جرم و انصاف

کے پی پولیس کی جانب سےعوام تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال، خفیہ اطلاعات موصول

جاوید خان

8 نومبر، 2017 کو ایک صارف ایک آئی فون پر خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین محسود کی ایک ٹویٹ دیکھ رہا ہے۔ [پاکستان فارورڈ]

8 نومبر، 2017 کو ایک صارف ایک آئی فون پر خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین محسود کی ایک ٹویٹ دیکھ رہا ہے۔ [پاکستان فارورڈ]

پشاور – عوام سے زیادہ بہتر طور پر بات چیت کرنے اور دہشتگردوں اور جرائم پیشہ افراد کا تعاقب کرنے کے لیے خیبر پختونخوا (کے پی) پولیس سوشل میڈیا کا استعمال کر رہی ہے۔

عوام سے معلومات کا تبادلہ کرنے اور فورس کی نمائندگی کرنے کے لیے اب صوبے میں پولیس افسران کے پاس متعدد ٹویٹر اور فیس بک اکاوٴنٹس اور واٹس ایپ گروپ ہیں۔ یہ سوشل میڈیا تجاویز فراہم کرنے، سوالات پوچھنے یا شکایات درج کرانے میں عوام کے مددگار ہیں۔

کے پی انسپکٹرجنرل پولیس (آئی جی پی) صلاح الدین خان محسود نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہم نے ایک افسر کو خصوصی طور پر سوشل میڈیا سیکشن کی سربراہی کرنے کے لیے تعینات کر کے کے پی پولیس کے میڈیا ونگ کی تنظیمِ نو کی ہے۔"

محسود کے مطابق، ایک سنیئر سپرانٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) کے پی پولیس کے لیے بطورِ کل میڈیا کے سربراہ ہیں، جبکہ ایک سپرانٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) سوشل میڈیا ونگ سے نمٹ رہے ہیں۔

2 نومبر کو پشاور میں ایک شخص کے پی پولیس کی سوشل میڈیا پوسٹنگز پڑھ رہا ہے۔ [جاوید خان]

2 نومبر کو پشاور میں ایک شخص کے پی پولیس کی سوشل میڈیا پوسٹنگز پڑھ رہا ہے۔ [جاوید خان]

ابلاغ کے رابطے کھلے ہیں

محسود نے کہا کہ انہیں واٹس ایپ، ٹویٹر، فیس بک اور ایس ایم ایس پر متعدد شکایات اور جرائم پیشہ افراد سے متعلق معلومات موصول ہو رہی ہیں، جنہیں وہ فوراً متعلقہ پولیس افسران کو ارسال کر دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "تمام علاقائی اور ضلعی پولیس افسران کے پاس ایس ایم ایس اور واٹس ایپ پیغامات کے ذریعے معلومات موصول کرنے اور [مخبریوں] پر فوری کاروائی کرنے کے لیے خصوصی نمبرز ہیں۔"

مرکزی پولیس ہیڈکوارٹرز میں تمام تر صوبے کے لیے ایک پولیس رسائی سروس تشکیل دی گئی ہے، جس کی مدد سے شہری ایس ایم ایس کے ذریعے پولیس سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ ہر ضلع کے پاس عوام سے شکایات اور معلومات وصول کرنے کے لیے جداگانہ سروسز ہیں۔

انسپکٹر جنرل خود بھی اگست میں کھولے گئے ٹویٹر اکاوٴنٹ @SalahuddinKhanM کے ذریعے عوام کے لیے دستیاب ہیں۔

کے پی پولیس کا اپنا ذاتی سرکاری فیس بک پیج بھی ہے۔

عوام سے رابطہ

ایس ایس پی آپریشنز پشاور، سجّاد خان، جو شہریوں کو فیس بک اور متعدد واٹس ایپ گروپس کے ذریعے اپ ڈیٹ کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ وہ ٹویٹر کے استعمال کا بھی آغاز کر رہے ہیں۔

خان نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتےہوئے کہا کہ ٹویٹر پشاور کے شہریوں کو "شہر میں ہونے والے کسی بھی واقعہ کے بارے میں سوالات اور معلومات ارسال کرنے" میں مددگار ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اور عوام مل کر امنِ عامہ کی صورتِ حال بہتر بنا سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ افسران نہ صرف سوشل میڈیا کے ذریعے عوام سے رابطہ میں ہیں، بلکہ ذاتی طور پر بھی علاقوں کے دورے کر رہے ہیں۔

