دہشتگردی

پاکستان اور افغانستان میں عسکریت پسندوں کو خواتین اور بچوں پر 'رحم نہیں آتا'

از اشفاق یوسفزئی

صوبہ سندھ میں 13 ویں صدی کے صوفی لال شہباز قلندر کے مزار پر بم حملے سے ایک روز بعد، 17 فروری کو سیہون میں ایک ہسپتال میں دو زخمی بچے اور ایک خاتون لیٹے ہوئے ہیں جبکہ ایک مرد پاس کھڑا ہے۔ [آصف حسین/اے ایف پی]

صوبہ سندھ میں 13 ویں صدی کے صوفی لال شہباز قلندر کے مزار پر بم حملے سے ایک روز بعد، 17 فروری کو سیہون میں ایک ہسپتال میں دو زخمی بچے اور ایک خاتون لیٹے ہوئے ہیں جبکہ ایک مرد پاس کھڑا ہے۔ [آصف حسین/اے ایف پی]

پشاور -- مبصرین کا کہنا ہے کہ اپنے دعووں کے برعکس، افغان طالبان اور تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) دونوں ہی خواتین اور بچوں کا قتل کرنے سے نہیں گھبراتے۔

ایک حالیہ واقعہ میں، جوشوا بوائل، ایک کینڈین مرد جسے افغان طالبان نے اس کے خاندان کے ساتھ پانچ برس تک گرفتار رکھا، نے کہا کہ عسکریت پسندوں نے اس کی شیرخوار بیٹی کو قتل کر دیا اور اس کی بیوی، امریکی شہری کیٹلن کولمین کی عصمت دری کی۔

پاکستانی فوج نے اس خاندان کو اکتوبر میں بازیاب کروایا تھا۔

ایک سفاکانہ تاریخ

پشاور کے مقامی ایک دفاعی تجزیہ کار خادم حسین نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "کینیڈین جوڑے کی جانب سے الزامات ۔۔ کہ ان کی شیرخوار بیٹی کو ہلاک کیا گیا تھا کوئی بڑی خبر نہیں ہے کیونکہ طالبان خواتین اور بچوں کو قتل کرنے کے عادی ہیں۔"

افغان مہاجرین بچے اور خاندان 27 ستمبر 2016 کو، کابل کے نواح میں اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے کیمپ پر بموں اور بارودی سرنگوں کی مثالیں دیکھتے ہوئے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں اکثر خواتین اور بچے عسکریت پسندوں کے حملوں اور بارودی سرنگوں کے دھماکوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ [وکیل کہسار/اے ایف پی]

افغان مہاجرین بچے اور خاندان 27 ستمبر 2016 کو، کابل کے نواح میں اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے کیمپ پر بموں اور بارودی سرنگوں کی مثالیں دیکھتے ہوئے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں اکثر خواتین اور بچے عسکریت پسندوں کے حملوں اور بارودی سرنگوں کے دھماکوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ [وکیل کہسار/اے ایف پی]

جنوبی وزیرستان کے ایک مقامی صحافی جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش کی، نے کہا کہ اگرچہ افغان طالبان نے الزام کی تردید کی ہے، خواتین کی عصمت دری کرنا عسکریت پسندوں کا ماضی رہا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں، طالبان جنگجو خواتین سے مار پیٹ کرتے رہے ہیں اور انہوں نے انہیں ایک محرم مرد کے بغیر اپنے گھروں سے باہر جانے سے منع کیا تھا۔"

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسند بے شرمی سے بے گناہ خواتین اور بچوں کو قتل بھی کر رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی جولائی کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے صحافی نے مزید کہا کہ افغانستان میں طالبان جنگجوؤں نے سنہ 2017 کی پہلی ششماہی میں بہت سی خواتین اور بچوں سمیت، 1،662 عام شہریوں کو قتل اور 3،581 کو زخمی کیا۔

ایک مخصوص خوفناک واقعہ میں، طالبان اور "دولتِ اسلامیہ" (داعش) نے مل کر افغانستان کے سارِ پُل صوبہ کے دور دراز ضلع سایاد میں 5 اگست کو 60 مردوں، خواتین اور بچوں کا قتلِ عام کیا تھا۔

