دہشتگردی

داعش کے افغانستان ہجرت کرنے والے عسکریت پسندوں کے لیے یقینی موت منتظر

از سلیمان

داعش کی افغانستان میں شاخ کی طرف سے جاری کی جانے والی حالیہ ویڈیو میں زیادہ تر اس کے اپنے ارکان کو ہی ناکافی ساز و سامان کے ساتھ، سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے، پناہ گاہ کے بغیر اور بلند پہاڑی علاقوں میں ناکافی خوراک اور سامان کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔

داعش کی افغانستان میں شاخ کی طرف سے جاری کی جانے والی حالیہ ویڈیو میں زیادہ تر اس کے اپنے ارکان کو ہی ناکافی ساز و سامان کے ساتھ، سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے، پناہ گاہ کے بغیر اور بلند پہاڑی علاقوں میں ناکافی خوراک اور سامان کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔

کابل -- افغان حکام اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ "دولت اسلامیہ" (داعش) کی طرف سے افغانستان آنے کے دعوت کو قبول کرنے والے دہشت گردوں کو ایسا قدم اٹھانے سے پہلے بہت غور و فکر کرنا چاہیے۔

داعش کی خراسان شاخ نے 4 مارچ کو ایک 25 منٹ کی ویڈیو جاری کی جس میں شمالی اور مشرقی افغانستان میں داعش کے قلعوں کی ایسےعسکریت پسندوں کے لیے جو عراق یا شام نہیں پہنچ سکتے "ہجرت کے لیے ایک انتخاب" کے طور پر تشہیر کی گئی ہے۔ یہ بات ایس آئی ٹی ای انٹیلیجنس گروپ نے 6 مارچ کو بتائی۔

اس ویڈیو میں ایک عسکریت پسند تاریخی علاقے جس میں موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان اور ہمسایہ ممالک کے حصے بھی شامل ہیں، کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ "دنیا کے ہر کونے سے تعلق رکھنے والے اے مسلمانو! خراسان کو ہجرت کر جاو اگر تم عراق یا شام کو ہجرت نہیں کر سکتے تو خراسان کو آ جاؤ"۔

یہ ویڈیو جس میں پشتو، فارسی اور ازبک زبانوں میں پیغام دیا گیا ہے، دہشت گرد گروہ کی سفاکیت کو بھی دکھایا گیا ہے جس میں بچوں کی فوجیوں کے طور پر تربیت اور قیدیوں کو قتل کرنا شامل ہیں۔

داعش کی طرف سے 4 مارچ کو جاری کی جانے والی پروپیگنڈا ویڈیو سے لیا گیا سکرین شاٹ جس میں داعش کے ٹھکانے پر اتحادی فضائی حملے کے بعد ہونے والی تباہی دکھائی گئی ہے۔

داعش کی طرف سے 4 مارچ کو جاری کی جانے والی پروپیگنڈا ویڈیو سے لیا گیا سکرین شاٹ جس میں داعش کے ٹھکانے پر اتحادی فضائی حملے کے بعد ہونے والی تباہی دکھائی گئی ہے۔

داعش کی طرف سے 4 مارچ کو جاری کی جانے والی ویڈیو سے لیے گئے سکرین شاٹ میں ایک پریشان افغان بچے کو دکھایا گیا ہے۔ داعش افغان تنازعہ میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار اتحاد کو قرار دینے کی کوشش کرتی ہے مگر حالیہ مہینوں میں افغانیوں کے خلاف داعش کے خونی دہشت گردانہ حملے ایک مختلف کہانی پیش کرتے ہیں۔

داعش کی طرف سے 4 مارچ کو جاری کی جانے والی ویڈیو سے لیے گئے سکرین شاٹ میں ایک پریشان افغان بچے کو دکھایا گیا ہے۔ داعش افغان تنازعہ میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار اتحاد کو قرار دینے کی کوشش کرتی ہے مگر حالیہ مہینوں میں افغانیوں کے خلاف داعش کے خونی دہشت گردانہ حملے ایک مختلف کہانی پیش کرتے ہیں۔

داعش کی طرف سے 4 مارچ کو جاری کی جانے والی ویڈیو سے لیے گئے سکرین شاٹ میں داعش کے دہشت گردوں کو نہتے شہریوں کو گولیاں مار کر ہلاک کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

داعش کی طرف سے 4 مارچ کو جاری کی جانے والی ویڈیو سے لیے گئے سکرین شاٹ میں داعش کے دہشت گردوں کو نہتے شہریوں کو گولیاں مار کر ہلاک کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

داعش تباہی کے دہانے پر

افغانستان کی وزارتِ دفاع کے مطابق، داعش کی طرف سے افغانستان آنے والے عسکریت پسندوں کو صرف موت ہی ملے گی کیونکہ یہ دہشت گرد گروہ تباہی کے دہانے پر ہے۔

