تعلیم

حکام بلوچستان میں تعلیمی چیلنجوں پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں

عبدل غنی کاکڑ

کوئٹہ میں 31 اکتوبر کو مختلف اسکولوں کے بچے ایک تقریب میں شرکت کر رہے ہیں۔ ]عبدل غنی کاکڑ[

کوئٹہ میں 31 اکتوبر کو مختلف اسکولوں کے بچے ایک تقریب میں شرکت کر رہے ہیں۔ ]عبدل غنی کاکڑ[

کوئٹہ -- تعلیمی ماہرین کے مطابق، عسکریت پسندی اور اساتذہ کی غیر حاضری جیسے مسائل نے بلوچستان صوبہ میں تعلیم کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالی ہے مگر صوبائی حکام نے اقرار کیا ہے کہ وہ اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے تعلیمی پالیسی کے ایک ماہر اور تعلیمی ڈپارٹمنٹ کے ریٹائرڈ اہلکار ظہور عابد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں جن میں آوارن، تربت، پنجگور، مشکے اور دیگر شامل ہیں، 15,000 سے زیادہ سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے بند ہو چکے ہیں اور لوگوں کے پاس اپنے بچوں کو تعلیم دینے کا کوئی راستہ نہیں ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے اسکولوں کو نشانہ بنانے والے عسکریت پسندوں نے اسکولوں کی انتظامیہ کو متنبہ کیا ہے کہ وہ طلباء کو پاکستان کا نصاب پڑھانا بند کر دیں"۔

انہوں نے کہا کہ سیکورٹی کے بغیر، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کا دوسرا عملہ اپنی خدمات فراہم نہیں کر سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "تنازعات کے شکار علاقوں کے شہری نئی نسل کے مستقبل کے بارے میں بہت پریشان ہیں"۔

حملوں کا خطرہ

کوئٹہ کی اخلاص ویلفیر سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے سینئر سرگرم کارکن اسد علی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "بلوچستان میں 80 فیصد سے زیادہ شہری سرکاری تعلیمی اداروں پر انحصار کرتے ہیں مگر یہ سیکٹر ہمارے طلباء کو تعلیم کا مطلوبہ معیار فراہم نہیں کر رہا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "بہت سے باغی گروہوں نے تعلیمی سیکٹر کو تباہ کرنے کی کوشش میں، صوبہ میں لڑکوں اور لڑکیوں کے اسکولوں پر بہت سے حملے کیے ہیں جب کہ انتہاپسند گروہ خصوصی طور پر "یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کا تعلیمی نظام اسلامی نظریات کے خلاف ہے"۔

بلوچستان میں اساتذہ اور معلموں کو قتل کرنے کی تاریخ بھی موجود ہے۔ مثال کے طور پر، نومبر 2014 میں سائنس کے استاد غلام احمد کھرل کو بولان ڈسٹرکٹ میں قتل کر دیا گیا اور اپریل 2010 میں پروفیسر نظام طالب کو کوئٹہ میں قتل کر دیا گیا۔

علی نے کہا کہ ان خطرات کا مقابلہ کرنے میں پہلا قدم عسکریت پسندی کے شکار علاقوں میں کام کرنے والے اساتذہ کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔

پاکستان ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایک سینئر اہلکار کاشف محمود نے کہا کہ عسکریت پسند گروہوں کے مسلسل خطرے کے باعث، حکومت اساتذہ کے ذہن سے خطرے کا خاتمہ کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔

محمود نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ عسکریت پسند گروہ، اپنی طرف توجہ مبذول کروانے کی کوشش میں، اساتذہ پر توجہ مرکوز کرتے ہیں کیونکہ وہ "آسان حدف" ہیں۔

آل بلوچستان پروگریسو پرائیوئٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے صدر، محمد حنیف کوندئی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "گزشتہ چند سالوں میں، نجی تعلیمی اداروں کی بہت بڑی تعداد مختلف عسکریت پسند گروہوں کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کے نتیجہ میں بند ہو چکی ہے۔ ان میں تنظیم الاسلامی الفرقان (ٹی آئی ایف) بھی شامل ہے جس نے شورش زدہ پنجگور ڈسٹرکٹ اور صوبہ کے دوسرے حصوں میں مختلف حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے شکار علاقوں میں بچے ابھی بھی تعلیم سے محروم ہیں اور "سیکورٹی کے بغیر، والدین اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیج سکتے ہیں"۔

'اولین ترجیح'

