میڈیا

پختونخوا ریڈیو نے ہارے ہوئے عسکریت پسندوں کا چھوڑا ہوا خلاء پر کر دیا

دانش یوسفزئی

23 نومبر کو پختونخوا ریڈیو پشاور پر ایک براہِ راست شو میں پشاور کے بچے شرکت کر رہے ہیں۔ پختونخوا ریڈیو امن اور مذہب کے جامع ثقافتی تنوع کو فروغ دینے کی غرض سے بچوں کے لیے خصوصی تعلیمی پروگرام نشر کرتا ہے۔ [دانش یوسفزئی]

23 نومبر کو پختونخوا ریڈیو پشاور پر ایک براہِ راست شو میں پشاور کے بچے شرکت کر رہے ہیں۔ پختونخوا ریڈیو امن اور مذہب کے جامع ثقافتی تنوع کو فروغ دینے کی غرض سے بچوں کے لیے خصوصی تعلیمی پروگرام نشر کرتا ہے۔ [دانش یوسفزئی]

پشاور – ان دنوں خیبر پختونخوا (کے پی) میں ریڈیو کے سامعین تعلیم، تفریح اور نوجوانوں کے لیے مخصوص پروگرام سنتے ہیں، جو کہ کئی برس قبل سے کوسوں دور ہے جب عسکریت پسندوں کے نظریات ہوا کے دوش پر ہوتے تھے۔

عسکریت پسند طویل عرصہ سے عوام سے بات چیت کرنے کے لیے ریڈیو کا استعمال کر رہے ہیں، بطورِ خاص 2006-2012 میں مالاکنڈ ایجنسی میں عسکریت پسندی میں تیزی کے دوران۔

صحافت کے ایک لیکچرار اور اقراء انٹرنیشنل یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے ایک طالبِ علم، جو ایک ہی نام رحمان اللہ سے معروف ہیں، کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق اس عرصہ کے دوران عسکریت پسندوں کی جانب سے چلائے جانے والے 100 سے زائد غیر قانونی ایف ایم ریڈیو سٹیشنز نے شدت پسندانہ پیغامات پھیلائے، مقامی حمایت جمع کی اور چندے مانگے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "یہ غیر قانونی سٹیشن بنیاد پرستانہ مذہبی نظریات پھیلانے اور صوبے بھر میں شدّت پسندانہ پراپیگنڈا پھیلانے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔"

انسدادی اقدام کے طور پر حکومتِ کے پی نے 2009 میں پشاور اور مردان میں دو ایف ایم ریڈیو سٹیشن کا آغاز کیا۔

مزید برآں افواج کی جانب سے عسکریت پسندوں کو شکست اور کے پی سے نکال باہر کیے جانے کے بعد ان میں سے زیادہ تر ریڈیو سٹیشن اب ہوا کے دوش سے ہٹ گئے ہیں۔

رحمان اللہ نے پشاور سے نشر ہونے والے سٹیشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "2009 سے اب تک پختونخوا ریڈیو نے خطے میں بنیاد پرست نظریات کے خلاف انسدادی نقطہٴ نظر تشکیل دینے میں مدد کی ہے۔"

پختونخوا ریڈیو کے ایک پیش کار ناظم الدین نے کہا، "پختونخوا ریڈیو کے زیادہ تر پروگرام انٹرپرنیورشپ، تخلیقی مارکیٹنگ روابط اور نوجوان قیادت سے متعلق ہوتے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "بطورِ خاص مالاکنڈ اور قبائلی علاقوں سے نوجوانوں کا ردِّ عمل بہت زیادہ ہےاور مزید پروگرامز کی زیادہ مانگ ہے۔"

نظام نے کہا کہ اس مانگ کو پورا کرنے کے لیے "پختونخوا ریڈیو نے کے پی کے 90 فیصد اور [وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا)] کے 70 فیصد تک اپنے علاقہٴ نشریات کو وسیع کر لیا ہے۔"

حکومت نے اس امر کو یقینی بنانے کےلیے کہ معلومات صوبہ کے دور دراز علاقوں تک پہنچیں، اپریل میں کوہاٹ، سوات اور ایبٹ آباد کو کوّر کرنے کے لیے تین ایف ایم ریڈیو سٹیشنز کا آغاز کیا۔

نظام نے کہا، "یہ چینل تیزی سے [کے پی] اور فاٹا بھر میں سامعین کے مابین مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔"

عسکریت پسندانہ نظریات کی انسداد

کے پی نطامتِ اطلاعات و تعلقاتِ عامہ کے ڈائریکٹر برائے ایف ایم ریڈیو، فردوس خان عسکریت پسندوں کے پیغام کی نفی کرنے کے ابتدائی چیلنج کو یاد کرتے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "دورافتادہ علاقوں کے رہائشیوں تک بات پہنچانے کی کوئی ریاستی مشینری نہیں تھی۔ دہشتگردوں نے اس کا پورا فائدہ اٹھایا اور اپنے ایف ایم چینل شروع کر دیے۔"

انہوں نے کہا، "ہم نے اس چیلنج کا سامنا کیا اور ان کے نقطہٴ نظر کو روکنا شروع کیا۔ اب ہم حکومتی اصلاحات کی ترویج اور کمیونیٹی کو آگاہ کرنے کے لیے پروگرام نشر کر رہے ہیں۔"

