سفارتکاری

بڑھتی ہوئی ایرانی جارحیت کے پیشِ نظر پاکستان ایران تعلقات آزمائش میں ہیں

از عبدالغنی کاکڑ

طالبان جنگجوؤں کے اس گروہ -- جسے ایرانی تربیت اور سرمایہ حاصل ہے -- نے مقامی حکام کے سامنے ہتھیار ڈالے ہیں۔ انہوں نے یہ ہتھیار اپنے مشن سے پہلے ہی ڈال دیئے جو کہ ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-ہندوستان (تاپی) قدرتی گیس پائپ لائن منصوبے کی افتتاحی تقریب پر حملہ کرنا تھا جس میں پاکستانی وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی شریک تھے۔ ایک جنگجو نے کہا 'ہمیں جنگی تربیت سرحد پار ایرانی علاقے میں دی گئی تھی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایرانی سفارت خانے کی جانب سے متعدد بار اس پر تبصرہ کرنے سے گریز کرنا 'بہرہ بننے والی بات ہے'۔ [سلیمان]

طالبان جنگجوؤں کے اس گروہ -- جسے ایرانی تربیت اور سرمایہ حاصل ہے -- نے مقامی حکام کے سامنے ہتھیار ڈالے ہیں۔ انہوں نے یہ ہتھیار اپنے مشن سے پہلے ہی ڈال دیئے جو کہ ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-ہندوستان (تاپی) قدرتی گیس پائپ لائن منصوبے کی افتتاحی تقریب پر حملہ کرنا تھا جس میں پاکستانی وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی شریک تھے۔ ایک جنگجو نے کہا 'ہمیں جنگی تربیت سرحد پار ایرانی علاقے میں دی گئی تھی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایرانی سفارت خانے کی جانب سے متعدد بار اس پر تبصرہ کرنے سے گریز کرنا 'بہرہ بننے والی بات ہے'۔ [سلیمان]

کوئٹہ -- پاکستان اور ایران کے مابین تعلقات بہت زیادہ آزمائش سے گزر رہے ہیں کیونکہ پاکستانی حکام اور تجزیہ کار ایران کے بڑھتے ہوئے جارحانہ رویئے پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

شدید ہوتی ہوئی اس صورتحال کا ایک پہلو یہ حقیقت ہے کہ ایران کی جانب سے تربیت یافتہ اور سرمایہ فراہم کردہ طالبان جنگجوؤں کو مبینہ طور پر افغانستان میں ہونے والی ایک تقریب پر حملہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا جس میں پاکستانی وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی شریک تھے۔

.23 فروری کو ہونے والی تقریب میں ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-انڈیا (تاپی) قدرتی گیس پائپ لائن کے افغان حصے کی تعمیر کا افتتاح ہوا - اس منصوبے کی تہران کھل کر مخالفت کر چکا ہے۔

حملے کے منصوبے کا انکشاف اس وقت ہوا جب طالبان کے گروہ نے اپنے ایرانی آقاؤں کی حکم عدولی کی اور مقامی حکام کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔

سوشل میڈیا پر گردش کرتی اس تصویر میں شام میں ہلاک ہونے والے شیعہ ملیشیا کے ارکان کا ایران میں جنازہ دکھایا گیا ہے۔ ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی پشت پناہی سے چلنے والی زینبیون بریگیڈ، جو کہ پاکستانی شیعوں پر مشتمل ہے، کا جھنڈا تصویر میں سامنے نظر آ رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر گردش کرتی اس تصویر میں شام میں ہلاک ہونے والے شیعہ ملیشیا کے ارکان کا ایران میں جنازہ دکھایا گیا ہے۔ ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی پشت پناہی سے چلنے والی زینبیون بریگیڈ، جو کہ پاکستانی شیعوں پر مشتمل ہے، کا جھنڈا تصویر میں سامنے نظر آ رہا ہے۔

