نوجوان

پاکستانی بچے نے 'آئی ول بی یور سپائڈرمین' کے لیے عالمی فلم ایوارڈ جیت لیا

جاوید خان

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک پانچ سالہ بچے کی ایک مختصر فلم "آئی ول بی یور سپائڈرمین" جو گلیوں میں پھرنے والے بچوں کی تعلیم کو فروغ دیتی ہے، نے اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر میں "پیس ان دی سٹریٹس عالمی فلم فیسٹیول" (پی ایس جی ایف ایف) میں پہلا انعام جیتا۔

پشاور – گزشتہ ہفتے پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک پانچ سالہ بچے کی ایک مختصر فلم نے پیس ان دی سٹریٹس عالمی فلم فیسٹیول میں اوّل انعام حاصل کیا۔

ایک غیر سرکاری تنظیم پیس میکر کورز ایسوسی ایشن (پی سی اے) کے اشتراک سے پیش کیے گئے اس فیسٹیول کا مقصد نوجوانانِ عالم کے مابین امن و رواداری کا فروغ ہے۔

اس مقابلہ میں تین زمرہ جات میں نوجوان فلم سازوں کو انعامات دیے جاتے ہیں: 8 برس اور اس سے کم، 9 سے 13 برس کے درمیان اور 14 سے 18 برس کی عمرتک۔

9 نومبرکو اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر میں عیسیٰ ظہیر نے اپنی فلم کے لیے اپنی عمر کے زمرہ میں پہلا انعام حاصل کیا۔ یہ فلم تمام بچوں کے لیے تعلیم کو فروغ دیتی ہے۔

9 نومبر کو نیویارک میں پیس ان دی سٹریٹس عالمی فلم فیسٹیول میں 5 سالہ عیسیٰ اپنی عمر کے زمرہ میں اوّل انعام حاصل کرنے کے بعد اپنے والد مختار ظہیر کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ [بشکریہ ظہیر فیملی]

9 نومبر کو نیویارک میں پیس ان دی سٹریٹس عالمی فلم فیسٹیول میں 5 سالہ عیسیٰ اپنی عمر کے زمرہ میں اوّل انعام حاصل کرنے کے بعد اپنے والد مختار ظہیر کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ [بشکریہ ظہیر فیملی]

9 نومبر کو نیو یارک میں پیس ان دی سٹریٹس عالمی فلم فیسٹیول کے دیگر فاتحین اور دوسرے نمبر پر آنے والوں کے ساتھ عیسیٰ ظہیر (پہلی قطار) تصویر بنوا رہا ہے۔ [بشکریہ ظہیر فیملی]

9 نومبر کو نیو یارک میں پیس ان دی سٹریٹس عالمی فلم فیسٹیول کے دیگر فاتحین اور دوسرے نمبر پر آنے والوں کے ساتھ عیسیٰ ظہیر (پہلی قطار) تصویر بنوا رہا ہے۔ [بشکریہ ظہیر فیملی]

عمر کے اسی زمرہ میں جمہوریہ گانگو (ڈی آر سی) سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی سونیا کوبیکا نے دوسرا انعام جیتا، جبکہ ایک جاپانی لڑکی، رائکا اکامانے نے تیسرا انعام حاصل کیا۔ دو دیگر جاپانی بچوں نے مشترکہ طور پر چوتھا انعام حاصل کیا۔

عمر کے دیگر زمرہ جات میں فاتحین مختلف ممالک سے آئے۔

‘تعلیم ہر بچے کے لیے’

پشاور میں سکالرز اکیڈمی سکول میں کنڈرگارٹن کے طالبِ علم عیسیٰ نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، “یہ فلم ہر بچے کے سکول جانے کے حق سے متعلق ہے۔”

دو منٹ چھتیس سیکنڈ طویل یہ فلم عیسیٰ کو دکھاتی ہے، جس کو اس کی ماں سکول کے لیے تیار کر رہی ہے۔ وہ اسے جیب خرچ دیتی ہے اور بازاری کھانا نہ خریدنے کی ترغیب دیتی ہے۔

وہ فلم میں اپنی دراز میں رقم محفوظ رکھتے ہوئے کہتا ہے، “میرے والد کہتے ہیں کہ پیسے میں طاقت ہے، لہٰذا میں روزانہ اپنی تھوڑی تھوڑی طاقت جمع کرتا ہوں۔”

یہ لڑکا دیکھتا ہے کہ کیسے ایک کم عمر لڑکی ثنا ایک گھر میں کام کرتی ہے۔ وہ سکول کے لیے تیار کرنے اور دیگر کام کرنے میں اپنی ماں کی مدد کرتی ہے۔

اسے فرش صاف کرتے دیکھتے ہوئے، عیسیٰ ثنا کی مدد کرنے کے طریقے سوچتا ہے۔ وہ کہتا ہے، “اگر سپائڈرمین دنیا کو بچا سکتا ہے تو میں اس کی دنیا بدل سکتا ہوں۔ ثنا، میں تمھارا سپائڈرمین بنوں گا!”