خان نے کہا، "ہم نے اپنے موبائل فون نمبر پھیلا دیے ہیں تاکہ عوام کسی بھی جرم سے متعلق کوئی سی بھی معلومات [ارسال کر سکیں] یا امنِ عامہ کی صورتِ حال سے متعلق اپنے سوالات پوچھ سکیں۔"

صوبے بھر میں علاقائی اور ضلعی پولیس افسران معلومات اور آراء کے لیے بھرپور سرگرمی سے ٹویٹر اور فیس بک استعمال کر رہے ہیں۔

کے پولیس کے سوشل میڈیا ونگ کے سربراہ، ایس پی وقار احمد نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "کے پی پولیس کا [سوشل] میڈیا سیل کسی بھی ناخوشگوار واقعہ یا خطرے سے متعلق عوام کی معلومات یا سوالات کا فوری ردِّ عمل دیتا ہے اور فوری کاروائی کے لیے اسے [متعلقہ] علاقائی یا ضلعی پولیس افسر کو پہنچا دیتا ہے۔"

انہوں نے کہا، "یہ عوام کو پولیس سے متعلقہ متعدد مسائل سے اپ ڈیٹ رکھتا ہے اور لوگوں سے تعلقات کو بہتر بناتا ہے۔"

کے پی پولیس کے ایس ایس پی شعیب اشرف نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "پہلی مرتبہ ایک باقاعدہ [سوشل] میڈیا سیل تشکیل دیا گیا ہے جس کی سربراہی کے لیے ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار کو تعینات کیا گیا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ عوام اور پولیس کے درمیان تعلق، جو کہ بہتر امنِ عامہ کی کنجی ہے، کو بہتر بنانے کے لیے ضلعی اور علاقائی سطح پر بطور افسران تعلقاتِ عامہ تعینات کیے گئے جونیئر پولیس افسران سوشل میڈیا کو زیادہ موٴثر طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

میڈیا آوٴٹ ریچ، دسترس

کے پی پولیس واٹس ایپ گروپ میڈیا کے ساتھ بہتر رابطہ کو ممکن بنا رہے ہیں۔

واٹس ایپ گروپس میں سے ایک کے منتظم اور صحافیوں کے فورم برائے جرائم و دہشتگردی کے جنرل سیکریٹری، قیصر خان نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہمارے پاس چند گروپس میں ایسے سینیئر اور جونیئر پولیس افسران ہیں جو فوری ردِّ عمل دیتے ہیں اور [واقعہ کا] اپنا ورژن جاری کرتے ہیں تاکہ دہشت گردی یا مجرمانہ سرگرمی سے متعلق کوئی بھی غلط اطلاع نہ ہو۔"

انہوں نے کہا کہ گروپس میں بعض اوقات پولیس کے برے کاموں کی اطلاع بھی دی جاتی ہے، جس کے نتیجہ میں اعلیٰ عہدیدار کاروائی کرتے ہیں۔

پشاور کے ایک رہائشی نے کہا کہ آئی جی پی اور دیگر اعلیٰ عہدیدار، جو قبل ازاں عوام کے لیے ناقابلِ رسائی تھے، اب ایس ایم ایس، واٹس ایپ، ٹویٹر اور فیس بک پر دستیاب ہیں۔

وہ رہائشی، جنہوں نے شناخت مخفی رکھے جانے کی شرط پر پاکستان فارورڈ سے بات کی، نے کہا کہ انہوں نے حال ہی میں کے پی پولیس سے مدد طلب کی۔

ان کے اہلِ خانہ "کو عسکریت پسندوں کی طرف سے فون پر بھتہ خوری کی دھمکی ملی، جس کے بعد میں نے آئی جی پی کو ایس ایم ایس اور واٹس ایپ پیغام بھیجا، جنہوں نے فوری ردِّ عمل دیا۔"

انہوں نے کہا کہ آئی جی پی کے حکم پر عام پولیس اور صوبائی شعبہٴ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) نے ان کا فون ڈیٹا جمع کیا۔

انہوں نے کہا، "مقامی پولیس نہایت معاون ہے اور جب بھی ہمیں سلامتی سے متعلق مدد درکار ہو، وہ فوری ردِّ عمل دیتے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ایک اچھا آغاز نظر آتا ہے اور مزید خوشی اس امر پر کہ یہ پولیس کے محکمے کی طرف سے ہے۔ امید ہے کہ اس طرح پولیس عوام کی نظر میں اپنا کردار بہتر بنانے میں کامیاب ہو گی۔ انشاءاللہ ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں اور ہمیشہ رہیں گی ۔

جواب