سلامتی

پاکستانی جوڑا روسی حمایت یافتہ بمباری کے بعد شام میں زندگی کو پیچھے چھوڑنے پر مجبور ہو گیا

اے ایف پی

محمد فضل اکرم (بائیں) جن کی عمر 73 سال ہے اور ان کی اہلیہ صغراں بی بی (دوسرے نمبر پر بائیں) جو جنگ زدہ مشرقی غوطہ، شام سے بھاگ کر آئے ہیں، کی 20 مارچ کی تصویر۔ اب وہ صوبہ پنجاب میں سرائے عالمگیر کے گاوں گیہال زیر میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ قیام پذیر ہیں۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

محمد فضل اکرم (بائیں) جن کی عمر 73 سال ہے اور ان کی اہلیہ صغراں بی بی (دوسرے نمبر پر بائیں) جو جنگ زدہ مشرقی غوطہ، شام سے بھاگ کر آئے ہیں، کی 20 مارچ کی تصویر۔ اب وہ صوبہ پنجاب میں سرائے عالمگیر کے گاوں گیہال زیر میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ قیام پذیر ہیں۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

گیہال زیر، پاکستان -- محمد فضل اکرم اور ان کی اہلیہ، صفراں بی بی -- دونوں پاکستانی شہری ہیں -- اب محفوظ ہیں مگر وہ پوری زندگی شام میں گزارنے کے بعد جس تشدد سے بچ کر وہاں سے بھاگے ہیں، اس کی یادیں ابھی بھی انہیں پریشان کرتی ہیں۔

یہ جوڑا، پہلے ایسے عام شہریوں میں شامل تھا جنہیں مشرقی غوطہ سے نکالا گیا جو کہ دمشق کے باہر باغیوں کا محاصرہ شدہ علاقہ ہے جسے روس اور شام کے صدر بشار الاسد سے وفاداری رکھنے والی افواج کی شدید گولہ باری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اکرم جو کہ اب پاکستان میں ہیں، نے کہا کہ "ہمیں علم نہیں تھا کہ کون ہمیں مار رہا ہے اور کون نہیں۔ ایک بات جو ہمیں پتہ تھی وہ یہ تھی کہ وہ ہمارا شہر تباہ کر رہے ہیں"۔

ابتدا میں یہ تشدد جو کہ 2011 سے اس کے اپنائے ہوئے ملک کو گھیرے ہوئے تھا، نے اکرم کو پریشان نہیں کیا جو 1974 میں شام آیا تھا۔

پاکستانی شہری محمد اکرم جو کہ 1974 سے شام میں قیام پذیر تھے، 28 فروری کو مشرقی غوطہ میں دمشق کے مضافات میں واقعہ اپنے حملے کے شکار قصبے دوما میں، جو باغیوں کے زیرِ تسلط ہے، سے نکالے جانے سے پہلے اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹرویو میں بول رہے ہیں۔ ]حسن محمد/ اے ایف پی[

پاکستانی شہری محمد اکرم جو کہ 1974 سے شام میں قیام پذیر تھے، 28 فروری کو مشرقی غوطہ میں دمشق کے مضافات میں واقعہ اپنے حملے کے شکار قصبے دوما میں، جو باغیوں کے زیرِ تسلط ہے، سے نکالے جانے سے پہلے اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹرویو میں بول رہے ہیں۔ ]حسن محمد/ اے ایف پی[

900 سے زیادہ شہری، اپوزیشن کے جنگجو اور زخمی 25 مارچ کو مشرقی غوطہ کے وسطی سیکٹر سے نکالے جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ 17 بسوں پر سوار ہونے کے بعد، انہیں قافلے کی صورت میں ادلیب صوبہ پہنچایا گیا۔ ]تصویر بہ شکریہ دمشق میڈیا سینٹر[

900 سے زیادہ شہری، اپوزیشن کے جنگجو اور زخمی 25 مارچ کو مشرقی غوطہ کے وسطی سیکٹر سے نکالے جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ 17 بسوں پر سوار ہونے کے بعد، انہیں قافلے کی صورت میں ادلیب صوبہ پہنچایا گیا۔ ]تصویر بہ شکریہ دمشق میڈیا سینٹر[

پھر غیر ملکی عسکریت پسند آ گئے۔ اس کے دو بیٹوں نے مسلح گروہ میں شمولیت اختیار کر لی جب کہ تیسرا بیٹا 2013 میں سڑکوں پر ہونے والے تشدد میں ہلاک ہو گیا۔

اکرم اور اس کے خاندان نے 2015 میں بھاگنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ "مسلح گروہوں نے پہلے ہم پر گولیاں چلائیں پھر حکومتی افواج نے ایسا کیا، ہم نکل نہیں سکتے تھے"۔

اس محصور علاقے کے قیدیوں کے طور پر، انہوں نے اس کی آبادی کی بڑھتی ہوئی تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، لاشیں اور آسمان سے راکٹوں کی بارش ایک عام بات بن گئی۔

روس اور شام کی افواج نے 18 فروری کو محصور علاقے پر اپنے پورے غضب کا اظہار کیا اور ایک ماہ طویل جنگ بندی کی خلاف ورزی کی جسے اقوامِ متحدہ (یو این) اور سیکورٹی کونسل نے اس ماہ کے آغاز میں اپنایا تھا۔