سپائڈرمین کے لباس میں، لڑکا بھاگ کر سٹور کی جانب جاتا ہے اور اپنے جمع شدہ تمام پیسوں سے چند کتابیں خریدتا ہے۔

اگلی صبح اس کی ماں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے کہ ثنا سکول کی وردی پہنے اور بستہ اٹھائے عیسیٰ کے ہمراہ سکول جانے کے لیے تیار ہے۔

وہ کہتا ہے، “اگر آپ کل گلیوں میں امن دیکھنا چاہتے ہیں، تو آپ کو آج اپنے بچوں کو تعلیم دینا ہو گی۔ بچوں سے مزدوری سے انکار کریں۔ ہر بچے کو تعلیم دیں!”

امن کا فروغ

ایک فری لانس تھری ڈی گرافک ڈیزائنر، عیسیٰ کے والد، مختار ظہیر نے بتایا کہ انھیں اپنے نوجوان بیٹے پر فخر ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اس کی فلم کے عالمی ایوارڈ جیتنے پر عیسیٰ نے پورے ملک کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔

ظہیر نے، جنہوں نے اس کی مدد کی اور اپنے بیٹے کو فلم بنانے اور مقابلے میں پیش کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کی، بتایا، "سارا کریڈٹ عیسیٰ کو جاتا ہے کیونکہ اس نے نہ صرف فلم تیار کی بلکہ اس میں اداکاری بھی کی۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "میں یہاں یہ ضرور واضح کردوں چونکہ عیسیٰ پڑھ نہیں سکتا ہے اس لئے اس نے مکالمے زبانی یاد کیے، اور تمام تر تدوین اور اداکاری کے ساتھ ہم نے ایک دن میں مووی بنائی."

ظہیر نے بتایا، "میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ صرف عسکریت پسندی اور دہشت گردی پشاور نہیں ہے بلکہ یہ امن سے متعلق ہے، دنیا کو یہ معلوم ہونا چاہیئے۔" انہوں نے مزید کہا، عیسیٰ کی فلم نے شہر اور ملک کی ایک خوشنما تصویر کو فروغ دیا ہے۔

ظہیر نے بتایا کہ تقریباً دس سال قبل انہوں یونیورسٹی کے طالب علم کے طور پر مختصر فلمیں بنائی تھیں اور اب اس واسطے کی محبت ان کے سب سے بڑے بیٹے میں منتقل ہوگئی ہے۔ عیسیٰ کے دو چھوٹے بھائی ہیں، وسام اور میکائیل۔ ان کی والدہ ایک گھریلو خاتون ہیں۔

پاکستان کا فخر

خاندان کے ایک مقامی دوست، فرید احمد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، عیسیٰ اور ظہیر نے نظرانداز کیے گئے بچوں کی تعلیم سے متعلق فلم تیار کرکے ایک غیر معمولی کام کیا ہے۔ عیسیٰ نے اپنے پورے ملک کا سر فخر سے بلند کردیا ہے اور حکومت کو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے۔

پشاور کے ایک صحافی آفتاب احمد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، اس نوجوان بچے نے نہ صرف ایوارڈ جیت کر بلکہ دنیا کو یہ بتا کر کہ اسکول نہ جاسکنے والے بچوں کے لئے مزید کام کیا جانا چاہیئے، ایک بہت بڑا کام کیا ہے۔

سوشل میڈیا استعمال کرنے والے بہت سے لوگوں نے عیسیٰ اور اس کے والد کی کامیابی کو سراہا ہے۔

پشاور کی رہائشی سونیا زاہد نے فیس بک پر بتایا، معاشرہ کے نظرانداز کیے گئے بچوں کے لئے حیرت انگیز کوشش پر ہم عیسیٰ اور مختار ظہیر پر فخر کرتے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500