کاروبار

سوات وادی میں امن کا مطلب اسلام پور کے شال سازوں کے لیے اچھا کاروبار ہے

دانش یوسف زئی

اسلام پور جو یہاں 10 جنوری کو دکھایا گیا ہے، ہاتھ سے بُنی جانے والی شالوں کے دستکاروں کی وجہ سے مشہور ہے۔ ]دانش یوسف زئی[

اسلام پور جو یہاں 10 جنوری کو دکھایا گیا ہے، ہاتھ سے بُنی جانے والی شالوں کے دستکاروں کی وجہ سے مشہور ہے۔ ]دانش یوسف زئی[

دکاندار عبداللہ خان (بائیں) ایک گاہک کو، اسلام پور جو کہ سلام پور کے نام سے بھی مشہور ہے، کے مقامی بازار میں، مردوں اور عورتوں کے لیے دستیاب شالوں کی مختلف اقسام دکھا رہا ہے۔ بہت سے سیاح شالوں کو خریدنے کے لیے اس بازار میں آتے ہیں۔ کچھ دکاندار گاہکوں کو شالیں گھروں پر بھی بھیجتے ہیں۔ ]دانش یوسف زئی[

دکاندار عبداللہ خان (بائیں) ایک گاہک کو، اسلام پور جو کہ سلام پور کے نام سے بھی مشہور ہے، کے مقامی بازار میں، مردوں اور عورتوں کے لیے دستیاب شالوں کی مختلف اقسام دکھا رہا ہے۔ بہت سے سیاح شالوں کو خریدنے کے لیے اس بازار میں آتے ہیں۔ کچھ دکاندار گاہکوں کو شالیں گھروں پر بھی بھیجتے ہیں۔ ]دانش یوسف زئی[

تاریخ دان، شالوں کے کاروبار کو سوات وادی میں قدیم ترین کاروباروں میں سے ایک خیال کرتے ہیں اور سلام پور کے 80 فیصد سے زیادہ مقامی افراد براہ راست یا بالواسطہ اس سے منسلک ہیں۔ شالوں اور کپڑوں کو روایتی مشینوں پر بُنا جاتا ہے جسے مقامی افراد کھڈی کہتے ہیں۔ ]دانش یوسف زئی[

تاریخ دان، شالوں کے کاروبار کو سوات وادی میں قدیم ترین کاروباروں میں سے ایک خیال کرتے ہیں اور سلام پور کے 80 فیصد سے زیادہ مقامی افراد براہ راست یا بالواسطہ اس سے منسلک ہیں۔ شالوں اور کپڑوں کو روایتی مشینوں پر بُنا جاتا ہے جسے مقامی افراد کھڈی کہتے ہیں۔ ]دانش یوسف زئی[

مقامی مرد و خواتین کاری گر، شالوں پر تخلیقی نمونے بناتے ہیں۔ بعض اوقات وہ ایک شال پر کئی ہفتے بھی خرچ کرتے ہیں۔ ]دانش یوسف زئی[

مقامی مرد و خواتین کاری گر، شالوں پر تخلیقی نمونے بناتے ہیں۔ بعض اوقات وہ ایک شال پر کئی ہفتے بھی خرچ کرتے ہیں۔ ]دانش یوسف زئی[

اکیس سالہ حفیظ الرحمان شالیں بننے میں اپنے والدین کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے۔ وہ اعلی معیار کی شالیں بنانے میں ماہر ہو گیا ہے۔ ]دانش یوسف زئی[

اکیس سالہ حفیظ الرحمان شالیں بننے میں اپنے والدین کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے۔ وہ اعلی معیار کی شالیں بنانے میں ماہر ہو گیا ہے۔ ]دانش یوسف زئی[