رحمان اللہ نے کہا عسکریت پسند پولیو ویکسینیشن، نگہداشت صحت، حکومتی پالیسیوں اور پاک فوج کی مذمّت کرنے کے لیے ایف ایم چینل استعمال کرتے تھے۔

انہوں نے کہا، "وہ اطلاعات کے محدود ذرائع اور صوبے کے دیہی علاقوں میں بکثرت ناخواندگی کی وجہ سے ریڈیو کے استعمال میں کامیاب تھے۔ اس لیے لوگ جو بھی میڈیا چینلز پر سنتے اس پر یقین کرتے۔"

عسکریت پسند پروپیگنڈے کا تخلیق کار

کے پی میں عسکریت پسندوں کے حامی ریڈیو کے پیچھے تخلیق کاروں میں سے ایک تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا سربراہ ملا فضل اللہ تھا۔ 2006 میں اس نے سوات میں ایک غیر قانونی ریڈیواسٹیشن کا آغاز کیا جس کے ذریعے وہ انتہا پسند پیغامات نشر کرتا تھا۔

ریڈیو پاکستان پشاور کے سابق ڈائریکٹر اور کے پی میں ایف ایم 101 کی داغ بیل ڈالنے والے سردار علی نے بتایا، یہ دیکھتے ہوئے کہ فضل اللہ وسیع پیمانے پر سامعین تک رسائی کے قابل ہے اور آبادی کا منفی استحصال کررہا ہے، وفاقی اور صوبائی حکومت نے پروگرام گرڈ میں انسداد دہشت گردی کا مواد داخل کرنا شروع کر دیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "سرکاری ریڈیو چینل علمبردار ہوگئے اور انسداد دہشت گردی سے متعلق خصوصی پروگراموں کا بہتر انداز سے آغاز کیا۔"

انہوں نے بتایا، پروگراموں نے سامعین کو دہشت گردی کا منفی پہلو تسلیم کرنے پر آمادہ کیا۔

نوجوانوں پر توجہ مرتکز، معاشرے کی تعمیر

سوات میں پختونخواہ ریڈیو کے ایک پروڈیوسر ثاقب نواز نے بتایا، زیادہ تر پروگراموں کی توجہ نوجوانوں پر ہے۔

"ان علاقوں میں دہشت گردی نے نوجوانوں کو الجھن میں اور بلا کسی سمت کے چھوڑا ہے،" انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا۔ "ہمارے پروگرامز تعلیم، تفریح اور زندگی گزارنے کے مواقعوں پر مرکوز ہیں۔ ہمارا مقصد مذہبی انتہاپسندی کے پروپیگنڈے کے مخالف ایک متبادل اور مقبول بیانیہ پیش کرنا ہے۔"

پشاور یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف جرنلزم اور ماس کمیونیکیشن کے اسسٹنٹ پروفیسر بخت زمان نے مالا کنڈ ڈویژن میں شرپسندوں کے ریڈیو استعمال کرنے پر تحقیق کی ہے۔

"ان علاقوں میں حکومت کی جانب سے قائم کردہ ایف ایم چینلز دہشت گردی کے خلاف اہم ہیں کیونکہ وہ کمیونٹی کے ریڈیو چینل ہیں۔" انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا۔ "مقامی افراد باآسانی ان چینلز تک رسائی پاسکتے ہیں کیونکہ یہ قومی ریڈیو چینل کے بجائے ان کی اپنی کمیونٹی کے درمیان سے ہیں۔"

قریبی ٹرانسمیٹر کے ہمراہ مقامی اسٹیشن کے سگنلز بؑض اوقات دور واقع قومی نشریات کنندگان کے مقابلے میں طاقتور ہوتے ہیں، اور مقامی زبانوں کا استعمال زیادہ سامعین کو متوجہ کرتا ہے۔

زمان نے بتایا، "دوسرا یہ کہ نشریات کنندگان کمیونٹی میں سے ہیں اور وہ باآسانی اپنے سامعین کی [خصوصی] ضروریات جان سکتے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

معلوماتی مکالہ ہے میں متفق ہوں۔ عسکریت پسند عوام کو ہراساں کرنے کے لیئے ریڈیو سٹیشن کا استعمال کرتے تھے۔

جواب

ایک اچھی تحریر۔ یہ سچ ہے کہ دہشتگردی کی انسداد میں ریڈیو ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ان وسیع معلومات کے لیے پاکستان فارورڈ کا شکریہ۔

جواب

اس مکالہ پر اعدادی نتائج کی بنا پر مزید تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔ میں اس امر سے اختلاف کرتا ہوں کہ کے پی کے زیرِ سایہ یہ سٹیشن کمیونیٹی ریڈیو ہیں، ہم کہ سکتے ہیں کہ سوات میں عسکریت پسندوں کی جانب سے چلائے جانے والے سٹیشن، ما سوائے چند ایک، کمیونیٹی ریڈیو تھے۔ پختونخوا ریڈیو کے منتظمین کو یہ امر ذہن نشین رکھنا چاہیئے کہ وہ ایف ایم 101 پشاور، جو کہ بہرطوراس علاقہ میں پیش رو چینل ہے، کے ساتھ اشتراک سے ہدف کیے گئے علاقہ کے زیادہ سے زیادہ حلقوں کو ہدف بنانے والی انٹرایکٹیو پریزنٹیشنز پر مبنی پروگرام گرِڈ کی منصوبہ بندی کرے۔۔۔ جہاں تک اس مکالہ کا تعلق ہے، یہ ایک اچھا اقدام ہے۔

جواب