اس وقت سے لے کر اب تک 1,600 سے زیادہ عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں اور دیگر107,000 بھاگ گئے ہیں۔

بین الاقوامی برادری نے روس پر الزام لگایا ہے کہ وہ شام کی حکومت کی طرف سے کیے جانے والے ظلم کا ساتھ دے رہا ہے جس میں اقوامِ متحدہ کی طرف سے لگایا جانے والا یہ الزام بھی شامل ہے کہ وہ دونوں "مکمل تباہی" کو شکل دے رہے ہیں۔

بہادرانہ فرار

اکرم اور بی بی کے لیے، پانچ سال سے جاری رہنے والے محاصرے کی مایوسی بچے اور پوتے پوتیاں/ نواسے نواسیاں جن کو وہ پیچھے چھوڑ آئے ہیں -- ہمیشہ ان کیا تعاقب کریں گے۔

شام کی حکومت کی طرف سے کی جانے والی خوفناک بمباری کا آخری مہینہ، پہلے بی بی کو ایک طرح سے یقینی طور پر آنے والی موت کو قبول کرنے پر تیار کر گیا اور اس نے اپنے آپ کو مضبوط محسوس کیا۔

انہوں نے کہا کہ مگر اکرم ٹوٹنے لگ گیا۔ "اس نے کھانا یہاں تک کہ پانی تک پینا چھوڑ دیا"۔

اتفاق سے ان کی ملاقات ایک صحافی سے ہوئی جس نے دمشق میں پاکستانی سفارت خانے کو ان کی حالتِ زار کے بارے میں بتایا۔ یکم مارچ کو، اکرم اور بی بی غوطہ کے ایسے پہلے شہری بن گئے جنہیں وہاں سے نکالا گیا۔

بی بی نے وہاں سے نکلنے کے اپنے پرخطر سفر کو بیان کیا، چار چیک پوائنٹس سے گزرنا جب کہ جہاز سروں پر منڈلاتے ہوئے گزر رہے تھے اور انہوں نے جو گھر پیچھے چھوڑا اس پر بم گرا رہے تھے۔ بی بی نے کہا کہ "میں نے سوچا کہ ہم زندہ نہیں نکل سکیں گے"۔

وہ اس قدر کمزور تھیں کہ تیسری چیک پوائنٹ پر وہ مزید کھڑی نہیں ہو سکتی تھیں اور انہیں ایمبولینس میں آکسیجن لگائی گئی۔ "یہ اس قدر خوفناک تھا، ہم بھوکے پیاسے تھے، ہم میں کوئی توانائی نہیں تھی۔ میں چل نہیں سکتی تھی۔۔۔ ہمارے میں کوئی امید باقی نہیں بچی تھی"۔

سفارت خانے میں، حکام نے انہیں کھانا کھلایا اور ان کے غذائی کمی کے شکار جسموں کو طاقت دلانے کے لیے پاکستان کے مشہور کھانے پکائے۔ اگرچہ آغاز میں وہ کھا نہیں پا رہے تھے مگر ان کی طاقت آہستہ آہستہ واپس آ گئی۔

مگر دکھ نے ڈیرے ڈالنے شروع کر دیے۔ اکرم نے روتے ہوئے کہا کہ "میں بہت اداس تھا۔ میں نے 40 سال کا کام، اپنا گھر، اپنے پوتے پوتیاں جو میری ٹانگوں میں بھاگتے تھے، پیچھے چھوڑے تھے"۔

شام کی طرف سے خاموشی

چند ہفتوں کے بعد اور ہزاروں کلومیٹر دور پاکستان میں، یہ جوڑا ابھی مکمل طور پر سنبھل نہیں پایا ہے۔ موٹرسائیکل کی آواز جہاز کی اور دروازہ بند کرنے کی آواز بم گرنے جیسی لگتی ہے۔

بی بی جو ابھی بھی کمزور ہیں، اپنی آنکھیں بند کر لیتی ہیں اور ان کا چہرہ کھنچاو کا شکار ہو جاتا ہے جب ان کے خاوند اپنے تجربات کو دہراتے ہیں۔

ان کے بھتیجے محمد عرفان، جن کے پاس وہ قیام پذیر ہیں، نے کہا کہ "وہ اندر سے تباہ ہو چکے ہیں"۔

اپنے خاندان کو چھوڑنے کا فیصلہ بہت کرب ناک تھا اور انہوں نے یہ فیصلہ بچوں کی طرف سے منتیں کیے جانے کے بعد کیا۔ بی بی نے کہا کہ "انہوں نے کہا کہ خدا کے واسطے آپ چلے جائیں، ہم بعد میں آ جائیں گے"۔

ایف پی سے بات کرنے سے تین دن پہلے، اکرم شام میں اپنے بیٹوں میں سے ایک سے فون پر بات کرنے میں کامیاب رہے۔

عرفان نے کہا کہ "ان کے بیٹے نے انہیں بتایا کہ ہمارے حالات انتہائی خراب ہیں اور جلد ہی ہم آپ سے بات کرنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے"۔

اس وقت سے شام کی طرف سے خاموشی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500