وزارتِ دفاع کے ایک ترجمان جرنل دولت وزیری نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "افغانستان میں داعش کے تمام منصوبے ناکام ہو چکے ہیں اور اس گروہ کو شکست ہو چکی ہے۔ داعش کی خراسان شاخ اپنے ارکان، ہتھیاروں اور جنگی صلاحیتوں کی غالب اکثریت کو شمالی اور جنوبی دونوں زونوں میں، کھو چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "گزشتہ دو سالوں کے دوران داعش کے تقریبا 3,500 جنگجو ہلاک ہوئے، 1,000 سے زیادہ زخمی ہوئے اور دیگر 500 سے زیادہ کو گرفتار کیا گیا"۔

وزیری نے کہا کہ داعش کے دہشت گردوں کو "اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ افغانستان ان کے لیے ایک پناہ گاہ نہیں ہے اور اگر وہ افغانستان کے شمال یا مشرق میں گیے تو انہیں عام شہری اور سیکورٹی فورسز تباہ کر دیں گی"۔

انہوں نے کہا کہ "داعش کے عسکریت پسند ننگرہار صوبہ میں اپنے تمام ٹھکانوں کو کھو چکے ہیں جو کہ کبھی ان کا ہیڈ کواٹر تھا۔ صرف دو سال پہلے ہی ملک کے مشرق میں ان کے 4,000 ارکان تھے مگر اب ان کے 400 ارکان بھی نہیں رہ گئے ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ننگرہار کے دورافتادہ علاقوں میں باقی بچ جانے والے داعش کے جنگجوؤں کو تباہ کرنے کے لیے فضائی اور زمینی مہمات اس وقت جاری ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ افغان اور امریکی ریزولیوٹ سپورٹ مشن فورسز کی طرف سے فضائی حملے بھی جواز جان کی درزب ڈسٹرکٹ میں جاری ہیں جہاں داعش "مقابلتاً سرگرم" ہے۔

وزیری نے کہا کہ "اس کے نتیجہ میں۔۔۔ ابھی تک داعش کے درجنوں مقامی اور غیر ملکی ارکان ہلاک ہو چکے ہیں"۔

ایک ناقابلِ قبول دہشت گرد گروہ

افغانستان میں داعش کی شکست کی ایک مرکزی وجہ عام عوام کی مزاحمت اور اس کا سیکورٹی فورسز کے ساتھ تعاون کرنا رہا ہے۔

کابل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر داود رآش نے کہا کہ "داعش افغانستان میں 'اسلامی خلافت' قائم کرنے کے دعوی کے ساتھ آئی اور اس نے عراق اور شام میں اپنے ہیڈکواٹرز سے محروم ہونے کے بعد، اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے اور افغانستان کے مسلمانوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، افغانستان کو اپنے ہیڈکواٹر میں بدلنے کی کوشش کی"۔

انہوں نے کہا کہ "تاہم اس کے نظریات اور کام افغان نظریات اور ثقافت سے متصادم تھے۔ 'اسلامی خلافت' صرف ایک نعرہ ہی تھا اور سچائی سے بہت دور تھی"۔

انہوں نے کہا کہ "افغانیوں کو احساس ہو گیا کہ ذاتی طور پر دعوی شدہ اسلامی خلافت کے پیروکاروں کا مرکزی مقصد مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کو پھیلانا تھا نہ کہ اعتدال پسند اسلام کو۔ اس وجہ سے افغانیوں نے داعش اور اس کی خلافت کو مسترد کر دیا اور ان کے ساتھ لڑائی شروع کر دی"۔

رآش نے کہا کہ "داعش کی طرف سے شام اور عراق میں کیے جانے والے مظالم کو ساری دنیا، خصوصی طور پر افغانیوں نے دیکھا جو کہ کئی سالوں سے دہشت گردی سے جنگ کر رہے ہیں۔ ایسے گروہ کی موجودگی افغان برادری کے لیے نہ تو کبھی قابلِ قبول رہی ہے اور نہ ہی کبھی ہو گی"۔

انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ افغان شہری ابوبکر البغدادی کی زیرِ قیادت کسی بھی دہشت گرد تنظیم کی طرف "منفی ردِعمل" کا اظہار کریں گے "جیسا کہ انہوں نے گزشتہ دو تین سالوں کے دوران کیا ہے" کہا کہ "اس لیے داعش افغان سرزمین کو اپنے ہیڈکواٹر کے طور پر منتخب نہیں کر سکتی"۔

داعش کو طالبان میں کوئی اتحادی نہیں ملا

یہاں تک کہ طالبان بھی داعش کی افغانستان میں چڑھائی کی کوششوں کو برداشت نہیں کرتے ہیں۔

مقامی حکام کے مطابق، گزشتہ دو ماہ کے دوران داعش اور طالبان کے ارکان کے درمیان لغمان صوبہ میں جھڑپیں ہوئی ہیں جس کے نتیجہ میں دونوں فریقین کے درجنوں ارکان ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں، جس سے افغان نیشنل ڈیفنس اور سیکورٹی فورسز دونوں کا خاتمہ کرنے کے لیے آپریشن شروع کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔

