رواداری

پاکستانی سیاست دان سرِعام توہین آمیز حملوں کے خلاف متحد

عبدل ناصر خان

ایک شخص پاکستان کے وزیرِ خارجہ خواجہ محمد آصف پر ان کے آبائی شہر صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں ان پر 10 مارچ کو سیاہی پھینک رہا ہے۔ ]بہ شکریہ عبدل ناصر خان[

لاہور -- پاکستان کی سیاسی قیادت نے سیاست دانوں کے خلاف سرِعام "توہین آمیز" کاموں کی سخت مذمت کی ہے اور انہیں "غیر اخلاقی" اور جمہوریت کی روح کے خلاف قرار دیا ہے۔

دو حالیہ واقعات نے اس مذمت کو جنم دیا ہے۔

لاہور کے ایک مذہبی مدرسے جامعہ نعیمعہ میں ایک سیمینار کے دوران، اتوار (11 مارچ) کو مدرسے کے ایک طالبِ علم نے سابقہ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف پر جوتا دے مارا۔

لاہور کے ایک رہائشی مفتی اسحاق حسین جو کہ اس تقریب میں شریک تھے، نے تحریکِ لبیک یا رسول اللہ پاکستان، ایک مذہبی گروہ جو اسلامیت پسند سیاسی جماعت میں تبدیل ہو گیا ہے، کے نعرے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "وہ شخص پہلی قطار میں بیٹھا تھا اور وہ ایک دم اٹھ کھڑا ہوا اور "لبیک، لبیک" کے نعرے لگاتے ہوئے اس نے اس وقت نواز شریف پر جوتا پھینک دیا جب وہ ہجوم سے خطاب کرنے کے لیے پوڈیم پر پہنچے"۔

وزیرِ خارجہ خواجہ محمد آصف، ایک شخص کی طرف سے ان پر ہفتہ (10 مارچ) کو سیاہی پھینکے جانے کے بعد، حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ-نواز (پی ایم ایل-این) کی ایک ریلی کے دوران اپنے ردِعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ ]بہ شکریہ عبدل ناصر خان[

وزیرِ خارجہ خواجہ محمد آصف، ایک شخص کی طرف سے ان پر ہفتہ (10 مارچ) کو سیاہی پھینکے جانے کے بعد، حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ-نواز (پی ایم ایل-این) کی ایک ریلی کے دوران اپنے ردِعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ ]بہ شکریہ عبدل ناصر خان[

تصویر میں دکھائے گئے فیض الرسول کو مبینہ طور پر وزیرِ خارجہ خواجہ محمد آصف پر سیالکوٹ شہر میں ہفتہ (10 مارچ) کو سیاہی پھینکنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ]پنجاب پولیس[

تصویر میں دکھائے گئے فیض الرسول کو مبینہ طور پر وزیرِ خارجہ خواجہ محمد آصف پر سیالکوٹ شہر میں ہفتہ (10 مارچ) کو سیاہی پھینکنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ]پنجاب پولیس[

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یوں لگتا ہے کہ یہ سابقہ وزیراعظم کی بے عزتی کرنے کے لیے کی جانے والی ایک منظم کوشش تھی کیونکہ سیکورٹی کی طرف سے پہلے حملہ آور کو گرفتار کیے جانے کے باوجود جوتے پھینکنے کا سلسلہ جاری رہا مگر خوش قسمتی سے کوئی بھی سٹیج تک نہیں پہنچ سکا"۔

اس واقعہ کے مرکزی ملزم اور اس کے دو ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

دریں اثنا، ہفتہ (10 مارچ) کو ایک شخص نے وزیرِ خارجہ خواجہ محمد آصف پر صوبہ پنجاب میں ان کے آبائی شہر سیالکوٹ میں اس وقت سیاہی پھینک دی تھی جب وہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ -نواز (پی ایم ایل-این) کی ایک ریلی کے دوران خطاب کر رہے تھے۔

ملزم جس کی شناخت فیض الرسول کے طور پر ہوئی ہے، کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔

اس نے پولیس کو بتایا کہ اس نےختمِ نبوت (رسالت کے اختتام) کے اس حلف نامے میں تبدیلی کی کوشش پر احتجاج کے لیے سیاہی پھینکی، جس پر منتخب حکام اور امیدواروں کے لیے دستخط کرنا لازمی ہوتا ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک سیںئر صحافی اور تجزیہ نگار عاصم نصیر کے مطابق، تازہ ترین سیاسی حملے ہو سکتا ہے کہ اکا دکا ہونے والے واقعات نہ ہوں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ کسی کی طرف سے منصوبہ کردہ حرکت نظر آتی ہے"۔

نصیر نے کہا کہ 24 فروری کو، وزیرِ داخلہ احسان اقبال پر بھی ان کے آبائی گاوں نارووال، پنجاب میں جوتا پھینکا گیا تھا۔

سیاسی راہنما عدم برداشت کے خلاف متحد

صدر ممنون حسین نے قوم پر زور دیا کہ وہ سیاسی اختلافات کی عدم برداشت کے خلاف متحدہ طور پر کھڑے ہوں۔

انہوں نے حکام کو قومی قیادت کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ "اگر اس رجحان کو نہ روکا گیا تو دہشت گردی کے خلاف بے مثال کامیابی، شکست میں بدل جائے گی"۔

انہوں نے کہا کہ "یہ رحجان قوم کو تباہ کر دینے والا ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمارے پاس ایک "اخلاقی منشور" ہونا چاہیے تاکہ معاشرے کو اخلاقی تباہی سے بچانے کے لیے اپنے اختلافات کا اظہار کرتے ہوئے مذہبی اور آئینی حدود کی پابندی کی جائے"۔

دیگر پاکستانی راہنماؤں نے جن میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیرمین عمران خان، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری، جمعیت علمائے اسلام (فضل) (جو یو آئی -ایف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، جماعتِ اسلامی (جے آئی) کے سربراہ سراج الحق اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سربراہ اسفند یار ولی خان شامل ہیں نے ان واقعات کی مذمت کی۔

پی پی پی کی طرف سے اتوار (11 مارچ) کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق، زرداری نے کہا کہ یہ واقعات سیاسی راہنماؤں کی عزت اور سیکورٹی کو نقصان پہنچانے کے ایک بدصورت رجحان کی نمائندگی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ہم شروع سے ہی سیاسی مخالفین کے خلاف ایسے توہین آمیز ہتھکنڈے استعمال کرنے کے خلاف رہے ہیں اور ایسے واقعات کی بھرپور طور پر مذمت کرتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ایسی کوششوں کا مقصد، سیاسی راہنماؤں کی عوام سے براہ راست ملنے سے حوصلہ شکنی کرنا نہیں ہونا چاہیے"۔

خان نے بھی ان کاموں کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ "یہ اپنی رائے کا اظہار کرنے کا طریقہ نہیں ہے اور جس نے بھی ایسا کیا ہے میں اس کی مذمت کرتا ہوں"۔

فصل نے کہا کہ "جوتا پھینکے اور سیاہی پھینکنے کا رجحان معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی عکاسی کرتا ہے اور دوسری قیادت کو بھی بخشا نہیں جائے گا اگر ہم اسے روکنے اور اس کی حوصلہ شکنی کرنے میں ناکام رہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500