حقوقِ نسواں

پنجاب میں خصوصی عدالتیں خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد سے نمٹ رہی ہیں

آمنہ ناصر جمال

4 نومبر کو ایک عورت ایک فیملی عدالت کے باہر اپنی پیشی کے انتظار میں بچے کو اٹھائے کھڑی ہے۔ [آمنہ ناصر جمال]

4 نومبر کو ایک عورت ایک فیملی عدالت کے باہر اپنی پیشی کے انتظار میں بچے کو اٹھائے کھڑی ہے۔ [آمنہ ناصر جمال]

لاہور – حکومتِ پنجاب نے جنسی حملوں سمیت عورتوں اور بچوں کے خلاف تشدد کے مقدمات سے نمٹنے کے لیے خصوصی عدالتیں تشکیل دی ہیں۔

پاکستان میں اپنی طرز کی یہ پہلی عدالتیں وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے منظور کردہ تشدد کے خلاف عورتوں کے تحفظ کے پنجاب ایکٹ 2017 میں ایک ترمیم کے جزُ کے طور پر اکتوبر تشکیل دی گئی تھیں۔

دنیا ٹی وی نے خبر دی کہ یہ خصوصی عدالتیں پنجاب کے تمام 36 اضلاع میں تشکیل دی جائیں گی اور ان کی صدارت اور وکالت خواتین جج کریں گی جو کہ خواتین اور بچوں کے امور کے لیے خصوصی طور پر تربیت یافتہ ہیں۔

ان کا مقصد مقدمات کو دو ہفتوں کے اندر مکمل کرنے کے حدف سے کاروائی کو تیز کرنا ہے۔

لاہور کی عدالتِ عالیہ کی ایک وکیل آرزو ملک نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "خواتین کے مقدمات کے لیے خصوصی عدالتوں کی ضرورت دیوانی اور خاندانی عدالتوں میں طویل طریق ہائے کار اور کاروائی کی سست رفتار کی وجہ سے پیش آئی۔"

انہوں نے کہا، "[خانون متاثرین] کو انصاف کی جلد فراہمی کے لیے خواتین کے خلاف تشدد کے مقدمات کا جلد فیصلہ ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لیے خصوصی عدالتیں تشکیل دی گئیں۔"

انہوں نے کہا، "پولیس اور داخلہ و قانونی کاروائی کے محکموں کے سیکریٹریز نے مقتدرہ کے معمولات کی رضاکارانہ طور پر تسہیل اور ایسے اقدامات کرنے پر اتفاق کیا جن سے خواتین کے خلاف جرائم کو ختم کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید یقین دہانی کرائی کہ وہ خواتین کو فراہمیٴ انصاف کی راہ میں حائل کسی بھی قسم کی رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے اقدامات کریں گے۔"

توقع ہے کہ یہ عدالتیں آگے بڑھ مقدمات درج کرا کر انصاف مانگنے کے لیے بھی خواتین کی حوصلہ افزائی کریں گی۔

جوابی کاروائی

لاہور کے سروسز ہسپتال میں ایک ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ناصر سعید نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "خواتین اکثر [دورانِ ملازمت] جنسی طور پر حراساں کرنے کو نظرانداز کرتی ہیں کیوں کہ انہیں اپنی رسوائی کا خوف ہوتا ہے۔"

انہوں نے کہا، "متاثرہ کو اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی ساکھ کے لیے خوف ہوتا ہے۔ اکثر سخت حالات اسے ایسے ماحول میں کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "اس سے بڑھ کر کیا کہ خاندان تک متاثرہ کی حمایت نہیں کرتا – اسے بتایا جا سکتا ہے کہ ایسا تو ہونا ہی تھا، اور یہ کہ اسے گھر پر رہنا چاہیئے تھا۔"

ایسی ہی ایک مثال میں لاہور کی ایک اکاوٴنٹنسی فرم کی ایک ریسپشنسٹ، ماہیم نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ساتھ کام کرنے والا ایک شخص اکثر "مجھے چھو کر گزرتا ہے"۔

