دہشتگردی

پاکستانیوں کی جانب سے دہشت گردی کے ساتھ روابط رکھنے والے خیراتی اداروں کو عطیات دینے پر پابندی کا خیرمقدم

از اشفاق یوسفزئی

پاکستانی پولیس اہلکار گزشتہ 22 نومبر کو لاہور میں جماعت الدعوۃ (جے یو ڈی) کے امیر حافظ سعید (درمیان میں) کو عدالت میں پیش کرتے ہوئے۔ [عارف علی/اے ایف پی]

پاکستانی پولیس اہلکار گزشتہ 22 نومبر کو لاہور میں جماعت الدعوۃ (جے یو ڈی) کے امیر حافظ سعید (درمیان میں) کو عدالت میں پیش کرتے ہوئے۔ [عارف علی/اے ایف پی]

اسلام آباد -- پاکستانی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے تجویز کردہ اداروں، جس کے بارے میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اشارہ فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن (ایف آئی ایف) کی طرف ہے، اور افراد کو نقد عطیات دینے پر پابندی لگانے کے حکومتی اقدام کا خیرمقدم کر رہے ہیں۔

سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے پابندی کا نوٹیفیکیشن 1 جنوری کو جاری کیا تھا۔ اس اقدام کے جزو کے طور پر، سٹیٹ بینک آف پاکستان سے بھی توقع تھی کہ وہ ایک نوٹیفیکیشن جاری کرے جس میں پاکستانی بینکوں کو حکم دیا جائے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی فہرست میں نامزد کردہ تمام اداروں اور افراد کے کھاتوں کو سربمہر کر دے۔

وزارتِ داخلہ نے بھی 72 کالعدم تنظیموں کی ایک فہرست جاری کی تھی، جس میں حافظ سعید کی جماعت الدعوۃ (جے یو ڈی) اور اس کی فلاحی تنظیم ایف آئی ایف شامل ہیں، دونوں مبینہ طور پر کالعدم دہشت گرد گروہ لشکرِ طیبہ (ایل ای ٹی) سے منسلک ہیں۔

وزارت کے مطابق، کسی بھی تنظیم کو، امداد دینا یا اس کی حمایت کرنا، مالی یا بصورتِ دیگر، ایک جرم تصور کیا جائے گا۔ حکومت نے مجوزہ تنظیموں اور افراد کی جانب سے چندہ جمع کرنے، نیز ان کی سماجی، سیاسی، فلاحی اور مذہبی سرگرمیوں پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔

جماعت الدعوۃ (جے یو ڈی)، ایک خیراتی ادارہ جسے وسیع طور پر کالعدم دہشت گرد گروہ لشکرِ طیبہ (ایل ای ٹی) کے چہرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، کے ارکان 5 فروری 2010 میں لاہور میں ایک ریلی کے دوران ہتھیار لہراتے ہوئے۔ [عارف علی / اے ایف پی]

جماعت الدعوۃ (جے یو ڈی)، ایک خیراتی ادارہ جسے وسیع طور پر کالعدم دہشت گرد گروہ لشکرِ طیبہ (ایل ای ٹی) کے چہرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، کے ارکان 5 فروری 2010 میں لاہور میں ایک ریلی کے دوران ہتھیار لہراتے ہوئے۔ [عارف علی / اے ایف پی]

ایسے کسی بھی ادارے کے لیے 10 ملین روپے (90،300 ڈالر) جرمانہ مقرر کیا گیا ہے جو عطیات دینے پر پابندی کے حکم کی تعمیل نہیں کرتا۔

آنکھوں کے سامنے چھپنا

امریکی وزارتِ خارجہ نے نومبر 2010 میں پہلے فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن پر جماعت الدعوۃ کا ایک مختلف نام ہونے کا الزام لگاتے ہوئے لشکرِ طیبہ کا ایک دوسرا نام قرار دیا تھا، جو کہ مبینہ طور پر لشکرِ طیبہ کا ہی دوسرا چہرہ ہے۔

ڈان نے خبر دی کہ مختلف محکموں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی حکام کا وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرِ صدارت 1 جنوری کو ہونے والا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کے دہشت گرد ہونے کے عہدے کو پورے ملک میں نافذ کرنے کے فیصلے پر پہنچا۔

تاہم، وزارتِ داخلہ نے اسی روز ایک بیان جاری کیا جس میں یہ کہا گیا کہ یہ کارروائی دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کے اطلاق کا ایک حصہ ہے اور یہ کہ کسی ایک گروہ یا ادارے کو ہدف نہیں بنایا جا رہا۔

2 جنوری کو جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید نے بی بی سی کو بتایا کہ تنظیم کو ابھی تک حکومت کی جانب سے ہدایات نہیں ملیں۔

انہوں نے کہا، "ہمیں عدالتوں کی جانب سے صاف دامن قرار دیا گیا ہے اور جب ہمیں نوٹیفیکیشن ملے گا تو ہم دوبارہ قانونی مدد حاصل کریں گے۔ حکومت عالمی طاقتوں کو راضی کرنا چاہتی ہے۔"