حفیظ الرحمان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی 18 مہینے کی تربیت کے بعد، شال سازی کی بنیادی کاریگری سیکھ سکتا ہے۔ سوات میں بہت سی این جی اوز نے مقامی دستکاروں کی مہارت کو بڑھانے کے لیے تربیتی ورکشاپیں قائم کی ہیں۔ ]دانش یوسف زئی[

حفیظ الرحمان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی 18 مہینے کی تربیت کے بعد، شال سازی کی بنیادی کاریگری سیکھ سکتا ہے۔ سوات میں بہت سی این جی اوز نے مقامی دستکاروں کی مہارت کو بڑھانے کے لیے تربیتی ورکشاپیں قائم کی ہیں۔ ]دانش یوسف زئی[

اسلام پور میں شالیں بنانے کے لیے سب سے عام طور پر استعمال ہونے والا خام مال مقامی اون، آسٹریلیا کی اون، پاکستانی اون، چین کی اون، مصنوعی ریشم، نائلان اور سوت ہے۔ ]دانش یوسف زئی[

اسلام پور میں شالیں بنانے کے لیے سب سے عام طور پر استعمال ہونے والا خام مال مقامی اون، آسٹریلیا کی اون، پاکستانی اون، چین کی اون، مصنوعی ریشم، نائلان اور سوت ہے۔ ]دانش یوسف زئی[

ایک سیاح، 10 جنوری کو اسلام پور کی ایک دکان میں ہاتھ سے بُنی شال میں گہری دلچسپی دکھا رہا ہے۔ کچھ خواتین اپنی شالوں پر اپنی مرضی سے کڑھائی بھی کرواتی ہیں۔ ]دانش یوسف زئی[

ایک سیاح، 10 جنوری کو اسلام پور کی ایک دکان میں ہاتھ سے بُنی شال میں گہری دلچسپی دکھا رہا ہے۔ کچھ خواتین اپنی شالوں پر اپنی مرضی سے کڑھائی بھی کرواتی ہیں۔ ]دانش یوسف زئی[

حاجی ہاشم خان، جن کی عمر 64 سال ہے اور جو شالوں کی صنعت سے 50 سے زیادہ سال سے جُڑے ہوئے ایک مقامی دکاندار ہیں، کا کہنا ہے کہ سوات وادی میں امن کی بحالی کے بعد سے کاروبار پھل پھول رہا ہے۔ ]دانش یوسف زئی[

حاجی ہاشم خان، جن کی عمر 64 سال ہے اور جو شالوں کی صنعت سے 50 سے زیادہ سال سے جُڑے ہوئے ایک مقامی دکاندار ہیں، کا کہنا ہے کہ سوات وادی میں امن کی بحالی کے بعد سے کاروبار پھل پھول رہا ہے۔ ]دانش یوسف زئی[

خواتین کے لیے شالیں بنانے کے علاوہ، اسلام پور کے کاریگر مردوں کے لیے چادریں بھی بناتے ہیں۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ بہت سے سیاح مردوں کے لیے ان خصوصی چادروں کو پسند کرتے ہیں۔ ]دانش یوسف زئی[

خواتین کے لیے شالیں بنانے کے علاوہ، اسلام پور کے کاریگر مردوں کے لیے چادریں بھی بناتے ہیں۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ بہت سے سیاح مردوں کے لیے ان خصوصی چادروں کو پسند کرتے ہیں۔ ]دانش یوسف زئی[

سوات -- اسلام پور میں ہاتھ سے بنی شالوں کا مقامی کاروبار پھل پھول رہا ہے -- اور سوات وادی کے اس چھوٹے سے گاوں کے تقریبا ہر شخص کو اس میں ملازمت ملی ہوئی ہے۔

خواتین اور مردوں کے لیے بھیڑ کی کھال کی گرم شالیں، نہ صرف پاکستان بھر اور علاقے میں مشہور ہیں بلکہ وہ بین الاقوامی منڈیوں میں بھی بھیجی جاتی ہیں۔

