سوات -- اسلام پور میں ہاتھ سے بنی شالوں کا مقامی کاروبار پھل پھول رہا ہے -- اور سوات وادی کے اس چھوٹے سے گاوں کے تقریبا ہر شخص کو اس میں ملازمت ملی ہوئی ہے۔
خواتین اور مردوں کے لیے بھیڑ کی کھال کی گرم شالیں، نہ صرف پاکستان بھر اور علاقے میں مشہور ہیں بلکہ وہ بین الاقوامی منڈیوں میں بھی بھیجی جاتی ہیں۔
اسلام پور جو کہ سلام پور کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کے شہری، کم از کم گزشتہ صدی سے شالیں بن رہے ہیں۔ تاہم، یہ کاروبارسوات وادی میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کی طویل لہر جو کہ 2007 میں اپنی انتہا پر تھی، کے باعث خاتمے کے قریب تھا۔
شالوں کے کاروبار کو علاقے میں کامیاب عسکری آپریشن-- آپریشن راہِ راستجو کہ 2009 میں ہوا اور اس کے بعدآپریشن ضربِ عضبجو کہ 2014 میں ہوا اور اس وقت جاریآپریشن ردالفساد کے بعد بحال کیا گیا جنہوں نے سوات کی سر سبز وادی میں امن و امان کو بہتر بنانے اور سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کو ممکن بنایا۔
جیو نیوز کے مطابق، اب جب کہ سیکورٹی واپس آ گئی ہے، جولاہے کام پر واپس آ گئے ہیں اور گاوں میں ملازمت کی شرح 100 فیصد ہو گئی ہے۔
مقامی دستکار، 21 سالہ حفیظ الرحمان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ اسلام پور کی آبادی 30,000 سے زیادہ ہے اور ان میں سے 80 فیصد شالوں کی تیاری سے وابستہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کاٹیج انڈسٹری 3,000 کھڈی کے یونٹوں پر مشتمل ہے جن کی ملکیت کئی افراد کے پاس ہے۔
انہوں نے کہا کہ "اس کاروبار کو علاقے میں بڑھانے میں خواتین کا کردار نہایت اہم رہا ہے اور وہ اونی شالیں اور چادریں بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں"۔
اسلام پور سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن اختر علی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "سلام پور میں ہر شخص اپنے فن میں ماہر ہے -- وہ شالیں، اونی کپڑا اور سکارف بنتے ہیں"۔
امن کے باجود، چیلنج ابھی بھی موجود ہیں۔ اسلام پور سے تعلق رکھنے والے دستکاروں کو بازار تک براہ راست رسائی میسر نہیں ہے اور وہ درمیانی آدمی کے رحم و کرم پر ہیں۔
علی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "درمیانی شخص ان کی مصنوعات کو بہت کم قیمت پر خرید لیتا ہے اور پھر انہیں عالمی اور بین الاقوامی منڈیوں میں بھاری قیمت پر فروخت کر دیتا ہے"۔
امن کی واپسی کو خوش آمدید
عبداللہ خان اسلام پور میں شالوں کی 60 دکانوں میں سے ایک کا مالک ہے۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ ایک رنگین اونی شال پر 400 روپے سے 30,000 روپے (4 ڈالر سے 271 ڈالر) کی لاگت آتی ہے اور اس کا انحصار اون کے معیار اور اس پر کی جانے والی کڑھائی پر ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندی کے طویل سالوں نے بہت سے بننے والوں کو، گزشتہ ایک صدی سے اس کاروبار کے ساتھ تعلق ہونے کے باجود، اپنا پیشہ ترک کرنے پر مجبور کر دیا۔
خان نے کہا کہ وہ اب خوش ہیں کہ وہ اپنے خاندانی پیشے کو سوات میں امن کی بحالی کے باعث جاری رکھ سکتے ہیں۔
انہوں نے "خوبصورت وادی سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے" پر پاکستانی فوج کا شکریہ ادا کیا۔
مجھے یہ مضمون پسند ہے
جوابتبصرے 2
ایک شال بنانے میں کتنے کلو اون استعمال ہوتی ہے؟
جوابتبصرے 2