سلامتی

غنی کے امن منصوبے پر طالبان کو اندرونی مباحثے کا سامنا

اے ایف پی

افغان صدر اشرف غنی 13 مارچ کو کابل میں امریکی وزیرِ دفاع جم میٹس سے مخاطب ہیں۔ کابل کے ایک غیر اعلانیہ دورے کے دوران، 13 مارچ کو میٹس نے کہا کہ طالبان کے کچھ عناصر افغان حکومت کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہیں، گزشتہ ماہ غنی کی جانب سے تجویز کردہ امن منصوبے پر طالبان کا خاموش ردِ عمل اس دعوے کی توثیق کرتا ہے۔ [تھامس واکنز/اے ایف پی]

افغان صدر اشرف غنی 13 مارچ کو کابل میں امریکی وزیرِ دفاع جم میٹس سے مخاطب ہیں۔ کابل کے ایک غیر اعلانیہ دورے کے دوران، 13 مارچ کو میٹس نے کہا کہ طالبان کے کچھ عناصر افغان حکومت کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہیں، گزشتہ ماہ غنی کی جانب سے تجویز کردہ امن منصوبے پر طالبان کا خاموش ردِ عمل اس دعوے کی توثیق کرتا ہے۔ [تھامس واکنز/اے ایف پی]

کابل -- تجزیہ کاروں کے مطابق، گزشتہ ماہ افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے امن مذاکرات پر طالبان کا خاموش ردِعمل حکومت کے ساتھ مشغول ہونے کے حسن و قبح پر ایک اندرونی مباحثے کی عکاسی کرتا ہے جسے طالبان بہت پہلے مسترد کر چکے ہیں۔

غنی کی پیشکش کے بعد دو ہفتوں میں، طالبان نے اپنی ویب سائٹ العمرہ پر ایک بیان اور ایک غیر دستخط شدہ تبصرہ جاری کیا ہے۔

طالبان کی خاموشی پر 28 فروری کو کابل میں ایک بین الاقوامی کانفرنس پر غنی کی جانب سے کی گئی پیشکش کا براہِ راست جواب دینے کے مطالبات اٹھنے لگے ہیں۔ افغان رہنماء نے جنگ بندی کا بھی مطالبہ کیا تھا جس کے بعد طالبان ایک سیاسی جماعت بن سکتے تھے۔

حکومت کو بالا دست کرنا

غیر دستخط شدہ تبصرہ، جو 13 مارچ کو پوسٹ کیا گیا تھا، نے مکرر کہا کہ طالبان گفت و شنید کے لیے تیار ہیں لیکن -- کابل کے ساتھ نہیں -- صرف واشنگٹن کے ساتھ۔

یہ طنز گزشتہ ہفتے کے آخر میں جاری کردہ بیان کے بعد کیا گیا جہاں طالبان نے کابل اور اس کی امن عمل کی کوششوں کو مسترد کیا تھا۔

دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لیکن اس تجویز نے طالبان کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

غنی کی انتظامیہ سے بات چیت کرنے سے یکسر انکار افغان اور اتحادی فوجوں کو جنگجوؤں کے خلاف ہوائی حملوں کو تیز کرنے کا جواز فراہم کرے گا۔

ایک افغان دفاعی ذریعے نے اے ایف پی کو بتایا، "یہ ایک آسان فیصلہ نہیں ہے۔ اگر وہ پیشکش مسترد کرتے ہیں تو وہ حکومت کو بالا دست کریں گے۔"

طالبان کی صفوں میں اختلافِ رائے

کابل میں ایک مغربی سفارتکار نے اے ایف پی کو بتایا، "بیان یہ کہہ رہا ہے کہ 'مذاکرات پر آنے کے لیے ہماری بات کافی نہیں سنی گئی۔'

طالبان کی قیادت کونسل -- جو کوئٹہ شوریٰ کے نام سے معروف ہے -- کی ایک اہم شخصیت نے کہا کہ جنگجو غنی کے امن منصوبے کو "سنجیدگی" سے نہیں لے رہے۔

انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا، "ہم نے کہا ہے کہ ہم امریکہ کے ساتھ بات کریں گے [اور افغان حکومت کے ساتھ نہیں کریں گے]۔"

لیکن طالبان قیادت میں ہر کسی کی یہ رائے نہیں ہے۔

طالبان کے ساتھ رابطے میں رہنے والے ایک مغربی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا، "کچھ کا خیال ہے کہ انہیں بات کرنی چاہیئے، کچھ کا خیال ہے کہ انہیں افغانوں کے ساتھ بات نہیں کرنی چاہیئے، اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ انہیں بالکل ہی بات نہیں کرنی چاہیئے۔"

دباؤ محسوس کرنا

موسمِ سرما میں شدید لڑائی، جب درجۂ حرارت نکتۂ انجماد پر ہوتا ہے اور برفباری عام طور پر جنگ کو بالکل دھیما کر دیتی ہے، نے اس افواہ کو تیز کیا کہ طالبان امریکی قیادت میں ہوائی بمباری کی مہم کا دباؤ محسوس کر رہے ہیں۔

ہوائی حملوں میں امریکی حکومت کی جانب سے اگست میں اعلان کردہ حکمتِ عملی کے تحت شدت آ گئی ہے جس نے امریکی پائلٹوں کو جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کی مزید جگہ دے دی ہے۔

افغانستان میں نیٹو مشن کے ڈائریکٹر برائے منصوبہ بندی، برگیڈیئر جنرل مائیکل فینزل نے منگل کے روز کہا کہ طالبان کی خاموشی "حوصلہ افزاء" ہے۔

انہوں نے صحافیوں کو بتایا، "عام طور پر جب بھی کوئی پیشکش کی گئی ہے ۔۔۔ اسے فوری طور پر مسترد کیا جاتا رہا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

یہ صفحہ اصل تصویر اور حقیقت میں کیوں دکھائی نہیں دے رہا؟

جواب

یہ چینل صرف نفرت پھیلانے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔

جواب