دہشتگردی

داعش اور طالبان نے افغانستان میں ایک دوسرے کے خلاف 'جہاد' کا اعلان کر دیا

سلیمان

دو مسلح افراد، جو مبینہ طور پر طالبان سے تعلق رکھنے والے سرکش ہیں، 17 اکتوبر کو ننگرہار صوبہ کی خوگیانی ڈسٹرکٹ میں داعش کے ارکان کے ساتھ لڑائی کے بعد، علاقے سے فرار ہو گئے۔ داعش اور طالبان کے درمیان جھڑپوں نے سینکڑوں شہریوں کو ان کے گھروں سے بھی بھاگ جانے پر مجبور کر دیا۔ ]خالد زرائی[

دو مسلح افراد، جو مبینہ طور پر طالبان سے تعلق رکھنے والے سرکش ہیں، 17 اکتوبر کو ننگرہار صوبہ کی خوگیانی ڈسٹرکٹ میں داعش کے ارکان کے ساتھ لڑائی کے بعد، علاقے سے فرار ہو گئے۔ داعش اور طالبان کے درمیان جھڑپوں نے سینکڑوں شہریوں کو ان کے گھروں سے بھی بھاگ جانے پر مجبور کر دیا۔ ]خالد زرائی[

کابل -- مقامی حکام اور شہریوں کا کہنا ہے کہ طالبان اور "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات نے افغانستان کے صوبوں جواز جان اور ننگرہار میں سخت لڑائی کو جنم دیا ہے جس کے نتیجہ میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں اور شہریوں کو بے گھر ہونا پڑا ہے۔

دونوں عسکریت پسند گروہوں کے درمیان تعلقات گزرتے وقت کے ساتھ انتہائی تلخ ہو گئے ہیں۔

دارزاب ڈسٹرکٹ کے گورنر باز محمد دواری نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "جوازجان صوبہ میں طالبان اور داعش کے درمیان انتہائی سنگین اور گہرے اختلافات ہیں جو اس حد تک ہیں کہ دونوں اطراف سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "حال ہی میں، ان گروہوں کے راہنماؤں نے دارزاب اور کش ٹیپا ڈسٹرکٹس میں اپنے جنگوؤں کے ساتھ ایک میٹنگ میں ایک دوسرے کے خلاف "جہاد" کا اعلان کیا"۔

انہوں نے کہا کہ دارزاب ڈسٹرکٹ میں تقریبا تین ماہ پہلے ایک واقعہ میں، داعش نے طالبان کے ان 10 ارکان کا سر قلم کر دیا جنہیں انہوں نے میدانِ جنگ میں گرفتار کیا تھا۔

علاقے کے لیے لڑائی

جوازجان صوبہ میں زیادہ تر لڑائی کا مقصد، ہر گروہ کی اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنا ہے۔

جوازجان کی صوبائی حکومت کے ایک ترجمان محمد رضا غفوری نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "حال ہی میں، دارزاب اور کش ٹیپا ڈسٹرکٹس میں داعش اور طالبان کے جنگجوؤں کے درمیان زبردست لڑائی ہوئی جس میں داعش کچھ علاقوں جیسے کہ چکما چاکور گاوں کو طالبان سے آزاد کروانے میں کامیاب رہی"۔

انہوں نے 25 اکتوبر کو کہا کہ "اپنے کھوئے ہوئے علاقے پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے، طالبان نے ہلمند، بدغیس اور فریاب کے صوبوں سے اپنے ہزاروں لڑاکوں کو جوازجان بلایا۔ اس کے نتیجہ میں، گزشتہ پانچ دونوں سے مسلسل جھڑپیں جاری ہیں"۔

غفوری کے مطابق، لڑائی سے 44 طالبان عسکریت پسند ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بدغیس صوبہ کے لیے طالبان کے کٹھ پتلی گورنر بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر 10 زخمی ہو گئے۔ داعش کے بھی دس جنگجو ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ "بیس ستمبر کو کش ٹیپا ڈسٹرکٹ میں طالبان اور داعش کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں، 20 طالبان اور داعش کے چھہ عسکریت پسند ہلاک ہو گئے۔ داعش کے جنگجوؤں نے طالبان کے پانچ عسکریت پسندوں کی لاشیں جلا دیں"۔