عام شہریوں پر ایک اور حملے میں، پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع جھل مگسی میں ایک صوفی کے مزار پر 5 اکتوبر کو ایک خود کش بمبار نے تین بچوں سمیت 18 افراد کو ہلاک اور درجنوں کو زخمی کیا تھا۔

عسکریت پسند 'کوئی رحم نہیں کھاتے'

حسین نے کہا کہ دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں قتلِ عام کی یادیں ابھی بھی مکینوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ ٹی ٹی پی کے مسلح افراد نے اسکول میں گھس کر 140 سے زائد بچوں اور اساتذہ کو قتل کیا تھا۔

انہوں نے کہا، "وہ انسانیت کے نام پر کوئی رحم نہیں کھاتے اور اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے خواتین، بچوں اور نوجوانوں اور بوڑھوں کو یکساں طور پر قتل کرتے ہیں،" انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کی کم ہوتی ہوئی حمایت کی بنیادی وجہ ان کا خواتین اور بچوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک ہے۔

پشاور میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے اک ڈاکٹر مشتاق احمد نے کہا کہ ایسے سفاکانہ فعل "عسکریت پسندوں کے خواتین اور بچوں کے ساتھ رویئے" کو ظاہر کرتے ہیں۔

احمد، جو ہسپتال کے شعبۂ ہنگامی حالات میں کام کرتے ہیں، نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "گزشتہ 10 برسوں میں، ہم نے بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں زخمی ہونے والے تقریباً 3،000 مریضوں کو وصول کیا ہے، اور ان میں سے نصف خواتین اور بچے تھے۔"

انہوں نے کہا کہ ایسے درجنوں زخمی معذور ہو گئے اور وہ معمول کی زندگی گزارنے کے قابل نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا، "مارکیٹوں میں ہونے والے زیادہ تر حملے ایسی مارکیٹوں میں ہوئے جہاں خواتین کثرت سے جاتی ہیں۔ خواتین اور بچوں پر ان کے گھروں میں حملے ہوتے رہے ہیں۔"

بزدلانہ کارروائیاں خلافِ اسلام

یونیورسٹی آف پشاور میں ایک ماہرِ عمرانیات، خالد رحمان نے کہا کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے خواتین اور بچوں کو سفاکی کے ساتھ نشانہ بنایا جانا قابلِ مذمت ہے۔

"پشتون معاشرہ خواتین کا بہت احترام کرتا ہے،" کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "یہ فعل اسلام نیز مقامی روایات کے خلاف ہے، جس کے مطابق خواتین کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ سنہ 2009-2007 میں دہشت گردی کے عروج کے دوران، خیبرپختونخوا کے ضلع سوات میں، عسکریت پسندوں نے خواتین کے گھروں سے نکلنے پر پابندی عائد کر دی تھی اور خواتین نرسوں اور ڈاکٹروں کو ہسپتالوں میں کام کرنے سے منع کر دیا تھا۔

بچے بھی کثرت کے ساتھ طالبان کے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔

مارچ کے مہینے میں خیبر ایجنسی میں ایک بارودی سرنگ کے پھٹنے سے 10 سالہ محمد اسامہ شدید زخمی ہو گیا تھا۔ وہ دونوں ٹانگوں سے محروم ہو گیا اور زندگی بھر کے لیے بستر پر پڑ گیا۔

لڑکے کے والد، محمد شوکت نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "وہ بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا اور اس کا پاؤں عسکریت پسندوں کی جانب سے نصب کی گئی ایک بارودی سرنگ پر آ گیا۔ ہم اسے جلدی سے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور لے گئے، لیکن اس کے زخم بہت گہرے تھے ۔۔۔ اس کی ٹانگیں کٹ گئیں۔"

شوکت نے کہا کہ وہ اپنے علاقے میں ایک درجن ایسے بچوں سے واقف ہے جن کے اعضاء بارودی سرنگوں کی وجہ سے کٹ گئے ہیں۔

انہوں نے کہا، "لوگوں کے دلوں میں دہشت گردوں کا کوئی احترام نہیں ہے جو بچوں اور خواتین کو خوفزدہ کر رہے ہیں۔ [عسکریت پسند] فوج سے آمنے سامنے نہیں لڑ سکتے اور عام شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں ۔۔ جو کہ بہادری کی علامت نہیں ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500