رواداری

پشاور کی سکھ برادری رمضان کے دوران بین المذاہب ہم آہنگی کی شمع جلا رہی ہے

از عدیل سعید

25 مئی کو پشاور میں ایک بس اڈے پر مسلمان روزہ افطار کرتے ہوئے۔ مقامی سکھ برادری ان رضاکاروں میں شامل ہے جو پورے شہر میں افطاری کرواتے ہیں۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

25 مئی کو پشاور میں ایک بس اڈے پر مسلمان روزہ افطار کرتے ہوئے۔ مقامی سکھ برادری ان رضاکاروں میں شامل ہے جو پورے شہر میں افطاری کرواتے ہیں۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

پشاور -- پشاور کی سکھ برادری رمضان المبارک کے دوران مسلمانوں کی افطاری کے لیے کھانا پیش کرنے کی اپنی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہے، جو ان کے بھائی چارے اور بقائے باہمی کے تعلق کو مضبوط کر رہی ہے۔

قومی امن کونسل برائے بین المذاہب ہم آہنگی کی خیبرپختونخوا (کے پی) شاخ کے صدر نشین، جوگندر سنگھ نے کہا، "ہم اپنے روزہ دار ہم وطنوں کے لیے افطاری کا اہتمام تعظیم کی علامت کے طور پر اور ان کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کے طور پر کرتے ہیں۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ اس کا مقصد مختلف مذاہب کے ارکان کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہوئے امن، پیار اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہے۔

سنگھ نے کہا کہ پشاور کے مختلف علاقوں میں سکھ رضاکار افطاری کا سامان روزانہ تقریباً 450 مسلمانوں کو پیش کرتے ہیں اور پورے رمضان کے دوران اسے جاری رکھیں گے، جس کا اختتام 14 جون کو ہونا متوقع ہے۔

رمضان المبارک کے پہلے روزے، 17 مئی کو پشاور میں پاکستانی رضاکار ایک مسجد میں روزہ داروں کو روزہ افطار کرواتے ہوئے۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

رمضان المبارک کے پہلے روزے، 17 مئی کو پشاور میں پاکستانی رضاکار ایک مسجد میں روزہ داروں کو روزہ افطار کرواتے ہوئے۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے نوجوان 21 مئی کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں افطاری کے دوران روزہ دار مسلمانوں کے لیے شربت اور کھانا تیار کرتے ہوئے۔ [تصویر بشکریہ جوگندر سنگھ، قومی امن کونسل برائے بین المذاہب ہم آہنگی]

سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے نوجوان 21 مئی کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں افطاری کے دوران روزہ دار مسلمانوں کے لیے شربت اور کھانا تیار کرتے ہوئے۔ [تصویر بشکریہ جوگندر سنگھ، قومی امن کونسل برائے بین المذاہب ہم آہنگی]

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر سے آنے والے ردِعمل نے اس روایت کو مزید جوش و جذبے کے ساتھ جاری رکھنے کی ترغیب دی ہے۔

"عسکریت پسندی اور انتہاپسندی کی طغیانی کی وجہ سے، پاکستان کی ساکھ مذہبی انتہاپسندوں کی سرزمین کے طور پر بن گئی ہے، لیکن ہم نے دنیا کو دکھانا ہے کہ پاکستان پیار، احترام، عزت اور رواداری پر یقین رکھتا ہے،" سنگھ نے کہا۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات اور جنگجوؤں کے فرقہ واریت پھیلانے کے عزم نے پاکستان میں مختلف عقائد کے مابین فاصلہ پیدا کر دیا ہے، ایک دوسرے کے لیے پیار اور احترام کو پھیلانے کے ذریعے فاصلہ مٹایا جانا لازمی ہے۔

انہوں نے کہا، "یہ کوئی نئی روایت نہیں ہے؛ ہمارے آباؤاجداد بھی اس خطے میں مسلمانوں کے ساتھ بھائی چارے کے اظہار کے لیے یہی کرتے تھے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ مسلمان، بشمول پشاور کے مقامی نوجوانوں کی بلا منافع کام کرنے والی تنظیم، پاکستان ہلالِ احمر کے ارکان اور دیگر تنظیمیں، افطاری پیش کرنے میں ان سکھوں کی مدد یا تو ذاتی طور پر یا پھر عطیات کے ذریعے کرتی ہیں۔

بقائے باہمی، بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینا

پاکستانی اسلامی نظریاتی کونسل کے صدر نشین اور یونیورسٹی آف پشاور کے سابق وائس چانسلر، قبلہ ایاز نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "یہ ایک بہت خوش آئند روایت ہے اور بھرپور تحسین کی مستحق ہے۔"

