انتخابات

دہشت گردی سے منسلک سیاسی جماعتوں کے خلاف پاکستانی سیاست دان متحد کھڑے ہیں

اشفاق یوسف زئی

پاکستانی مسافر سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ (ایم ایم ایل) جس کا آغاز گزشتہ اگست میں حافظ سعید کی جماعت الدعوہ (جے یو ڈی) -- جو کہ عسکری گروہ لشکرِ طیبہ (ایل ای ٹی) کی خیراتی شاخ ہے -- نے لاہور میں 3 اپریل کو کیا تھا، کے ایک متروک شدہ دفتر کے سامنے سے گزر رہے ہیں۔ ]عارف علی/ اے ایف پی[

پاکستانی مسافر سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ (ایم ایم ایل) جس کا آغاز گزشتہ اگست میں حافظ سعید کی جماعت الدعوہ (جے یو ڈی) -- جو کہ عسکری گروہ لشکرِ طیبہ (ایل ای ٹی) کی خیراتی شاخ ہے -- نے لاہور میں 3 اپریل کو کیا تھا، کے ایک متروک شدہ دفتر کے سامنے سے گزر رہے ہیں۔ ]عارف علی/ اے ایف پی[

اسلام آباد -- پاکستان میں قانون سازوں اور مشاہدین نے کالعدم تنظیموں کی طرف سے ممکنہ طور پر آنے والے انتخابات میں حصہ لینے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ انہیں ایسا کرنے سے روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

پاکستان میں عام انتخابات 25 جولائی کو منعقد ہوں گے۔

ملی مسلم لیگ (ایم ایم ایل) ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جسےحافظ سعید کی جماعت الدعوہ (جے یو ڈی) جو کہ عسکریت پسند گروہ لشکرِ طیبہ (ایل ای ٹی) کی خیراتی شاخ ہے -- نے بنایا تھا، کے بارے میں خصوصی طور پر تشویش ہے۔ سعید2008 کے ممبئی حملوں کے مرکزی ملزم ہیں۔

اقوامِ متحدہ نےاپریل میں ایم ایم ایل کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے گزشتہ اکتوبر میں اسے باضابطہ سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹر کرنے سے انکار کر دیا تھا، یہ جماعت اس فیصلے پر عدالت میں اپیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اے این پی کے جنرل سیکریٹری میاں افتخار حسین (درمیان میں) جماعت کے دوسرے راہنماؤں کے ساتھ، 31 مئی کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔ ]تصویر بہ شکریہ بچہ خان مرکز[

اے این پی کے جنرل سیکریٹری میاں افتخار حسین (درمیان میں) جماعت کے دوسرے راہنماؤں کے ساتھ، 31 مئی کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔ ]تصویر بہ شکریہ بچہ خان مرکز[

اس وقت، ایم ایم ایل ایک اندراج شدہ سیاسی جماعت نہیں ہے۔ ای سی پی نے ایم ایم ایل کے کیس کو غور کے لیے وزارتِ داخلہ کے پاس بھیج دیا ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے جنرل سیکریٹری میاں افتخار حسین نے کہا کہ "انتخابات میں کالعدم تنظیموں کی شرکت نیشنل ایکشن پلان 2014 کے خلاف ہے جس میں سختی سے تجویز کیا گیا ہے کہ ان جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے"۔

افتخار نے ای سی پی کے اہلکاروں کے ساتھ 31 مئی کو ہونے والی ایک میٹنگ میں پارٹی کے وفد کی قیادت کی اور انہیں آنے والے انتخابات میں دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے مبینہ طور پر شرکت کرنے کے بارے میں اے این پی کی شکایتوں کے بارے میں آگاہ کیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "دہشت گردی سے تعلق رکھنے والے کالعدم دہشت گرد گروہوں کو اپنے نمائںدوں کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھیجنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ہمیں اسے لازمی طور پر روکنا چاہیے ۔۔۔ انہیں اسمبلیوں میں نمائندگی حاصل کرنے سے جو کہ قوانین کو بنانے کی ذمہ دار ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ ایسی جماعتوں کی شرکت انتخابی عمل کو نقصان پہنچائے گی اور دہشت گرد قانون ساز بن سکتے ہیں۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے تجزیہ نگار خادم حسین نے کہا کہ ایم ایم ایل، دہشت گرد گروہ ایل ای ٹی کا فرنٹ ہے اور اسے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔

