حقوقِ نسواں

سوات کی نئی تنظیم کا ہدف خواتین کے کاروبار کا فروغ

جاوید خان

گزشتہ دسمبر کی 9 تاریخ کو سوات کے خواتین ایوانِ صنعت و تجارت کی صدر مسرّت احمد زیب ضلع سوات میں ایک سمینار سے خطاب کر رہی ہیں۔ [بشکریہ مسرّت احمدزیب]

گزشتہ دسمبر کی 9 تاریخ کو سوات کے خواتین ایوانِ صنعت و تجارت کی صدر مسرّت احمد زیب ضلع سوات میں ایک سمینار سے خطاب کر رہی ہیں۔ [بشکریہ مسرّت احمدزیب]

پشاور – خواتین کاروباریوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے خیبر پختونخوا (کے پی) کے علاقہ سوات میں خواتین کا پہلا ایوانِ صنعت و تجارت، جس کی کبھی تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے مخالفت کی تھی، تشکیل دے دیا گیا ہے۔

ٹی ٹی پی 2007 سے 2009 تک، جب پاک فوج نے ایک جارحانہ کاروائی میں اسے نکال باہر کیا، اس علاقہ پر غالب رہی۔

اس ضلع سے قومی اسمبلی کی ایک رکن مسرّت احمدزیب نے نہ صرف سوات بلکہ تمام تر مالاکنڈ ڈویژن سے خواتین کاروباریوں کو فروغ دینے کے لیے دسمبر میں اس ایوان کی بنا رکھی۔

احمدزیب نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہم نے ابھی گزشتہ برس کے اواخر ہی میں آغاز کیا، اور خواتین کاروباریوں کی جانب سے ردِّ عمل نہایت حوصلہ افزا ہے۔" انہوں نے کہا کہ پہلے ہی اس ادراے کے 100 ارکان ہیں اور متعدد مزید شمولیت کے لیے بے تاب ہیں۔

احمد زیب نے کہا کہ نو تشکیل شدہ اس تنظیم کی قیادت "ایک صدر، سینیئر نائب صدر، نائب صدر، جنرل سیکریٹری اور بورڈ کے دس ارکان پر مشتمل ایک کابینہ" کرتی ہے۔

خواتین تعلیم اور مواقع کی متلاشی

سوات کی خواتین ٹی ٹی پی والے ماضی کو بھلا دینا چاہتی ہیں۔ 2007 سے 2009 کے دوران سوات میں عسکریت پسندوں نے سینکڑوں سکول تباہ کیے اور گھر سے باہر جانے سے روکنے جیسے احکامات کے ذریعے خواتین پر جبر کیا۔

خواتین کی تعلیم کی وکالت کرنے اور 2014 میں نوبل امن انعام جیتنے والی ایک مقامی فعالیت پسند ملالہ یوسفزئی اکتوبر 2012 میں سوات میں ٹی ٹی پی کی جانب سے اقدامِ قتل میں شدید زخمی ہو گئی تھیں۔

احمدزیب نے کہا، "سوات کی خواتین آگاہ اور تعلیم یافتہ ہیں اور وہ معاشرہ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں ۔ "

احمدزیب نے قبل ازاں مقامی خواتین کو تربیت دینے کے لیے پیشہ ورانہ سکولز چلائے اور وہ عسکریت پسندوں کے ہاتھوں تباہ ہونے والے سکولز کی تعمیرِ نو میں شامل ہیں تاکہ مقامی لڑکے لڑکیاں اپنی تعلیم جاری کر سکیں۔

انہوں نے کہا، "سوات میں متعدد خواتین اپنے کاروبار چلانا چاہتی ہیں ، اور خواتین کا ایوان نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کرے گا بلکہ قومی و بین الاقوامی سطح پر انہیں متعدد مواقع سے روشناس بھی کرائے گا۔"​

فروغ تجارت کی حوصلہ افزائی

تاجر برادری نے اس قدم کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ یہ زیادہ خواتین کو مرکزی دھارے میں لے آئے گی۔

خیبر پختونخواہ کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر زاہد اللہ شنواری نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہمارے پاس پہلے ہی سے پشاور، مردان، ایبٹ آباد اور چارسدہ میں خواتین کے چیمبرز آف کامرس ہیں."

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے چیمبر خواتین کے فروغ تجارت اور خاتون تاجر کو مرکزی دھارے میں لے جانے کے لئے پوری کوششیں کر رہے ہیں.

کھور خواتین کے حقوق کے ادارے کی شریک بانی، نوشہرہ کی شاہدہ شاہ کاکاخیل نے کہا کہ خیبر پختونخواہ کے تمام اضلاع میں خواتین کے چیمبرز آف کامرس کاروباری طور پر خواتین کو بااختیار بنانے کا بنیادی ذریعہ ہے.

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "خواتین کے چیمبرز اور دیگر ایسے فورمز خواتین کو ان کے متعلقہ علاقوں سے مرکزی دھارے میں لانے کا یقین دلاتے ہیں."

اس نے کہا کہ اس میدان میں خواتین کے خلاف کوئی امتیازی سلوک ایک غلطی ہوگی اور پاکستان کو زبردست نقصان پہنچائے گی.

زیادہ چیمبرز، مواقع

خیبر پختونخواہ میں عورتوں کو اپنے ذاتی کاروبار کو چلانے کے قابل بنانے کے بہت سی دوسری خواتین مزید چیمبرز آف کامرس اور دیگر مواقع تلاش کررہی ہیں.

پشاور کی ایک خاتون تاجر عالیہ سید نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "خواتین نے کئی کاروباری اداروں اور شعبوں میں کئی سالوں میں اہم کردار ادا کیا ہے،[ان میں سے کئی کو] حکومت اور معاشرے کی طرف سے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے."

نہوں نے کہا کہ صوبے مزید شہروں اور پورے ملک کوفروغ تجارت کرنے والی خواتین کی حوصلہ افزائی کے لئے چیمبرز کی ضرورت ہے.

سید نے کہا، "یہ ادارے نہ صرف [فروغ تجارت کرنے والی خاتون کا] حوصلہ بڑھائیں گے بلکہ نہایت اہم مسائل کو حل کرنے اور قومی اور بین الاقوامی سطح پرنبرد آزما ہونے کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتے ہیں."

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

خواتین کو حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے لیے پہلا قدم اٹھانا نہایت مشکل ہے، لہٰذا ان کی حوصلہ افزائی کریں؛ آپ کو پہلا قدم اٹھانا ہو گا اور ہر قدم پر ان کی معاونت کرنا ہو گی۔ ملازمتوں کے مواقع فراہم کریں اور باہر نکلنے میں ان کی مدد کریں۔

جواب