انہوں نے کہا کہ تمام مذاہب دوسرے مذاہب کے ساتھ بقائے باہمی کی تعلیم دیتے ہیں، اور یہ ہدف صرف ایسی روایات کا اہتمام کرنے کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا، "دلوں کو جیتے بغیر، ہم ایک دوسرے کے قریب نہیں آ سکتے اور ایک ایسا معاشرہ تیار نہیں کر سکتے جس کے باسی مساوی حقوق اور احترام سے لطف اندوز ہوتے ہوں۔"

پاکستان کونسل آف ورلڈ ریلیجنز کے پراجیکٹ مینیجر، مقصود احمد سلفی نے کہا، "سکھوں، ہندوؤں اور عیسائیوں کے مقدس تہواروں پر اسی قسم کی روایات کا اہتمام کرتے ہوئے اس اظہار کو مسلمانوں کی طرف سے بھی دوہرانے کی ضرورت ہے۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ سکھوں کے اس فعل نےبین المذاہب ہم آہنگی کے پیغام کو فروغ دیا ہےاور دیکھنے والے ان کی تعریف کرتے ہوئے اس کو تسلیم کر رہے ہیں۔

سلفی، جن کے کام میں تعصب پرستی کو ختم کرنا شامل ہے، نے کہا پاکستانیوں کو قریب لانا اور نئی نسلوں کو یہ تعلیم دینا ضروری ہے کہ مذہب کا اختلاف دوسروں کے لیے نفرت کا حق نہیں دیتا۔

کے پی ہندو برداری کے ایک نمائندے اور پاکستان کونسل آف ورلڈ ریلیجنز کے بانی رکن، پشاور کے ہارون سراب دیال نے کہا، "یہ بہت اچھا اقدام ہے اور دنیا کو پیغام دیتا ہے کہ پاکستانی مذہبی طور پر روادار ہیں اور بقائے باہمی سے زندگی گزار رہے ہیں۔"

انہوں نے پاکستا فارورڈ کو بتایا کہ ہندو مسلمانوں کو افطاری پیش کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں کیونکہ یہ ایک مقدس مقصد ہے، انہوں نے مزید کہا کہ بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ایسی کوششیں صوبہ سندھ میں جاری ہیں، یہاں ہندوؤں کی ایک بڑی آبادی ہے۔

سراب دیال نے کہا، "پشاور میں، ہم کچھ دنوں سے سکھوں کے ساتھ ایک بڑی افطاری کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔"

پاکستان اقلیتی اتحاد کونسل کی کے پی شاخ کے صدر، آگسٹن جیکب نے کہا، "عیسائی بھی سکھوں کی جانب سے اٹھائے گئے قدم کو سراہتے ہیں۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ ہر وہ اظہار جو پیار کا پیغام دیتا ہے اور رواداری کو فروغ دیتا ہے اسے سراہا جاتا ہے قطع نظر اس سے کہ وہ کون کر رہا ہے۔

عیسائی رمضان میں مستحق مسلمانوں کے لیے عطیات کا انتظام کرتے ہیں اور ہسپتالوں میں مفت کھانا مہیا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "اتحاد اور امن و رواداری کا پیغام پھیلانے کی خاطر، ایسے اقدامات تمام برادریوں کی جانب سے کھلے عام اٹھانے کی ضرورت ہے۔"

بھائی چارہ اور فخر

پاکستانی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ سکھوں اور دیگر اقلیتی برادریوں کی جانب سے خیرخواہی کے اظہار کو سراہتے ہیں۔

ضلع مردان کے مکین نذیر احمد نے کہا کہ پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے بالٹن بلاک میں روزہ دار مسلمانوں کو کھانا دیتے ہوئے سکھوں کا منظر پہلی نظر میں انہیں عجیب سا لگا۔

احمد نے ایک اور متذبذب دیکھنے والے سے پوچھا، "یہ سکھ یہاں کیا کر رہے ہیں، اور وہ ہمیں کھانا اور مشروبات کیوں پیش کر رہے ہیں؟"

جب دونوں کو سکھوں کے ارادے کا پتہ چلا، تو دونوں نے کہا، "انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے!"

یونیورسٹی آف پشاور میں ماسٹرز کے ایک طالب علم، بلال احمد نے کہا، "سکھوں کی جانب سے افطاری کے لیے کھانا تقسیم کرنا پاکستانی مسلمانوں کے لیے ایک فخر کی بات ہے۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہم ان تصاویر کو سوشل میڈیا پر ایک فخر کے احساس کے ساتھ بانٹ رہے ہیں دنیا کو یہ دکھانے کے لیے کہ پاکستان مذہبی انتہاپسندی کی سرزمین نہیں ہے بلکہ درحقیقت بھائی چارے اور اخوت کی سرزمین ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500