دائیں سے: پاکستانی وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی، افغان صدر اشرف غنی، ترکمن صدر قربان قلی بردی محمدوف، اور ہندوستانی سکٹری برائے خارجہ امور شری ایم جے اکبر، 23 فروری کو افغانستان کے صوبہ ہرات میں تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کی افتتاحی تقریب کے دوران۔ ہتھیار ڈالنے والے طالبان جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ ایران نے اس تقریب پر حملہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ [افغان صدارتی محل]

دائیں سے: پاکستانی وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی، افغان صدر اشرف غنی، ترکمن صدر قربان قلی بردی محمدوف، اور ہندوستانی سکٹری برائے خارجہ امور شری ایم جے اکبر، 23 فروری کو افغانستان کے صوبہ ہرات میں تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کی افتتاحی تقریب کے دوران۔ ہتھیار ڈالنے والے طالبان جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ ایران نے اس تقریب پر حملہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ [افغان صدارتی محل]

پاکستان فارورڈ نے اس معاملے پر تبصرہ جاننے کے لیے اسلام آباد میں ایرانی سفارت خانے سے بارہا رابطہ کیا لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

اس حالیہ پیش رفت کے تناظر میں، ایران کی پشت پناہی سے ہزاروں پاکستانی نوجوانوں کو جنگجوں میں لڑنے کے لیے لبھایا جا رہا ہے جس سے پاکستان کی خودمختاری خطرے میں ہے اور تہران کے فرقہ وارانہ مقاصد پورے ہو رہے ہیں۔

ایرانی تربیت یافتہ جنگجوؤں کو عباسی کی تقریب پر حملے کا حکم ملا تھا

پاکستانی حکام اور دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کی حالیہ جارحیت علاقائی امور میں اس کی مداخلت کی ایک اور مثال ہے۔

راولپنڈی میں مقیم پاکستانی وزارتِ دفاع کے ایک سینیئر اہلکار، نوید رانا نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ ایران "اپنے جغرافیائی و سیاسی اور تزویراتی مقاصد کے لیے پاکستان کے ساتھ" اپنے تعلقات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

انہوں نے کہا، "پاکستان اور اس کے ہمسایہ ممالک پریشانی کی حالت میں ہیں اور کئی تنازعات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہماری کوئی پسندیدگیاں نہیں ہیں۔

"انہوں نے مزید کہا، "پاکستان اپنے قومی مفادات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

"اسلام آباد کے ایک سینیئر دفاعی اور سیکیورٹی تجزیہ کار، جنرل (ر) طلعت مسعود نے کہا، "افغانستان کے صوبہ ہرات میں ایران کی جانب سے تربیت یافتہ افغان طالبان [باغیوں] کے ہتھیار ڈالنے نے ثابت کیا ہے کہ ایران پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک میں پراکسی گیم میں بہت زیادہ حد تک ملوث ہے۔

"ایران کی تاپی کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں اس جارحیت کا ثبوت ہیں، کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "پاکستان کے خلاف ایرانی ۔۔۔ جارحیت کے منفی نتائج نکل رہے ہیں۔

"مسعود نے کہا کہ ایران تاپی کا مخالف ہے اور اسے ناکام بنانے یا پاکستان کو اس سے باہر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تاکہ یہ مخالفانہ بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو چلا سکے۔

"تاپی بہت جلد مکمل ہو جائے گی، اور یہ پاکستان کے افغانستان اور ہندوستان کے ساتھ روابط کو بہتر بنائے گی، کیونکہ اس منصوبے کے ذریعے، تینوں ممالک کا ایک دوسرے پر انحصار ہو گا۔

"انہوں نے کہا، "پاکستان کے لیے، اربوں ڈالر کا تاپی منصوبہ [ایران سے منسلک دیگر منصوبوں سے] زیادہ کارآمد ہے، کیونکہ تاپی کے کوئی منفی مضمرات نہیں ہیں۔

اس کی بجائے، سنہ 2020 میں اس کی تکمیل کے بعد، پاکستان [تاپی سے] اپنی گیس کی کل پیداوار کا ایک تہائی حاصل کر رہا ہو گا۔