شہری متاثرین

طالبان اور داعش کے درمیان جھڑپیں شہریوں کی ہلاکت کا باعث بھی بنی ہیں اور بہت سے لوگوں کو اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا۔

کش ٹیپا ڈسٹرکٹ کے ایک گاوں چکما چاکور کے ایک شہری اعظم نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ 23 اکتوبر کو طالبان اور داعش کے جنگوؤں کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں ایک خاتون اور چھہ بچے زخمی ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ "علاوہ ازیں، عسکریت پسندوں کے راکٹوں کا نشانہ بننے کے بعد بہت سے گھروں کو آگ لگ گئی اور وہ تباہ ہو گئے۔ آج، طالبان اور داعش کے درمیان جنگ میں تیزی کے خوف کے باعث تمام دکانیں اور بازار بند ہیں اور مقامی شہریوں کو خوراک کی عدم دستیابی کا سامنا ہے"۔

جوازجان صوبہ سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی بزرگ نعیم قارق نے کہا کہ "مقامی شہریوں پر طالبان اور داعش کی طرف سے نافذ کیے جانے والے جبر کے علاوہ، جو لوگ ان کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں رہتے ہیں انہیں دونوں دہشت گرد گروہوں کے درمیان ہونے والی جنگ کی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے"۔

انہوں نے 24 اکتوبر کو کہا کہ "گزشتہ چار دنوں کے دوران، طالبان اور داعش کے درمیان جاری جھڑپوں کے باعث، 400 سے زیادہ خاندانوں کو اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا اور جوازجان کے مرکز میں پناہ لینی پڑی ہے"۔

غفوری نے شہریوں کی ہلاکتوں اور اس کے ساتھ ہی خاندانوں کے بے گھر ہو جانے کے بارے میں خبروں کی تصدیق کی۔ انہوں نے کہا کہ "سیکورٹی فورسز کش ٹیپا اور دارزاب میں داعش اور طالبان کو دبانے کے لیے ایک بہت بڑا فوجی آپریشن کرنے کے بارے میں جانچ پڑتال کر رہی ہے"۔

ننگرہار میں مماثل جھڑپیں

ننگرہار صوبہ میں تشدد کا اس سے مماثل نمونہ دیکھا جا سکتا ہے۔

طالبان اور داعش کے عسکریت پسندوں کے درمیان حالیہ جھڑپوں میں، جن کا مقصد انتقامی طور پر ایک دوسرے کے علاقوں پر قبضہ کرنا ہے، کم از کم 26 جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔

ننگرہار کے گورنر کے ایک ترجمان عطا اللہ خوگیانی نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "طالبان کے خوگیانی ڈسٹرکٹ کے علاقوں وزیر، تنگی اور سپن گڑھ میں مضبوط گڑھ ہیں۔ 16 اکتوبر کو داعش کی افواج نے طالبان کے گڑھ پر حملہ کیا جہاں زبردست جھڑپ ہوئی۔ اس کے نتیجہ میں، 14 طالبان اور داعش کے 12 جنگجو جنگ میں ہلاک ہوئے اور بہت سے دوسرے زخمی ہو گئے"۔

انہوں نے کہا کہ چار مقامی شہری ہلاک اور دیگر 2 زخمی ہوئے جبکہ "طالبان اور داعش کے عسکریت پسندوں کے درمیان جنگوں کے نتیجہ میں 650 خاندان بے گھر ہو گئے"۔

ایک مقامی شہری رحمت گول نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "چند دن پہلے، سپن گڑھ اور چاپاری کے علاقوں میں طالبان اور داعش کے درمیان شدید جنگ چھڑ گئی۔ یہ جنگ ایک دن تک جاری رہی جس کے دوران دونوں اطراف سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد ہلاک اور زخمی ہو گئی"۔

انہوں نے کہا کہ "جنگ کے دوران، مقامی شہریوں کے بہت سے گھروں کو آگ لگ گئی اور بہت سے خاندان اپنی جانیں بچانے کے لیے اپنے گھروں اور املاک کو چھوڑ کر بھاگ گئے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

نہایت معلوماتی

جواب