سلامتی

پاکستان میں فرقہ وارانہ حملوں کے بشمول دہشت گردی میں واضح کمی دیکھی جا رہی ہے

عادل سعید

پاکستان رینجرز اور انٹیلی جنس اہلکاروں نے 16 اگست کو لاہور میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مشتبہ دہشت گردوں کو ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے ملزمان کو پنجاب بھر سے گرفتار کیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق سیکورٹی فورسز کے موثر اقدامات کے باعث 2017 میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ [انٹر سروسز پبلک ریلیشنز]

پاکستان رینجرز اور انٹیلی جنس اہلکاروں نے 16 اگست کو لاہور میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مشتبہ دہشت گردوں کو ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے ملزمان کو پنجاب بھر سے گرفتار کیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق سیکورٹی فورسز کے موثر اقدامات کے باعث 2017 میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ [انٹر سروسز پبلک ریلیشنز]

پشاور – وزارت داخلہ کی شائع کردہ ایک حالیہ رپورٹ اور مبصرین کے مطابق انسداد دہشت گردی کی جاری کوششوں کے باعث، پاکستان میں فرقہ وارانہ نوعیت کے واقعات سمیت دہشت گردی میں کمی دیکھی گئی ہے۔

سڈنی میں قائم اکنامکس اینڈ پیس انسٹیٹیوٹ کی شائع کردہ ایک سالانہ رپورٹ "گلوبل ٹیررازم انڈیکس" (جی ٹی آئی) میں دہشت گردی میں مجموعی کمی کو تسلیم کیا گیا ہے۔

15 نومبر کو جاری ہونے والی تازہ ترین جی ٹی آئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہپاکستان میں بھی دہشت گردی میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد میں 956 اموات سے 12 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ 2006" کے بعد سے یہ اموات کی کم از کم تعداد ہے۔"

رپورٹ میں مزید بتایا ہے، "مسلسل تیسرے سال پاکستان میں دہشت گرد حملوں اور ہلاکتوں میں کمی دیکھی گئی ہے۔"

دریں اثنا، اسلام آباد میں قائم مرکز تحقیق برائے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کی مرتب کردہ 2017 کی تیسری سہ ماہی کی سیکورٹی رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے واقعات میں 44 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اپریل سے جون تک تشدد کے 100 واقعات ہوئے ہیں، مزید بتایا گیا کہ جولائی سے ستمبر کے دوران پرتشدد واقعات کی تعداد گھٹ کر 56 ہو گئی۔

خیبر پختونخواہ کے گورنر ظفر اقبال جھگڑا نے بتایا، "موثر اقدامات اور اور سیکورٹی فورسز کی دی گئی قربانیوں کی وجہ سے عمومی طور پر پاکستان اور خصوصاً فاٹا میں دہشت گردی کو کچل دیا گیا ہے۔"

جھگڑا نے 13 نومبر کو پشاور میں صحافیوں کو بتایا کہ دہشت گردی کے 85 فیصد نیٹ ورکس تباہ کر دیے گئے ہیں اور فاٹا کا بیشتر علاقہ شرپسندوں سے خالی کرا لیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا، مشکلات پیدا کرنے والے باقی ماندہ گروہ بکھر گئے ہیں اور علاقہ میں سخت سیکورٹی کے باعث اکٹھے نہیں ہو سکتے۔

جھگڑا نے بتایا، جس رفتار سے پاکستانی سیکورٹی فورسز فتوحات حاصل کر رہی ہیں، بہت جلد پاکستان بشمول فاٹا اس لعنت سے پاک ہو جائے گا۔

انسدادِ دہشتگردی کی موٴثر کاروائیاں

نومبر میں وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق، جنوری 2015 میں قومی ایکشن پلان (این اے پی) کے نفاذ کے بعد سے اب تک تقریباَ 2,127 دہشتگرد مارے جا چکے ہیں اور 5,884 گرفتار ہو چکے ہیں۔

پاکستان میں 63 کالعدم تنظیمیں، جن میں سے تین زیرِ نگرانی ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق، انسدادِ دہشتگردی ایکٹ (اے ٹی اے) کے چوتھے شیڈیول پر بھی 8,333 افراد ہیں جو دہشتگردی کے مشتبہ افراد کے پولیس کی نگرانی میں رکھے جانے کا متقاضی ہے۔

وزارت نے کہا کہ حکام نے 2,052 افراد کی حرکت محدود کر دی اور 5,023 بینک اکاوٴنٹ منجمد کیے۔