حافظ سعید نے کہا کہ کوئی ثبوت نہیں تھا کہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کا دہشت گردی کے ساتھ تعلق ہے، انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کے پاس بطور ایک فلاحی تنظیم رجسٹرڈ تھی۔ انہوں نے کہا کہ فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن 31 شہروں میں 308 ایمبولنسیں، 250 طبی مراکز اور 12 ہسپتال چلاتی ہے۔

پاکستان کی ساکھ کو صاف کرنا

نئی پابندی کے بعد سے حکام پہلے ہی کارروائی کر رہے ہیں۔ اسلام آباد میں پولیس نے فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کے بینر ہٹا دیئے ہیں اور گروپ کے خلاف تین کیس درج کیے ہیں۔

وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے سابق سیکریٹری دفاع، پشاور کے بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے تصدیق کی کہ حکومتی کارروائی نے خصوصی طور پر فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کو نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے اس اقدام کو ایک "مثبت پیش رفت" قرار دیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "عسکریت پسند گروہوں نے نہ صرف ملک کی ترقی کی راہ روکی ہے اور بے گناہ شہریوں کو قتل کیا ہے، بلکہ قوم کے لیے باعثِ شرمندگی بھی بنے ہیں [جس کے نتیجے میں پاکستان کو] دیگر ممالک میں شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔"

حکومت کو فوری طور پر کالعدم تنظیموں کے چندے کے ڈبے ہٹا دینے چاہیئیں اور ان کے دفاتر بند کرنے چاہیئیں، کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج لگ بھگ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف لڑ رہی ہے، لیکن یہ حکومت پر ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف پالیسی فیصلے کرے۔

عسکریت پسندوں کی فنڈنگ روکنا

عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سیکریٹری میاں افتخار حسین نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہم اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں کیونکہ عسکریت پسند تنظیمیں ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا ہتھیار بنی رہی ہیں۔ ان کے فنڈنگ کے ذریعے پر پابندی لگانے کے فیصلے کا آخرکار نتیجہ ایسے گروہوں کے غیر مؤثر ہونے کی صورت نکلے گا۔"

ملک میں سے عسکریت پسندی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر کارروائی کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "اچھے" یا "برے" عسکریت پسندوں میں کوئی امتیاز نہیں ہونی چاہیئے۔

حسین نے کہا کہ عسکری تنظیمیں چندے جمع کرتی ہیں، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ وہ چندے امدادی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔ اس کی بجائے، وہ فنڈز دہشت گردی کی کارروائیوں کی کفالت کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "پوری قوم نیز سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے اپنا وزن حکومتی پلڑے میں ڈال دیا ہے کہ وہ دہشت گردی کا خاتمہ کرے اور امن قائم کرے۔"

عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں پولیٹیکل سائنس کے ایک لیکچرار، عبیداللہ خان نے بھی اس اقدام کا خیرمقدم کیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "یہ وقت کا تقاضہ ہے کہ دہشت گردی کی ملزم تمام تنظیموں کی فنڈنگ کو روکا جائے۔ پاکستان کو بین الاقوامی طور پر تنہائی کا سامنا ہے، اور قوم چند لوگوں کے گناہوں کی قیمت ادا کر رہی ہے۔"

خان نے کہا، "دہشت گردی کے خلاف جنگ میں، ہم نے سیکیورٹی فورسز کے ارکان سمیت، 70،000 افراد کھوئے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ 10 ٹریلین روپے (90 بلین ڈالر) کے معاشی نقصانات کے علاوہ، "[ہم] مزید کسی نقصان کے متحمل نہیں ہو سکتے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 6

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اچھا

جواب

یہ مکالہ پاکستانیوں کی نمائندگی نہیں کرتا۔ میں اسے ناپسند کرتا ہوں

جواب

پاکستان کے عوام نے جو عہد کیا، آپ نے اس کی نمائندگی نہیں کی۔ آپ کو یہ حقیقت ملحوظِ خاطر رکھنی چاہیے کہ ایم ایم ایل وہ جماعت ہے جو لاہور میں این اے 120 کے انتخاب میں تیسری پوزیشن پر رہی ہے، جو کہ بذاتِ خود اس مکالہ کی تردید ہے۔

جواب

حافظ سعید سچا انسان۔ ۔ سماجی کارکن۔ ۔۔۔سچا محبِ وطن۔ ۔۔۔

جواب

میرا خیال ہے کہ یہ مکالہ کسی ایسے شخص نے تحریر کیا ہے جسے اس امر سے متعلق کوئی علم یا مکمل معلومات نہیں۔۔۔ بالکل غلط نقطہٴ نظر ہے۔۔۔

جواب

نہیں۔۔۔ بلکہ اس لیے کیوں کہ جے یو ڈی پاکستان موافق تنظیم ہے۔

جواب