مقامی حکام نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ گزشتہ سال کے آخیر میں داعش اور طالبان نے ننگرہار صوبہ میں علاقے کے لیے لڑائی کی اور نومبر میں دونوں گروہوں نے جواز جان اور ننگرہار صوبہ میں "سنگین اور گہرے اختلافات" کے بعد ایک دوسرے کے خلاف "جہاد" کا اعلان کر دیا۔

حکام نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ گزشتہ سال مئی میں داعش اور طالبان کے عسکریت پسند افغانستان بھر میں ایک دوسرے سے جنگ میں مصروف تھے اور عام شہریوں کی لوٹ مار کرنے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔

داعش کے جبر کے خلاف مزاحمت

ننگرہار صوبائی کونسل کے ایک رکن ذبیح اللہ زمری نے کہا کہ ان دو سالوں کے دوران جب داعش ننگرہار میں موجود تھی "اس نے بہت سے ظلم اور جرائم انجام دیے"۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "اس نے گھروں کو جلایا، عورتوں کو اغوا کیا، قبائلی بزرگوں اور مذہبی علماء کو قتل کیا اور اسکولوں اور صحت کے مراکز کو بند کر دیا"۔

انہوں نے کہا کہ "انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ شہری ان کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کر دیں۔ مگر ان تمام باتوں کے الٹے نتائج سامنے آئے"۔

زمری نے کہا کہ "ننگرہار کے لوگوں نے داعش میں شامل ہونے سے انکار کر دیا اور وہ سیکورٹی فورسز کے ساتھ کھڑے رہے۔ انہوں نے داعش سے جنگ کی"۔

انہوں نے کہا کہ "نہ صرف یہ کہ ننگرہار کے شہریوں نے داعش کو اپنے صوبے میں قدم جمانے کی اجازت نہیں دی بلکہ وہ سیکورٹی فورسز کے ساتھ مل کر داعش کے باقی ارکان کو پکڑنے کے لیے بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ننگرہار کے شہریوں نے اس دہشت گرد گروہ کو شکست دینے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "ملک کی پوری تاریخ میں، افغان عوام نے کبھی بھی کسی غیر ملکی راہنما سے وفاداری کا عہد نہیں کیا ہے۔ اس لیے انہوں نے نہ صرف داعش کے ساتھ وفاداری کا اعلان کرنے سے انکار کیا بلکہ انہوں نے اس گروہ میں شمولیت اختیار کرنے کو اپنے مذہب اور ثقافت سے متضاد خیال کیا"۔

زمری نے کہا کہ "داعش کے دہشت گردوں کو یہاں نہیں آنا چاہیے کیونکہ ان کے سب راہنما اور ان کی خراسان شاخ کے عسکریت پسندوں کی اکثریت افغانستان کی مٹی کے نیچے دفن ہے"۔

داعش کے منصوبے الٹے ہو گئے

ولسی جرگہ (پارلیمنٹ کا ایوانِ زیریں) میں بامیان صوبہ کے ایک نمائںدے فاکوری بہشتی نے کہا کہ افغانستان میں اپنا ہیڈکواٹر بنانے کی کوششوں میں صرف اور صرف ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد، داعش نے شیعہ اقلیت کو نشانہ بنا کر فرقہ ورانہ فسادات کو ہوا دینے کی کوشش کی۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "اس کا مقصد اس طریقے سے پیروکاروں کو بھرتی کرنے کا تھا۔ تاہم اس منصوبے نے افغانستان میں نسلی اور مذہبی آگاہی کو مزید جگانے میں کردار ادا کیا"۔

انہوں نے کہا کہ شیعہ مساجد اور دیگر مقدس مقامات کو تباہ کرنے سے داعش نے افغانستان میں فرقہ واریت کو بھڑکانے اور نوجوانوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش کی۔

تاہم، اس سے متضاد ہوا۔ انہوں نے کہا کہ "دونوں فرقوں کے پیروکار پہلے سے کہیں زیادہ ایک دوسرے کے اس حد تک قریب آ گئے کہ نہ صرف سُنی شیعہ افراد کی مساجد میں ان سے ہمددری کا اظہار کرنے گئے بلکہ انہوں نے ان کے ساتھ نماز میں بھی شرکت شروع کر دی"۔

بہشتی نے کہا کہ "داعش کا متاثرین کی 100 فیصد تعداد عام شہریوں کی رہی ہے جس میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ موجودہ شمسی سال میں (جس کا آغاز 21 مارچ کو ہوا) اس گروہ کی طرف سے مساجد اور دوسرے مذہبی مقامات پر کیے جانے والے حملوں میں سینکڑوں کی تعداد میں عام شہری مرد اور عورتیں ہلاک ہوئے ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500