رپورٹ میں افشا کیا گیا کہ حکام نے دہشتگردوں کے رسل و رسائل کے نیٹ ورک کے خاتمہ کی کوششوں کے جزُ کے طور پر 937 یونیفارم ریسورس لوکیٹرز (یو آر ایلز)—ایسے ویب ایڈریس جو ویب سائٹس کے علاوہ دیگر مواد تک رسائی فراہم کرتے ہیں—اور کالعدم تنظیموں کی 10 ویب سائٹس کو بلاک کیا۔

مزید برآں، رپورٹ میں کہا گیا کہ، قومی مقتدرہ برائے انسدادِ دہشتگردی (نیکٹا) مستحکم ہو رہا ہے۔

دسمبر 2014 میں دہشتگردوں کی جانب سے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں 140 سے زائد بچوں اور اساتذہ کے قتلِ عام کے بعد سزائے موت پر سے چھے برس طویل اخلاقی بندش اٹھائے جانے کے بعد سے اب تک حکام 483 دہشتگردوں کواے ٹی اے کے تحت پھانسی دے چکے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ دہشتگردی کے لیے فراہمیٴ مالیات کو بند کرنے کی کاوشیں بارآور ثابت ہو رہی ہیں۔

گزشتہ برس کے دوران پولیس نے حوالہ/ہنڈی طریقہ مالیات کے غلط استعمال کے 777 مقدمات درج کیے۔ نتیجتاَ حکام نے 1.3 بلین روپے [12.5 ملین ڈالر] بازیاب کیے۔

این اے پی کے نفاذ سے اب تک نفرت انگیز تقاریر کو بند کرنے کے لیے کیے گئے کام کے ضمن میں نفاذِ قانون کی ایجنسیوں نے 1,353 مقدمات درج کیے اور 2,528 گرفتاریاں کیں۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی اور سیکیورٹی تجزیہ کار عقیل یوسفزئی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لوگ اب بھی بعض اوقات 2007 سے 2012 تک کے مشکل وقت کو یاد کرتے ہیں جب روزانہ کی بنیادوں پر بم حملے ہوتے تھے اور کیسے لوگوں نے اپنے بچوں کو سکول بھیجنے سے اجتناب برتنا شروع کر دیا تھا۔

انہوں نے مشاہدہ کیا کہ تاہم، اب صورتِ حال میں نمایاں بہتری آئی ہے اور لوگ سلامتی کے حوالے سے معاشرہ میں مثبت تبدیلی محسوس کر رہے ہیں۔

فرقہ واریت بطور دشمن

وزارتِ داخلہ کے مطابق، پاکستان میں فرقہ ورانہ دہشتگردانہ حملوں میں کمی دیکھی گئی ہے، جس میں 2012 کے 185 کے مقابلہ میں 2017 میں صرف ایسے دو سانحات رپورٹ ہوئے۔

اے پی پی نے 2017 کے اگست تک کے اعداد و شمار دیتے ہوئے وزارتِ داخلہ کی دستاویز کے بارے میں خبر دی، "گزشتہ سات برس کے دوران فرقہ ورانہ دہشتگردی کے کل 676 واقعات رپورٹ کیے گئے، جن میں 70 2011 میں ریکارڈ کیے گئے، 2012 میں 185، 2013 میں 127، 2014 میں 176، 2015 میں 79، 2016 میں 37 اور 2017 میں ایسے دو واقعات ریکارڈ کیے گئے۔"

فاٹا کے لیے سابق سیکریٹری سیکیورٹی، پشاور سے تعلق رکھنے والے برگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "فرقہ واریت دہشتگردی ہی کی ایک شاخ ہے، اور [دہشتگردی کی] بلا کی بیخ کنی کرنے کے لیے ہمیں [فرقہ واریت] کو تباہ کرنا ہو گا۔"

انہوں نے کہا کہ القاعدہ نے پاکستان میں ایسی متعدد فرقہ ورانہ تنظیموں کو مالیات فراہم کیے ہیں جن کا مقصد انارکی اور تباہی پیدا کرنا ہے۔

شاہ نے کہا، "[این اے پی] کے اعلان سے قبل پاکستان میں فعال رہنے والی فرقہ ورانہ تنظیمیں دہشتگرد گروہوں کے ایجنٹس کے طور پر کام کر رہی تھیں۔"

انہوں نے کہا، مثالوں میں صوبہ بلوچستان میں ہزارہ نسل کی آبادی پر حملے شامل ہیں.

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500