اسلام پور جو کہ سلام پور کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کے شہری، کم از کم گزشتہ صدی سے شالیں بن رہے ہیں۔ تاہم، یہ کاروبارسوات وادی میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کی طویل لہر جو کہ 2007 میں اپنی انتہا پر تھی، کے باعث خاتمے کے قریب تھا۔

شالوں کے کاروبار کو علاقے میں کامیاب عسکری آپریشن-- آپریشن راہِ راستجو کہ 2009 میں ہوا اور اس کے بعدآپریشن ضربِ عضبجو کہ 2014 میں ہوا اور اس وقت جاریآپریشن ردالفساد کے بعد بحال کیا گیا جنہوں نے سوات کی سر سبز وادی میں امن و امان کو بہتر بنانے اور سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کو ممکن بنایا۔

حفیظ الرحمان، جنہیں یہاں 10 جنوری کو دکھایا گیا ہے، اپنے والدین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسلام پور، سوات وادی میں شالیں بُنتا ہے۔ ]دانش یوسف زئی[

حفیظ الرحمان، جنہیں یہاں 10 جنوری کو دکھایا گیا ہے، اپنے والدین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسلام پور، سوات وادی میں شالیں بُنتا ہے۔ ]دانش یوسف زئی[

جیو نیوز کے مطابق، اب جب کہ سیکورٹی واپس آ گئی ہے، جولاہے کام پر واپس آ گئے ہیں اور گاوں میں ملازمت کی شرح 100 فیصد ہو گئی ہے۔

مقامی دستکار، 21 سالہ حفیظ الرحمان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ اسلام پور کی آبادی 30,000 سے زیادہ ہے اور ان میں سے 80 فیصد شالوں کی تیاری سے وابستہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کاٹیج انڈسٹری 3,000 کھڈی کے یونٹوں پر مشتمل ہے جن کی ملکیت کئی افراد کے پاس ہے۔

انہوں نے کہا کہ "اس کاروبار کو علاقے میں بڑھانے میں خواتین کا کردار نہایت اہم رہا ہے اور وہ اونی شالیں اور چادریں بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں"۔

اسلام پور سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن اختر علی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "سلام پور میں ہر شخص اپنے فن میں ماہر ہے -- وہ شالیں، اونی کپڑا اور سکارف بنتے ہیں"۔

امن کے باجود، چیلنج ابھی بھی موجود ہیں۔ اسلام پور سے تعلق رکھنے والے دستکاروں کو بازار تک براہ راست رسائی میسر نہیں ہے اور وہ درمیانی آدمی کے رحم و کرم پر ہیں۔

علی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "درمیانی شخص ان کی مصنوعات کو بہت کم قیمت پر خرید لیتا ہے اور پھر انہیں عالمی اور بین الاقوامی منڈیوں میں بھاری قیمت پر فروخت کر دیتا ہے"۔

امن کی واپسی کو خوش آمدید

عبداللہ خان اسلام پور میں شالوں کی 60 دکانوں میں سے ایک کا مالک ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ ایک رنگین اونی شال پر 400 روپے سے 30,000 روپے (4 ڈالر سے 271 ڈالر) کی لاگت آتی ہے اور اس کا انحصار اون کے معیار اور اس پر کی جانے والی کڑھائی پر ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندی کے طویل سالوں نے بہت سے بننے والوں کو، گزشتہ ایک صدی سے اس کاروبار کے ساتھ تعلق ہونے کے باجود، اپنا پیشہ ترک کرنے پر مجبور کر دیا۔

خان نے کہا کہ وہ اب خوش ہیں کہ وہ اپنے خاندانی پیشے کو سوات میں امن کی بحالی کے باعث جاری رکھ سکتے ہیں۔

انہوں نے "خوبصورت وادی سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے" پر پاکستانی فوج کا شکریہ ادا کیا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

مجھے یہ مضمون پسند ہے

جواب

ایک شال بنانے میں کتنے کلو اون استعمال ہوتی ہے؟

جواب