دہشتگردی

ملالہ یوسفزئی کی دہشتگردی کے خلاف علامتی فتح کے ساتھ وطن واپسی

اے ایف پی

31 مارچ کو نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی (بائیں) پاکستانی ریاستی وزیر برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کے ہمراہ لڑکوں کے سوات کیڈٹ کالج گُلی باغ پہنچی۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

31 مارچ کو نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی (بائیں) پاکستانی ریاستی وزیر برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کے ہمراہ لڑکوں کے سوات کیڈٹ کالج گُلی باغ پہنچی۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

سوات – نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی ہفتہ وار تعطیلات کے دوران دوبارہ اس علاقہ میں اپنے پہلے دورہ کے لیے وادیٴ سوات پہنچی جو کبھی دہشتگردی سے متاثرہ تھا اور جہاں پانچ برس سے زائد عرصہ قبل طالبان نے انہیں سر میں گولی مار دی تھی۔

یہ مختصر دورہ پاکتستان کے لیے نہایت علامتی لمحہ ہے، جو سوات کو دہشتگردی کے ساتھ اپنی طویل جنگ میں مسلسل ایک کامیاب داستان کے طور پر بیان کر رہا ہے۔

یوسفزئی نے 2012 میں قومہ کی حالت میں فوج کی جانب سے ہوا کے ذریعے لے جائے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا، "میں نے بند آنکھوں کے ساتھ سوات چھوڑا، اور اب میں کھلی آنکھوں کے ساتھ واپس آئی ہوں۔"

انہوں نے مینگورہ میں ایک سکول میں کہا، "میں نہایت خوش ہوں۔ میرا خواب پورا ہو گیا۔ میری بہنوں اور بھائیوں کی انمول قربانیوں کی وجہ سے سوات میں امن لوٹ آیا ہے۔"

31 مارچ کو ملالہ یوسفزئی (درمیان) اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ، ٹویٹر پر پوسٹ کی گئی ایک تصویر بنوا رہی ہیں۔ انہوں نے لکھا، "اپنے آبائی گھر کو دیکھ کر، دوستوں سے مل کر اور اس سرزمین پر دوبارہ قدم رکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے۔" [ملالہ یوسفزئی/ٹویٹر]

31 مارچ کو ملالہ یوسفزئی (درمیان) اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ، ٹویٹر پر پوسٹ کی گئی ایک تصویر بنوا رہی ہیں۔ انہوں نے لکھا، "اپنے آبائی گھر کو دیکھ کر، دوستوں سے مل کر اور اس سرزمین پر دوبارہ قدم رکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے۔" [ملالہ یوسفزئی/ٹویٹر]

مینگورہ وہ مقام ہے جہاں ملالہ کے اہلِ خانہ رہتے تھے اور جہاں وہ 9 اکتوبر، 2012 کو سکول جا رہی تھی، جب ایک مسلح شخص اس کی سکول بس میں سوار ہوا، اور پوچھا "ملالہ کون ہے؟"، اور اسے گولی مار دی ۔

ابتدائی طور پر ایک عسکری ہسپتال میں اس کا علاج کیا گیا اور پھر برمنگھم، انگلستان میں۔

ہفتہ کو یوسفزئی نے ایک فوجی ہیلی کاپٹر سے وادیٴ سوات کی تصویر کشی کی اور یہ کہتے ہوئے ان تصاویر کو ٹویٹ کیا: "میرے لیے زمین پر خوبصورت ترین مقام۔"

انہوں نے ٹویٹ کیا، "اپنے آبائی گھر کو دیکھ کر،دوستوں سے مل کر، اور اس سرزمین پر دوبارہ قدم رکھ کر بہت خوشی ہوئی۔"

اسلام آباد لوٹنے سے قبل وہاں وہ قریب 45 منٹ رکیں اور مزید تصاویر بنائیں۔ پورا دوہ دو گھنٹے سے کچھ ہی زیادہ کا تھا۔

ان کے اہلِ خانہ نے بھی ان کی واپسی پر اپنی خوشی سے متعلق اے ایف پی کو بتایا۔

ان کے والد ضیاء الدین یوسفزئی نے کہا، "مجھے یقین نہیں آ رہا کہ میں سوات میں واپس آ گیا ہوں اور اپنے لوگوں سے مل رہا ہوں۔"

پر آشوب واپسی

یہ دورہ برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک طالبہ، ملالہ کی پاکستان میں جذباتی واپسی کے دو روز بعد ہوا، جہاں ان کے اچانک دورہ نے بڑے پیمانے پر خوشی اور فخر کو تحریک دی۔ حکومتی اہلکاروں کے مطابق، وہ پیر (2 اپریل) کو برطانیہ واپس لوٹ گئی۔

گزشتہ جمعرات (29 مارچ) کو ٹیلی ویژن پر نشر کی جانے والی ایک تقریر میں وہ یہ کہتے ہوئے پرآشوب ہو گئیں کہ واپس آنا ان کا خواب تھا، اور انہوں نے پاکستانی میڈیا سے عہد کیا ہے کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ مستقلاً پاکستان واپس لوٹ آئیں گی۔

تاہم انہیں کچھ حلقوں سے شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ ملالہ کو بین لاقوامی طور پر بڑے پیمانے پر عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، تاہم پاکستان میں دو رائے ہیں، جہاں چند دقیانوسی خیالات کے مالک اسے اپنے ملک کی رسوائی کرانے کے مشن پر کام کرنے والی مغربی ایجنٹ خیال کرتے ہیں۔

علاقہ مکینوں نے حالیہ دونوں میں اے ایف پی کے سامنے ملالہ کی تعریف کی، اور کہا کہ انہوں نے صوبہ خیبر پختونخواہ کے نہایت دقیانوسی علاقہ میں – بطورِ خاص لڑکیوں کے لیے – تعلیمی اصلاحات میں مدد کی۔

قبل ازاں رواں ہفتے مینگورہ کے شمال مشرق میں ضلع شانگلہ میں، جہاں شہر منتقل ہونے سے قبل ان کے اہلِ خانہ مقیم تھے، کھولے گئے ملالہ فنڈ کے پیسوں سے ایک لڑکیوں کا سکول تعمیر گیا۔

ملالہ نے سوات میں اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ 2012 سے اب تک علاقہ میں وسیع تبدیلیاں دیکھ رہی ہے – تاہم، اس نے مزید کہا کہ اس نے رپورٹس پڑھی ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تا حال 50 فیصد تک بچے ابھی سکولوں سے باہر ہیں۔

انہوں نے عہد کیا، "ان سب کو سکول لانے کے لیے ہمیں سخت محنت کرنا ہو گی۔"

سوات کے رہائشیوں نے اس کے دورہ کا خیرمقدم کیا اور ساتھی پاکستانیوں سے بچیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے اس کی کاوشوں کی حمایت کرنے پر زور دیا۔

ایک سرکاری ملازم نذیر خان نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہم ملالہ اور اس کے بلند کردہ نعرے – ایک قلم ایک استاد— کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہم نے ملالہ سے اپنی امّیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔"

ساتھی باشندے ارشد علی نے کہا، "لوگوں کے اس کے بارے میں مثبت اور منفی نظریات ہیں۔"

"ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ اس نے اب تک کیا کیا ہے، اس نے شانگلہ میں ایک ماڈل سکول تعمیر کیا ہے جو – ملک میں تعلیم، بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ – کے مقصد کے ساتھ اس کی نیک نیتی کا عکاس ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

وہ ایک دلیر لڑکی ہے۔ ایک سواتی قومیت کا حامل ہونے کے ناطے مجھے اس پر فخر ہے۔

جواب