جرم و انصاف

فرانزک ترقی کے پی میں دہشت گردی اور جرائم کی تحقیقات میں مددگار

جاوید خان

ایک فرانزک سائنس دان، یکم فروری کو مجرمانہ کیس میں ایک نمونے کا جائزہ لے رہا ہے تاکہ تفتیش میں پولیس کی مدد کی جا سکے۔ کے پی نے حال ہی میں اپنی ڈی این اے لیبارٹری کو آن لائن کیا ہے تاکہ دہشت گردی اور جرائم کے واقعات کی تفتیش میں پولیس کی مزید مدد کی جا سکے۔ ]جاوید خان[

ایک فرانزک سائنس دان، یکم فروری کو مجرمانہ کیس میں ایک نمونے کا جائزہ لے رہا ہے تاکہ تفتیش میں پولیس کی مدد کی جا سکے۔ کے پی نے حال ہی میں اپنی ڈی این اے لیبارٹری کو آن لائن کیا ہے تاکہ دہشت گردی اور جرائم کے واقعات کی تفتیش میں پولیس کی مزید مدد کی جا سکے۔ ]جاوید خان[

پشاور -- پشاور میں ڈی این اے کا ٹیسٹ کرنے والی نئی لیباریٹری نے حال ہی میں خیبر پختونخواہ (کے پی) بھر میں ہونے والے ہائی پروفائل جرائم اور دہشت گردی کے واقعات کی ڈی این اے پروفائلنگ کرنے کے لیے درکار کٹوں کو وصول کرنا شروع کیا ہے۔

کے پی میں ڈی این اے لیبارٹری کا منصوبہ 2013 میں شروع ہوا تھا۔ کئی دفعہ کی تاخیر جس میں ڈی این اے پروفائلنگ کٹوں کا نہ ہونا بھی شامل تھا، کے پی کے ہیلتھ سیکریٹری عابد مجید نے 6 فروری کو، خیبر میڈیکل کالج (کے ایم سی) میں اس سہولت کا افتتاح کیا۔

کے پی پولیس کو اس سے پہلے ڈی این اے کے نمونوں اور ثبوت کو تجزیہ کے لیے لاہور میں پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے پاس بھیجنا پڑتا تھا۔

مجید نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم نے ڈی این اے لیباریٹری کے لیے جدید ترین مشینری خریدی ہے تاکہ ہم ڈی این اے پروفائلنگ اور دیگر ٹیسٹ کر سکیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ سارا سامان پہلے ہی سے موجود تھا سوائے پروفائلنگ کٹوں کے جو افتتاح سے کچھ دن پہلے آ گئی تھیں۔

مجید نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ ہر کٹ کو 200 ٹیسٹوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے کہا کہ "ہم نے مزید کٹوں کے لیے آرڈر دے دیا ہے"۔

افتتاح کے دوران انہوں نے کہا کہ حکومت عملے کے جائے وقوعہ پر جانے کے لیے گاڑیاں فراہم کرے گی۔

تفتیش کو بہتر بنانا

اس تقریب کے دوران، کے ایم سی کے ڈین پروفیسر نور الایمان نے کہا کہڈی این اے لیباریٹری کو قائم کرنے کے علاوہ، کے پی کی حکومت نے گزشتہ سال کے پی پولیس فرانزک سائنسز لیبارٹری (ایف ایس ایل) کو جدید بنایا تھا۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی قیصر خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "تاہم، ڈی این اے لیباریرٹی کے ایم سی میں الگ سے کام کرے گی اور یہ کے پی پولیس کی ایف ایس ایل کے ماتحت نہیں ہو گی"۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اور پولیس کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہجنوری میں چار سالہ اسماء کے قتل کی تفتیشکے دوران لیباریٹری مکمل طور پر کام نہیں کر رہی تھی۔

خان نے کہا کہ "کے پی پولیس کو نمونے لاہور میں پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کو بھیجنے پڑے جو ایک ہی عمارت کے اندر ہر طرح کے ٹیسٹ کر سکتی ہے"۔

سینئر سپریٹنڈنٹ آف پولیس اور کے پی ایف ایس ایل کے ڈائریکٹر رب نواز خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ اب چونکہ کے پی پولیس کو ڈی این اے کے نمونوں کو صوبہ پنجاب بھیجنے کی ضرورت نہیں اس لیے اب وہ نمونوں کو مقامی کے ایم سی لیبارٹری بھیج کر کیس کو زیادہ جلدی حل کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

خان نے کہا کہ "اس سے تفتیش کے معیار میں بھی بہتری آئے گی کیونکہ ڈی این اے کی ٹیسٹنگ کے دوران مقامی تفتیش کار موجود ہوں گے"۔

کیسز پر کام جاری ہے

خان نے مزید کہا کہ 2017 میں، کے پی ایف ایس ایل نے 55,000 کیس حل کیے جن میں مختلف طرح کے جرائم شامل تھے۔

خان نے کہا کہ "اس وقت ایف ایس ایل کے پاس کوئی کیس التوا میں نہیں پڑا ہے کیونکہ تمام نئے اور پرانے کیسز کو لیبارٹری کے سات مختلف حصوں کے ماہرین نے حل کر لیا ہے"۔

کے پی کے انسپکٹر جنرل آف پولیس صلاح الدین خان محسود نے گزشتہ ستمبر میں کہا تھا کہ "ہم ایک ویب سائٹ بنا رہے ہیں جس تک تمام عدالتوں کو رسائی ہو گی اور وہ اپنے کیسوں کے فرانزک نتائج کو دیکھ سکیں گی"۔

محسود نے کہا کہ ایف ایس ایل کو جدید بنائے جانے اور ڈی این اے کو مقامی طور پر پروفائل کرنے کی نئی اہلیت سے پولیس جرائم اور دہشت گردی کے واقعات کی تفتیش کو تیز تر کر سکے گی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500