے۔

جواب

بے معنی تجزیہ! بھارت نے ماسکو اور باقی دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات متوازن رکھے ہیں۔ بھارت کے تاریخی تعلقات نے دیگر ملکوں کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ کیوں نہیں آنے دیا؟ جبکہ، اقوام جن کا ذکر کیا گیا ماسکو کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتی ہیں۔

جواب

بلاشبہ غیرمعمولی تجزیہ ۔ ممالک اپنے قومی مفادات کے نقطۂ نظر کے تحت آگے بڑھتے ہیں۔ سی پیک اور چین کی یوروپی یونین اور سابقہ روسی ریاستوں میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کے تناظر میں، پاکستان کے روس کے ساتھ اچھے تعلقات قابل ترجیح ہیں۔ مسلکی تفریق کی حد تک! خوب، یو ایس اے اور اس کا پیارا سعودیہ ہمیں ایک دوسرے کے لئے کافی زہر دے چکے ہیں۔

جواب

اچھا

جواب

مصنف انتہائی خبطی اور کوتاہ نظر ہے۔ روس ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے اور یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ امریکی دائرہ اثر کی سوالیہ افادیت پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنے سفارتی تعلقات کو وسیع کرے۔

جواب

تعلقات قائم ہیں..آپ کی پیشین گوئی کو بہت دیر ہوگئی ہے.. روس کی معیشت کمزور ہے لیکن چین کی بہترین ہے.. ایران کے ساتھ ساتھ اگر ہم ان دونوں کے ساتھ تعلقات آگے بڑھاتے ہیں تویہ بہتر ہوگا کیونکہ یہ سب ہمارے پڑوسی ہیں.. یہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ مسائل کے حل میں ہماری مدد کرسکتے ہیں.. سعودی عربیہ سمیت دیگر تمام ممالک پاکستان سے بہت دور ہیں.. اس لئے میری نظر میں ہمیں اپنے قریبی تعلقات منتقل کرنے چاہئیں ..70 سالوں میں یو ایس اے سے ہمیں کیا ملا ہے.. اگر ہم روس پر افغانستان میں مداخلت کا الزام لگاتے ہیں، تو امریکہ وہاں کیا کررہا ہے.. کیا افغانستان میں یہ روس سے کم ہولناک ہے؟ اگر پاکستان کو شام میں زین بریگیڈ پر تحفظات ہیں .. تو پاکستان میں امریکہ بھارت حمایت یافتہ ٹی ٹی پی اور پی ٹی ایم کے بارے میں کیا خیال ہے؟ پوٹن نے ان کی دعوت پر یورپ کے دورے شروع کر دیے ہیں کیونکہ یورپ بھی امریکہ سے بیزار ہے.. اس کے آسٹریا اور پھر اٹلی کے حالیہ دورے بہت پرجوش اور خوشگوار تھے .. یقین کیجئے منظر نامہ تبدیل ہونے جارہا ہے..

جواب

بیوقوفانہ دلائل، علاقائی تعاون پاکستان کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے، لوگوں کو روس کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں، آخر کار ایک ہی وقت میں پاکستان کے روس اور مغربی دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات ہو سکیں گے۔

جواب

امریکہ کے ساتھ “وقت کی کسوٹی پر پرکھے گئے تعلقات۔۔۔” اس پرکھنے کا نتیجہ کیا نکلا

جواب