بلوچستان ایجوکیشن ریوئیو کمیٹی کے چیرمین محمد ایوب صابر نے کہا کہ "بلوچستان میں تعلیمی اصلاحات صوبائی حکومت کی اولین ترجیح ہیں -- ہم اپنے مسقبل پر سمجھوتہ نہیں کریں گے"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ عسکریت پسند "صوبہ میں ہمارے تعلیمی نظام کو تباہ کرنے اور انتہاپسندی اور بنیاد پرستی کو پھیلانے کا عزم رکھتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اپنی تعلیمی پالیسی کا دوبارہ سے جائزہ لینے، سیکورٹی کے معاملات سے نپٹنے اور جدید تعلیمی نظام کے فروغ کے لیے اپنی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں آگاہی کی کمی بھی تعلیمی نظام کو درست کرنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے اس لیے ہم امن مخالف عناصر کے ایجنڈا کو ناکام بنانے کے لیے آگاہی کی مہمات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں"۔

صوبائی حکومت اپنی نوکرشاہی کے اندر جاری مسائل سے نپٹنے کے لیے بھی اقدامات کر رہی ہے۔

بلوچستان مین نیب کے ایک ترجمان عبدل شکور خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے حال ہی میں صوبہ کے تعلیمی شعبہ سے تعلق رکھنے والے نو اہلکاروں کو کوئٹہ میں گرفتار کیا ہے اور ان پر فردِ جرم عائد کی ہے جو مبینہ طور پر سینکڑوں غیر موجود اساتذہ کی "گھوسٹ اپوائنٹمنٹس" میں ملوث تھے۔

انہوں نے کہا کہ "بلوچستان کے تعلیمی شعبہ میں 60,000 سے زیادہ سرکاری اساتذہ ملازم ہیں اور ہماری تفتیش سے ظاہر ہوا کہ ہزاروں استاد جعلی تھے"۔

انہوں نے کہا کہ "نیب اس جاری مسئلے کا کھوج لگانے کے لیے جانفشانی سے کام کر رہی ہے"۔

کوئٹہ کے مارننگ اسٹار فیلوشپ اسکولز سسٹم کے ایک استاد محمد علی نے کہا کہ حقیقی استاد جو حاضر نہیں ہوتے وہ ایک اور مسئلہ ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "بلوچستان کے دیہی علاقوں میں، سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی غیر حاضری ایک ایسا اہم مسئلہ ہے جسے مناسب توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت توجہ دے اور سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنائے تو مجھے یقین ہے کہ اس سے بلوچستان کے تعلیمی نظام میں بہت زیادہ بہتری آئے گی"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

یہ مکالہ بلوچستان میں نظامِ تعلیم، حکومت کے کردار، اساتذہ کی دستیابی اور کسی بچے کو پڑھانے کی اہلیت اوربلوچستان میں تعلیم کے مستقبل پر بصیرت فراہم کرتا ہے۔ میں اس امر سے متفق ہوں کہ کسی بھی شعبے ، بطورِ خاص تعلیم میں اصلاحات، تب تک لاحاصل ہیں جب تک ان اصلاحات کے نفاذ کا ارادہ نہ ہو۔ میرے خیال میں؛ مسئلہ قیادت اور حکومت میں ہے کہ قائدین درحقیقت رہنما نہیں ہیں بلکہ وہ موقع پرست ہیں۔ انتظامیہ کے عہدیدار/حکومتی عہدیدار کوئی نتیجہ خیز کوشش کرنے کا ارادہ اور جرات نہیں رکھتے بلکہ وہ پیسہ بنانے کی سرگرمیوں میں مشغول ہیں۔ یہاں "حکومتی عہدیداران" سے مراد سول اور اعلیٰ سطح کے عسکری عہدیدارن ہیں۔ انہوں نے خود کو سیاست دانوں/جاگیرداروں سے مربوط کر لیا ہے جن کی ترجیح تعلیم کا فروغ یا اپنے حلقوں میں لوگوں کو تعلیم دینا نہیں بلکہ ان کو اپنے جاگیردارانہ راج میں رکھنا ہوتی ہے۔حکمران/جاگیردار، سول اور عسکری بیوروکریسی مل کر عوامی فلاح کے لیے مختص مالیات کھانے میں مشغول ہیں۔ ایک حد تک اکثر این جی اوز بھی بدعنوانی میں ملوث ہیں۔ ضرورتِ وقت ہے کہ درمیانہ اور مقامی پڑھا لکھا طبقہ آگے بڑھ کر سامنے آئے۔ یہ بات طے ہے کہ مقامی افراد کے سوا کوئی بھی نہ تبدیلی لا سکتا ہے اور نہ ان کی قسمت بدل سکتا ہے، بصورتِ دیگر آفات ان کی کمیونیٹیز، علاقوں، خاندانوں اور پیاروں کی منتظر ہوں گی۔

جواب