صحت

ڈاکٹر عسکریت پسندی کو پاکستانیوں میں بڑھتی ہوئی دماغی بیماری سے منسلک کرتے ہیں

از محمد شکیل

ایک پاکستانی ماں (بائیں سے دوسری) پچھلے سال 17 فروری کو صوبہ سندھ میں سیہون کے مزار پر ہونے والے بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والے اپنے 13 سالہ بیٹے کی میت پر دیگر افراد کے ہمراہ بین کرتے ہوئے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے عسکریت پسندی کی وجہ سے المناک واقعات نے پاکستانیوں، بشمول بچوں میں دماغی امراض میں اضافہ کر دیا ہے۔ [آصف حسن/اے ایف پی]

ایک پاکستانی ماں (بائیں سے دوسری) پچھلے سال 17 فروری کو صوبہ سندھ میں سیہون کے مزار پر ہونے والے بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والے اپنے 13 سالہ بیٹے کی میت پر دیگر افراد کے ہمراہ بین کرتے ہوئے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے عسکریت پسندی کی وجہ سے المناک واقعات نے پاکستانیوں، بشمول بچوں میں دماغی امراض میں اضافہ کر دیا ہے۔ [آصف حسن/اے ایف پی]

پشاور -- طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عسکریت پسندی شہریوں، بالخصوص بچوں جو کہ اپنی کمسنی کی وجہ سے دماغی صدمے کے لیے زیادہ حساس ہیں، میں نفسیاتی الجھنوں میں اضافہ کرنے کا سبب بنی ہے۔

ایک ماہرِ نفسیات اور پشاور میں ادابت ہسپتال کے مالک، ڈاکٹر خالد مفتی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "دہشت گردی اور عسکریت پسندی نے پاکستان اور افغانستان کی اکثریتی آبادی کو مسلسل دباؤ میں رکھا ہے، جس سے انہیں دماغی بگاڑ اور صدمے سے متعلق دیگر شدید عارضوں میں دھکیل دیا گیا ہے۔"

مفتی نے کہا کہ انہوں نے ایسی بیماریوں کی غالب اکثریت قبائلی پٹی میں دیکھی ہے جہاں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران طویل عدم استحکام اور جنگ دیکھنے میں آئی ہے۔

قبائلی پٹی کے بہت سے مکین صدمے کے بعد دباؤ کی بیماری (پی ٹی ایس ڈی) کی مختلف شکلوں سے متاثرہ ہیں، جس میں ڈپریشن، رویئے کے مسائل، غصہ اور خودکشی کی کوششیں شامل ہو سکتے ہیں۔

دباؤ کی بیماری میں مبتلا تمام پاکستانیوں کا 70 سے 72 فیصد حصہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی سے متاثرہ ہے، کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "جنگی علاقوں کے 54 فیصد سے زائد باشندوں نے شدید دباؤ، ڈپریشن، پژمردگی اور [پی ٹی ایس ڈی] کی علامات بتائی ہیں۔"

انہوں نے کہا، "عسکریت پسندی نے زیادہ تر آبادی، بشمول بچوں، کو صدمہ پہنچایا ہے، جس سے ان کی دماغی کیفیات شدید متاثر ہوئی ہیں۔"

بچے سب سے زیادہ متاثر

مفتی نے کہا، "بدقسمتی سے، بچے، جو کہ بڑوں کی نسبت زیادہ خطرے کی زد میں اور جلد اثر میں آ جانے والی ذہنی کیفیت کے حامل ہیں، عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے بڑے شکار ہیں۔"

انہوں نے کہا، "تقریباً 18 سال پہلے مختلف دماغی عارضوں میں مبتلا بچوں کی شرح 1 فیصد تھی۔ تاہم، اب یہ شرح 13 فیصد تک بڑھ چکی ہے، جس میں حصہ ڈالنے والے بڑے عوامل عسکریت پسندی اور اس کے مابعد اثرات ہیں۔"

مفتی نے کہا کہ دوسری جانب، جبکہ بچے بڑوں کی نسبت صدمے کے لیے زیادہ حساس ہیں، ان کی لچک انہیں بحالی کے لیے زیادہ موزوں بنا دیتی ہے۔