انہوں نے پاکستان فاروڈ کو بتایا کہ اگر دہشت گرد گروہوں سے تعلق رکھنے کا ریکارڈ رکھنے والے انتخابات میں حصہ لینے کے قابل ہو گئے تو یہ بہت گھمبیر مسئلہ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ "گزشتہ چند سالوں میں ہم نے نئے ناموں کے ساتھ جماعتوں کو دیکھا ہے جو ضمنی انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑے کر رہی تھیں اور کافی تعداد میں ووٹوں سے جیت بھی رہی تھیں"۔

تشدد کے ذریعے طاقت

عبدل ولی خان یونیورسٹی مردان کے ایک پولیٹیکل سائنس دان ضیاء اللہ شاہ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے اسلامیت پسند دہشت گرد تنظیموں پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگانے کا مطالبہ جائز ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ پاکستان ایسے درجنوں گروہوں کا گھر ہے جو انتخابات کی مخالفت کرتے ہیں اور طاقت سے اختیارات حاصل کرنے کے حق میں ہیں۔ وہ مختلف ناموں سے سیاسی قوت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ان کی سرگرمیوں پر حکومت کی طرف سے لگائے جانے والی پابندیوں کو ناکام بنا سکیں۔

شاہ نے قتل اور بم دھماکوں کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "2013 کے عام انتخابات کے دوران، بہت سی سیاسی جماعتوں کے لیے آزادی سے مہم چلانا ممکن نہیں تھا"۔

انہوں نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دوسرے عسکری گروہ سیاسی عمل میں تشدد کو لانے کے ذمہ دار ہیں جس میں اے این پی کے قانون سازوں کو نشانہ بنانا بھی شامل ہے۔

شاہ نے کہا کہ "جماعت کے اپنے 800 ارکان، 2003 سے کالعدم قرار دی جانے والی ٹی ٹی پی کے بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگز کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اے این پی نے گزشتہ انتخابات میں انتخابی مہم نہیں چلائی تھی کیونکہ عوام حملوں کے خطرے کے باعث اس کے جلسوں میں شرکت کرنے سے ہچکچاتے تھے"۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بھی دہشت گردوں کے ہاتھوں نقصان اٹھانا پڑا ہے اور وہ بھی انہیں انتخابات سے دور رکھنا چاہتی ہے۔ یہ بات جماعت کے ترجمان شوکت یوسف زئی نے پاکستان فارورڈ کو بتائی۔

عسکریت پسندوں نے 2013 سے 2016 کے دوران خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے چار قانون سازوں کو ہلاک کر دیا ہے جن میں 2013 میں پی ٹی آئی کے صوبائی وزیرِ قانون کی ہلاکت بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ "دہشت گردی کا رجحان رکھنے والے کسی شخص کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینا سارے عمل کو ایک ناکام مشق بنا دے گا کیونکہ جمہوری عناصر خود کو محفوظ محسوس نہیں کریں گے"۔

عسکریت پسند جمہوریت کو مسترد کرتے ہیں

پشاور سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے تجزیہ نگار اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کے سابقہ سیکورٹی سیکریٹری برگیڈیر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے کہا کہ دہشت گرد گروہوں کے لیے پیغام واضح اور اونچا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "وہ چاہتے ہیں کہ عوام جمہوریت کو مسترد کر دیں اور ان کے خوف اور تشدد کے پروپیگنڈا کی حمایت کریں"۔

شاہ نے کہا کہ اگر ایسے سیاست دانوں کو انتخابات سے پہلے ناکام نہ بنایا گیا تو وہ جمہوریت کو نقصان پہنچانے والے قوانین کا راستہ ہموار کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک خوش آئند نشانی ہے کہ سیاسی جماعتوں نے دہشت گردوں کی طرف سے انتخابات میں شامل ہونے کی کوششوں کو نوٹس کیا ہے اور وہ انہیں ایسا کرنے سے روکنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500