جرم و انصاف

مشال خان کے قاتل کو 'توہینِ مذہب' پر قتل کرنے پر سزائے موت

از جاوید خان

7 فروری 2018 کو پاکستان کے مقامی صحافی ضلع ہری پور میں سینٹرل جیل کے باہر ایک نوٹس بورڈ پر چسپاں توہینِ مذہب پر قتل کرنے کے مقدمے میں مجرموں کے خلاف فیصلے کی تصاویر بناتے ہوئے۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

7 فروری 2018 کو پاکستان کے مقامی صحافی ضلع ہری پور میں سینٹرل جیل کے باہر ایک نوٹس بورڈ پر چسپاں توہینِ مذہب پر قتل کرنے کے مقدمے میں مجرموں کے خلاف فیصلے کی تصاویر بناتے ہوئے۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

پشاور -- مشال خان کے قتل کے مقدمے میں بدھ (7 فروری) کو انصاف کر دیا گیا۔

مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے 23 سالہ طالب علم، مشال خان کو 13 اپریل 2017 میں کیمپس میں ایک مشتعل ہجوم کی جانب سے، ان افواہوں پر قتل کر دیا گیا تھا کہ وہ توہینِ مذہب کا مرتکب ہوا ہے۔ اس کی لاش کی بے حرمتی کرنے سے پہلے مشتعل ہجوم نے اسے مارا پیٹا اور گولی مار دی۔

اس کے بعد کیمپس کئی ہفتے بند رہا۔

ہری پور سینٹرل جیل میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے اس کے قاتلوں میں سے ایک - عمران علی، جو کہ مشال کا ہم جماعت تھا، کو پھانسی کی سزا سنائی۔ دیگر پانچ ملزمان کو عمرقید کی سزا سنائی گئی۔

پاکستانی فعالیت پسند 14 اپریل 2017 کو کراچی میں ایک مظاہرے کے دوران، طالب علم مشال خان کے قتل کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے، جسے اس کے ہم جماعتوں نے ہلاک کر دیا تھا۔ [آصف حسین/اے ایف پی]

پاکستانی فعالیت پسند 14 اپریل 2017 کو کراچی میں ایک مظاہرے کے دوران، طالب علم مشال خان کے قتل کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے، جسے اس کے ہم جماعتوں نے ہلاک کر دیا تھا۔ [آصف حسین/اے ایف پی]

گزشتہ برس مئی میں مشال خان کے اہلِ خانہ زائدہ صوابی میں اس کے چہلم کے دوران تلاوتِ قرآن اور اس کی روح کے ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کرتے ہوئے۔ [جاوید خان]

گزشتہ برس مئی میں مشال خان کے اہلِ خانہ زائدہ صوابی میں اس کے چہلم کے دوران تلاوتِ قرآن اور اس کی روح کے ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کرتے ہوئے۔ [جاوید خان]

ڈان کے مطابق، پچیس ملزمان کو چار سال کی سزا سنائی گئی۔ چھبیس دیگر کو بری کر دیا گیا۔

کئی ماہ بعد جاری ہونے والی ایک سرکاری رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا کہ مشال پر غلط الزام لگایا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق، ایک سیکولر طلباء جماعت کے ارکان جنہیں فیسوں میں اضافے اور یونیورسٹی میں مبینہ بدعنوانی کے ناقد ہونے کے طور پر اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خطرہ محسوس ہوا تھا، انہوں نے اس کے قتل کی سازش کی تھی۔

انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج فضلِ سبحان خان نے سینٹرل جیل ہری پور میں فیصلہ سنایا، جہاں کم از کم 250 پولیس اہلکار حفاظت کے لیے تعینات کیے گئے تھے۔ مشال کے والد، محمد اقبال کی جانب سے مردان، جو کہ زیادہ تر ملزمان کا آبائی شہر ہے، میں ایک محفوظ مقدمہ چلنے کی صلاحیت کے بارے میں اظہارِ تشویش کے بعد مقدمہ ہری پور سینٹرل جیل میں چلایا گیا تھا۔

پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے مقدمے کا نوٹس لیا تھا اور ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی تھی۔

پولیس نے موبائل فون کی فوٹیج اور دیگر شواہد کا مشاہدہ کرنے کے بعد مقدمے سے تعلق رکھنے والے 57 افراد کو گرفتار کیا تھا۔ ملزمان میں طلباء، عملے کے ارکان اور دیگر افراد شامل تھے۔ تاہم، چار ملزمان، بشمول تحصیل کونسلر، عارف خان مفرور ہیں۔

