دہشتگردی

داعش عراق اور شام میں تنکوں کے سہارے رہ گئی ہے

اے ایف پی

28 اکتوبر 2017 کو دریائے فرات پر، روا شہر پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے جہادیوں کے خلاف اپنے حملے کے دوران عراق کی حکومت کی حامی فوجیں داعش سے تعلق رکھنے کے شبہ میں مردوں کو حراست میں لیے ہوئے ہیں۔ [مودھ الضلامی/ اے ایف پی]

28 اکتوبر 2017 کو دریائے فرات پر، روا شہر پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے جہادیوں کے خلاف اپنے حملے کے دوران عراق کی حکومت کی حامی فوجیں داعش سے تعلق رکھنے کے شبہ میں مردوں کو حراست میں لیے ہوئے ہیں۔ [مودھ الضلامی/ اے ایف پی]

عمان -- عسکریت پسندوں کے خلافت قائم کرنے کے خوابوں کے تابوت میں ایک اور کیل ٹھونکتے ہوئے، عراقی فوج نے جمعہ (17 نومبر) کے روز ملک اس آخری شہر پر بھی دوبارہ قبضہ کر لیا ہے جو ابھی تک "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے زیرِ تسلط تھا۔

جنگجوؤں کے خلاف برسرِ پیکار امریکہ کی قیادت میں اتحادی فوج کے مطابق، داعش سرحد کے آر پار "خلافت" کے 95 فیصد حصے سے محروم ہو چکی ہے جس کا اعلان اس نے سنہ 2014 میں عراق اور شام میں کیا تھا۔

تنظیم اب عراق اور شام میں چند ایک چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے چمٹی ہوئی ہے، جو کہ ان بڑے علاقوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے جن پر اس نے خطے میں یورش کے بعد قبضہ کر لیا تھا۔

عراق

جمعہ کے روز علی الصبح عراقی فوج کی جانب سے شروع کردہ ایک گھن گرج والے حملے میں وادیٔ فرات کے ایک چھوٹے سے شہر روا سے بھی محروم ہو جانے کے بعد، اب صحرا کے چند ٹکڑے ہی بچے ہیں جن پر ملک میں ابھی تک داعش قابض ہے۔

بغداد کی فوجیں داعش کے علاقے کی آخری باقیات کا صفایا کرنے کے لیے شام کے ساتھ اپنی طرف کی سرحد کے ساتھ ساتھ آخری دھکا لگا رہی ہیں۔

یہ کارروائی سزا دینے کی مہم کا آخری حصہ ہے جس میں عراق نے شہری علاقے میں ایک خونخوار جنگ کے بعد جولائی میں موصل شہر پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔

عراق کے صوبہ انبار کے سرحدی علاقے میں مٹھی بھر طاقتور سنی قبائل کی اکثریت ہے، جن میں سے چند ایک نے داعش کے خلاف سرکاری فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے اپنے جنگجو روانہ کیے ہیں۔

شام

سرحدی شہر البو کمال سے آگے، داعش کے قبضے میں تیل کی دولت سے مالا مال صوبہ دیر ازور کے مضافات میں دریائے فرات کے ساتھ ساتھ کوئی دو درجن صحرائی دیہات بچے ہیں جو کہ کبھی اس تنظیم کی غیر قانونی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔

جنگجوؤں کو وہاں شامی فوج اور امریکی اتحاد کی قیادت میں کُرد اور عرب جنگجوؤں کے ایک اتحاد دونوں کا سامنا ہے۔

بنجر سرحدی علاقے سے دور، داعش نے یرموک کے مہاجر کیمپ اور دمشق کے بالکل جنوب میں ضلع حجرِ اسود میں اپنی موجودگی برقرار رکھی ہے، جہاں تنظیم دیگر جنگجوؤں اور حکومت کی حامی فوجوں سے لڑ رہی ہے۔

ہومس کے وسطی علاقے میں، داعش کو صدر بشار الاسد کے وفادار دستے نچوڑ رہے ہیں جبکہ یہ چند چھوٹے علاقوں پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500