"انہوں نے کہا، "علاقائی امن میں پاکستان کا ایک کلیدی کردار ہے؛ یہ اپنی سرزمین کے خلاف ایرانی جارحیت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

لہٰذا ۔۔۔ پاکستان [لازماً] سفارتی ذرائع سے ایرانی اثرورسوخ کا سختی سے جواب دے۔

ایران 'دوہرے معیار' کا حامل ہے

لاہور کے مقامی ایک انٹیلیجنس تجزیہ کار، محمد عبداللہ نے کہا، "کسی بھی قومی یا بین الاقوامی کام میں قومی سلامتی کا ایجنڈا پاکستان کی اولین ترجیح ہے۔"

"انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ایران دوہرے معیارات رکھتا ہے اور عسکریت پسندی کو ہوا دے رہا ہے ۔۔۔ پاکستان میں بھی اور افغانستان میں بھی۔

"انہوں نے کہا، "ایران اپنے مفادات [کو آگے بڑھانے کے لیے] کسی بھی حد تک جائے گا۔ اس لیے، یہ ضروری ہے ۔۔۔ کہ ایرانی اثرورسوخ پر توجہ دی جائے جو پاکستان کی داخلی سیکیورٹی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

"انہوں نے کہا، "خطے میں بڑھتے ہوئے ایرانی منفی کردار پر پاکستان کو کچھ سنگین تحفظات ہیں، اور اس نے حالیہ دنوں میں یہ تشویشیں سفارتی ذرائع سے بیان کر دی ہیں۔

"وزارتِ دفاع کے اہلکار، نوید نے کہا، "ہم ایران یا کسی بھی دوسرے ملک کو پاکستان کی داخلی سیاست میں ملوث ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

ہم اپنے خطے میں ہونے والی ہر نئی پیش رفت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

"انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ایران پر شکوک و شبہات کی وجوہات میں سے ایک وجہ مشرقِ وسطیٰ میں تیزی سے بدلتی ہوئی سیکیورٹی کی صورتحال میں ایران کا کردار ہے۔

انہوں نے کہا، "ایرانی بیانیئے نے بارہا سفارتی روایات کی خلاف ورزی کی ہے۔

ایرانی حکومت سے منسلک چند عناصر ہماری سرزمین کو ایرانی انقلاب برآمد کرنے کی کوششوں میں استعمال کر رہے ہیں، جو کہ کبھی نہیں ہو گا۔

ایران دہشت گردوں کی معاونت کر رہا ہے، انہیں پناہ دے رہا ہے

گمنامی کی شرط پر اسلام آباد کے مقامی ایک اعلیٰ خفیہ اہلکار نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ایران ہماری سرزمین پر دہشت گردوں [کی معاونت کر رہا ہے]، اور اگر ضرورت پڑی تو ہمارے پاس پیش کرنے کے لیے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔

"اہلکار نے مزید کہا، "ایران کا افغانستان میں پاکستان مخالف عناصر کے ساتھ اتحاد ہمارے لیے شدید تشویش کا باعث ہے۔

اگر ایران خطے میں، بشمول پاکستان میں، سیاسی بے چینی کا فائدہ اٹھانا جاری رکھتا ہے، تو اس سے دوطرفہ تعلقات [خطرے میں] پڑ جائیں گے۔

"پاکستانی-ایرانی سرحد کے آر پار ایرانی جارحیت کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان نے جامع اور دورس اقدامات کیے ہیں"، کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایرانی باقاعدگی سے مشغولیت کے اصولوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اس کی سرحد کے آر پار ایرانی مہم جوئیاں خطے میں عسکریت پسندی بڑھا رہی ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اگر ایسا کوئی منصوبہ تھا، تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس کا مقصد پاکستانی وزیرِ اعظم کو نشانہ بنانا تھا۔ یہ حملہ افغان صدر، ترکمان صدر یا بھارتی وفد ہی کے لیے کیوں نہ تھا۔ یہ محض پراپیگنڈا محسوس ہوتا ہے۔

جواب