انہوں نے علاج کے روایتی طریقوں کا رخ کرنے کی بجائے، پی ٹی ایس ڈی کے لیے موزوں طبی علاج کروانے کی اہمیت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا، "ایک متاثرہ فرد صدمے کے بعد اپنے خوف پر قابو پا سکتا ہے، لیکن ایک مریض کے لیے اپنے آپ کو خال دماغی، ڈپریشن، پژمردگی اور جبری عارضوں کے پنجوں سے موزوں [طبی] مشورے اور صلاحکاری کے بغیر آزاد کروانا مشکل ہے جو ایک [پریشان کن] منظر دیکھنے کے بعد آتا ہے۔"

دماغی بیماری کا موزوں علاج

مفتی، جو کہ ہورایزن این جی او بھی چلاتے ہیں، جو دماغی مریضوں کی مدد کرتی ہے، کے مطابق، دماغی امراض کی بڑھتی ہوئی موجودگی کا علاج اور انتظام کرنے کے لیے پُرامن ماحول کا قیام اور پیشہ ور ماہرینِ نفسیات کی بڑی افرادی قوت درکار ہیں۔

ہوریزن نے 50 ایسے طلباء و طالبات کو بعد از صدمہ دباؤ کی مفت صلاحکاری فراہم کی تھی جو دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملے کے دوران وہاں موجود تھے۔

اُس روز دہشت گردوں نے 140 سے زائد بچوں اور اساتذہ کو شہید کر دیا تھا۔

این جی او کی رابطہ کار، معصومہ بی بی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ اے پی ایس میں بچ جانے والے اور ان کے اہلِ خانہ ان 1،000 سے زائد مریضوں میں شامل ہیں -- جن کی اکثریت کسی نہ کسی طرح عسکریت پسندی سے متاثر ہوئی ہے -- جنہوں نے ہورایزن پر مفت صلاحکاری اور علاج کروایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ طبی ماہرین نے پی ٹی ایس ڈی نہ صرف ان مریضوں میں دیکھی ہے جو عسکریت پسندی اور دہشت گردی سے براہِ راست متاثرہ ہیں، بلکہ ان میں بھی دیکھی ہے جو بے گھر، معاشی بے یقینی، تعلیم کی کمی اور کیمپوں میں ناقص حالات میں رہے ہیں۔

دہشت گردی نے زندگیاں بکھیر دی ہیں

جنوبی وزیرستان کی تحصیل سراروغا کے مکین زبیر محسود نے کہا کہ عسکریت پسندی کی لعنت نے پاکستانیوں، بالخصوص قبائلی علاقہ جات کے مکینوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے جنہوں نے اپنے آبائی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو دیکھا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "جب ہم نے دہشت گردی کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑا ۔۔۔ ہمارے خواب بکھر گئے اور وجود تبدیل ہو گیا۔"

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندی کے نتیجے میں، بہت سے قبائلیوں نے بیروزگاری، عدم تحفظ، غیر یقینی کی حالت اور بچوں کے لیے تعلیم کی ناکافی سہولیات کو بھگتا ہے۔

زبیر نے کہا کہ عسکریت پسندی، دہشت گردی اور خون خرابہ دیکھنے اور اپنے آبائی گھروں کو مجبوراً چھوڑنے کے بعد سب سے زیادہ بچے متاثر ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسے مسائل میں معاشرے سے کٹ جانا، خوف اور بدلی ہوئی دماغی کیفیات شامل ہیں، جو دباؤ کا سبب بنتی ہیں اور رویئے میں تبدیلیوں اور دیگر پیچیدگیوں پر منتج ہوتی ہیں۔

مہمند ایجنسی کے علاقے خاوازئی سے تعلق رکھنے والے ایک جوتے پالش کرنے والے شیر رحمان نے کہا کہ عسکریت کے عروج کے دوران ان کے سارے خاندان نے اپنے آبائی علاقے کو چھوڑ دیا تھا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "عسکریت پسندی نے ہمیں ناامیدی، بیروزگاری، عدم تحفظ اور برے مالی حالات کے سوا کچھ نہیں دیا جس نے گزارہ کرنا بہت مشکل بنا دیا۔"

انہوں نے کہا، "عسکریت پسندی نے زیادہ تر بچوں کو غیر یقینی کی حالت اور مستقل خوف کا شکار بنا دیا ہے، جس نے ان کی سوچ اور نظریات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500