مذہب

1،800 سے زائد پاکستانی علماء نے خودکش بم دھماکوں کو حرام قرار دے دیا

از ضیاء الرحمان

11 جنوری کو کراچی کے مضافاتی علاقے شاہ فیصل کالونی کے مکین ایک مسجد میں خطبہ سنتے ہوئے۔ 15 جنوری کو پاکستان کے 1،800 سے زائد ممتاز علمائے دین نے متفقہ طور پر شریعت کے نفاذ کے لیے خودکش حملوں، ہتھیار اٹھانے اور طاقت کے استعمال کے خلاف ایک فتویٰ جاری کیا۔ [ضیاء الرحمان]

11 جنوری کو کراچی کے مضافاتی علاقے شاہ فیصل کالونی کے مکین ایک مسجد میں خطبہ سنتے ہوئے۔ 15 جنوری کو پاکستان کے 1،800 سے زائد ممتاز علمائے دین نے متفقہ طور پر شریعت کے نفاذ کے لیے خودکش حملوں، ہتھیار اٹھانے اور طاقت کے استعمال کے خلاف ایک فتویٰ جاری کیا۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی -- طالبان اور ان سے منسلک گروہوں کے خلاف حکومتِ پاکستان کی سخت کارروائی کی حمایت میں اضافہ کرتے ہوئے، سوموار (15 جنوری) کو پاکستان کے 1،800 سے زائد ممتاز علمائے دین نے ایک فتویٰ جاری کیا ہے جس میں شریعت کے نام پر خودکش حملوں، ہتھیار اٹھانے اور دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔

پاکستان فارورڈ کی جانب سے دیکھے جانے والے فتوے پر مختلف فرقوں اور مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے 1،829 علمائے دین اور اساتذہ کی جانب سے دستخط کیے گئے تھے۔

انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ریاست کے زیرِ انتظام اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے فتویٰ مرتب کیا ہے جس کا عنوان "پیغامِ پاکستان" ہے اور اسے منگل (16 جنوری) کو اسلام آباد میں ایوانِ صدر میں ایک تقریب کے دوران عوام کے لیے جاری کیا گیا۔

بہت سے ممتاز علمائے دین نے فتوے پر دستخط کیے، جن میں تمام فرقوں اور دینی گروہوں کے دینی مدارس کے پانچوں بورڈز کے سربراہ شامل ہیں۔

دستخط کرنے والی قابلِ ذکر شخصیات میں شامل ہیں: محمد رفیع عثمانی، مفتی منیب الرحمان، محمد تقی عثمانی، مولانا عبدالمالک، پروفیسر ساجد میر، علامہ محمد احمد لدھیانوی، صاحبزادہ محمد احمد رضا، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری، مولانا الیاس قادری، مولانا محمد حنیف جالندھری اور سید عدنان کاکاخیل۔

دہشت گردی، 'جہاد' کے خلاف فتویٰ

فتویٰ دہشت گردی اور انتہاپسندی کی مذمت کرتا ہے اور خودکش حملہ آوروں اور انہیں جو ان کی کفالت اور تربیت کرتے ہیں غدار قرار دیتا ہے۔

یہ یہ اعلان بھی کرتا ہے کہ "جہاد" کے نام پر جنگ چھیڑنے اور کشت و خون کرنے کا آغاز صرف ریاست کی جانب سے کیا جا سکتا ہے، اور امن دشمن عناصر کے خلاف حکومت کی جاری کارروائیوں کی توثیق کرتا ہے۔

علمائے دین اور تجزیہ کار پُرامید ہیں کہ فتویٰ ان دہشت گرد گروہوں کی ساکھ ختم کرنے میں مدد کرے گا جو ان مذموم مقاصد کے اور غیر اسلامی ارادوں کے لیے اسلام کا نام استعمال کرتے ہیں۔

فتویٰ پر دستخط کرنے والوں میں سے ایک، مولانا رفیع رحمان نے کہا کہ فتویٰ قرآن کی تعلیمات اور اسلام کی درست تشریح کے ذریعے عسکریت پسندی کے متعلق مغالطوں کو ختم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔

رفیع رحمان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "اسلام امن اور مفاہمت کا دین ہے، لیکن عسکریت پسند، ناصرف پاکستان میں، بلکہ افغانسان اور دیگر خلیجی ممالک میں بھی، ایک مکمل متضاد تصویر پیش کرتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ یہ فتویٰ نوجوانوں کو عسکریت پسندی میں شامل ہونے سے روکنے کی تعلیم دینے میں مدد کرے گا۔

اسلام آباد کے مقامی ایک تجزیہ کار، سبوخ سید، جو پاکستان میں دینی گروہوں پر تحقیق کرتے ہیں، نے کہا کہ فتوے کا پاکستان میں امن و امان کی صورتحال پر مثبت اثر پڑے گا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "مختلف فرقوں اور مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے دین کو اکٹھا کرنا اور انہیں دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دینے پر متفق کرنا دراصل ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔"

ماضی کے فتاویٰ کو بنیاد بنانا

پاکستانی علمائے دین نے ماضی میں بھی طالبان، دہشت گردی اور فسادی سرگرمیوں کے خلاف فتاویٰ جاری کیے ہیں۔

31 علمائے دین کے ایک گروہ نے 27 مئی 2017 کو ایک فتویٰ دیا تھا، جس میں خودکش حملوں، ریاست کے خلاف بغاوت اور شریعت کے نام پر کسی بھی قسم کی دہشت گردی کی کارروائی کو اسلام میں حرام قرار دیا تھا۔.

سُنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) نے جون 2013 میں طالبان جنگجوؤں، دہشت گردی اور خودکش بم دھماکوں کے خلاف ایک فتویٰ دیا تھا۔ فتوے میں کہا گیا، "اسلام میں خودکش حملوں کی ممانعت ہے، اور جو بے گناہوں کو مارنے میں ملوث ہیں وہ جہنمی ہیں۔"

اسی طرح اکتوبر 2012 میں، ایس آئی سے سے منسلک کم از کم 50 علمائے دین نے ایک فتوے میں طالبان اور دہشت گرد حملوں کو "غیر اسلامی" قرار دیا تھا۔

طالبان کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور وہ جاہلِ مطلق ہیں کا اضافہ کرتے ہوئے، فتوے میں کہا گیا، "اسلام کی طالبان کی جانب سے کی گئی تشریح مصدقہ شرعی تشریحوں سے انحراف کرتی ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ہم ان سے متفق ہیں۔

جواب

بہت اچھی خبر

جواب