مردان میں تناؤ

فیصلہ اس وقت آیا جب حکام کو مردان میں فساد کا خطرہ تھا جو کہ نہیں ہوا۔ عدالت کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے دوران پولیس نے یونیورسٹی کیمپس کے اندر اور اردگرد سخت حفاظتی اقدامات کیے تھے۔

صوابی کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اظہار شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ انہوں نے "مشال خان کی رہائش گاہ اور قبر پر" بھی سخت حفاظتی اقدامات کیے تھے۔

مشال خان کے قتل کے بعد سے اس کے اہلِ خانہ کو پولیس کا تحفظ حاصل رہا ہے۔ دریں اثناء، مشال کے اہلِ خانہ خیبرپختونخوا (کے پی) حکام کی جانب سے ایک یونیورسٹی کا نام مشال کے نام پر رکھنے کے وعدے کی تکمیل کے منتظر ہیں۔

مشال کے بھائی، ایمل خان نے صحافیوں کو بتایا کہ حکام نے "صوابی یونیورسٹی کو مشال خان کے نام پر رکھنے کا عزم" کیا ہے۔ انہیں اس وعدے کی پاسداری کرنی چاہیئے۔"

انہوں نے کہا کہ اگرچہ خاندان کو پولیس کا تحفظ حاصل ہے، "ہم غیر مرئی خطرات کے سبب اپنی بہنوں کو یونیورسٹی یا کالج نہیں بھیج سکتے،" جن کا سامنا انہیں اسکول جانے پر ہو سکتا ہے۔

ایمل نے وکلاء سے مشورہ کرنے تک کوئی بھی بیان دینے سے اجتناب کیا ہے۔ اس نے مزید کہا کہ اس کے والد ایک لیکچر کے سلسلے میں برطانیہ گئے ہوئے ہیں۔

انہوں نے پولیس سے باقی چار ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔

انصاف ہو گیا

کے پی میں حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین، عمران خان نے صوبائی پولیس کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

فیصلے کے بعد اپنے بیان میں انہوں نے کہا، "ایک قاتل ہجوم کو قانون کے کٹہرے میں لاتے ہوئے کے پی پولیس نے ایک بار پھر پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ کے پی پولیس نے مشال کے قتل کی تحقیقات کرتے ہوئے دکھایا ہے کہ کیسے "مستعدی سے کام کیا جاتا ہے اور ٹھوس نتائج دیئے جاتے ہیں۔"

بہت سے صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے بھی قتل کے مقدمے میں انصاف کرنے کے لیے کے پی حکام کو سراہا ہے۔

بری ہونے والوں پر تشویش

دریں اثناء، جیو نیوز نے خبر دی کہ کے پی حکومت مقدمے میں بری ہونے والے 26 افراد کے خلاف اپیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔‎

کچھ مبصرین نے کئی ویڈیو ثبوتوں کی مدد سے مقدمے میں ملزم ٹھہرائے جانے والے افراد کو بری کرنے پر سوال اٹھایا ہے۔

نیو نیوز کی ایک سینیئر نیوز اینکر، مریم اسماعیل نے ٹویٹ کیا، "کچھ ملزمان کو بری کرنے کے انسدادِ دہشت گردی عدالت کے فیصلے کے خلاف کے پی حکومت کا اپیل کرنے کا فیصلہ قابلِ تحسین ہے۔ خدا کرے کہ مشال خان کے مقدمے میں انصاف ہو۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

مشال ایک گستاخ تھا اور اور اس کی دینی اہانت ثابت ہوگئی ہے۔ مردان میں ہزاروں لوگوں نے احتجاج کیا اور قرار دیا کہ مشال قتل میں مجرم قرار دیے جانے والے نوجوان معصوم ہیں اور مطالبہ کیا کہ انھیں عزت و احترام کے ساتھ رہا کیا جائے۔ ساری لادین دنیا اور نام نہاد لبرلز اور لادین افراد گستاخ مشال کے قتل کے خلاف اکٹھے ہیں اور وہ مشال کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم مشال سوشل میڈیا پر دینی اہانت میں ملوث تھا اور اس نے اپنے دوستوں کے سامنے دینی اہانت کا ایک عمل کیا۔ ثبوت موجود ہیں۔

جواب