ماہیم نے کہا کہ وہ احتجاج نہیں کر سکتی کیوں کہ انتظامیہ اپنے سینیئر ملازمین پر اعتماد کرتی ہے۔ اس نے کہا، "روزانہ کی ذلت اور مایوسی مجھے مسلسل دوسری ملازمت تلاش کرنے پر مجبور کرتی ہے، لیکن ابھی تک قسمت نے ساتھ نہیں دیا۔"

اس نے کہا، "پاکستان میں یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ جنسی طور پر حراساں کیا جانا ایک معمول کی بات ہے۔ یہ حوصلہ افزا ہے کہ حکومتِ پنجاب نے ایسی [عدالتیں] قائم کرنے کا اقدام کیا ہے۔ خواتین کھل کر بولنے سے ہچکچاتی ہیں، لیکن اپنی ہی جنس کا ماحول مددگار ہو سکتا ہے اور حراساں کیے جانے کے خلاف آواز اٹھانے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔"

ماہیم نے کہا، "خصوصی عدالتوں کی تشکیل ملزم کو [جلد از جلد] ممکنہ حد تک سزا دے کر متاثرہ کی تکلیف، صدمہ اور مصیبت میں تخفیف کر سکتی ہیں۔

تیز تر عدالتی کاروائی سے سامنے آنے کے لیے عورتوں کی حوصلہ افزائی

پنجاب کمیشن میں عورتوں کی حیثیت کی چیئر پرسن اور چیف ایگزیکٹیو، فوزیہ وقار نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "تمام سرکاری وکیلوں کو ہدایات دے دی گئی ہیں کہ زیادتی، [انسانی] اسمگلنگ، تشدد، بدسلوکی اور بچوں کے استحصال کے تمام مقدمات کے اپنے متعلقہ عدالتی حلقے میں آنے پر سنجیدہ اور برق رفتار کاروائی کی جانی چاہیئے۔"

انہوں نے کہا، یہ ہدایات "پورے اعتماد اور مکمل رازداری کے ساتھ فوجداری شکایات کی پیروی کرنے کی غرض سے سامنے آنے کے لیے مزید خواتین کی حوصلہ افزائی کریں گی۔"

ان کاوشوں نے پہلے بھی سامنے آنے کے لیے چند خواتین کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

لاہور میں ایک سرکاری ہسپتال کی ایک جونیئر نرس، جمیلہ، نے حال ہی میں نو تشکیل شدہ خصوصی عدالتوں میں سے ایک میں ایک شکایت داخل کی۔ اس نے الزام لگایا کہ اسے جنسی طور پر حراساں کیے جانے سے متعلق انتظامیہ سے شکایت کرنے پر اسلام آباد میں ایک مختلف مقام پر ٹرانسفر کر دیا گیا۔

اس نے شفٹ سپروائزر پر ڈاکٹروں سے مل کر نوجوان خواتین کی رات کی شفٹ میں تقرری کرنے کا الزام لگایا، جنہیں بعد ازاں جنسی عنایات کے حصول کے لیے مجبور کیا جاتا تھا۔

جمیلہ نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "عدالت نے شکایت درج کرا کر انصاف حاصل کرنے کے لیے میری حوصلہ افزائی کی۔" اس نے مزید کہا کہ جنسی طور پر حراساں کیے جانے کے واقعات میں اضافہ نے ان سے نمٹنے کے لیے خصوصی عدالتوں کی تشکیل کو ناگزیر بنا دیا ہے۔

اس نے کہا، "آئیں امّید کرتے ہیں کہ یہ عدالتیں بھی انہیں برائیوں کے سامنے ہتھیار نہ ڈال دیں جن کا عام طور پر دیگر خصوصی عدالتیں شکار ہو جاتی ہیں۔"

جمیلہ نے کہا کہ ان عدالتوں اور برق رفتار کاروائی سے متاثرین "سکھ کا سانس لیں گے اور بحالی کا آغاز کریں گے" کیوں کہ طویل پیشیوں کا تقاضا ہے کہ متاثرین بار بار وکیلِ صفائی کی جانب سے ذلت آمیز سوالوں کا جواب دینے کے لیے عدالتوں میں پیش ہوں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500