دہشتگردی

طالبان کے راہنما کے قتل کی کوشش اندرونی لڑائی اور تقسیم کو اجاگر کرتی ہے

سلیمان

نامعلوم تاریخ کی ایک تصویر میں، ملا منان نیازی تین مبینہ خودکش بمباروں کو پکڑنے کے بعد، جنہیں مبینہ طور پر طالبان کے راہنما ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کے حامیوں نے بھیجا تھا، اپنے پیروکاروں سے خطاب کر رہے ہیں۔ ]بہ شکریہ ملا منان نیازی[

نامعلوم تاریخ کی ایک تصویر میں، ملا منان نیازی تین مبینہ خودکش بمباروں کو پکڑنے کے بعد، جنہیں مبینہ طور پر طالبان کے راہنما ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کے حامیوں نے بھیجا تھا، اپنے پیروکاروں سے خطاب کر رہے ہیں۔ ]بہ شکریہ ملا منان نیازی[

کابل -- طالبان کی، افغانستان میں ذیلی گروہوں میں تقسیم جاری ہے اور خبروں کے مطابق ایک گروہ مبینہ طور پر دوسرے گروہ کے راہنما کو قتل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ملا محمد رسول کی زیرِ قیادت کام رکنے والے طالبان کے ذیلی گروہ کے سیکنڈ ان کمانڈ، ملا منان نیازی نے دعوی کیا ہے کہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کی زیرِ قیادت کام کرنے والا ایک اور گروہ، انہیں قتل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

طالبان کے دورِ حکومت (2001-1996) میں بلخ اور ہرات کے سابقہ گورنر نیازی نے 27 ستمبر کو سلام ٹائمز کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ "ہلمند صوبہ کے کٹھ پتلی گورنر اور اس کے ساتھ ساتھ سراجو اور بشیر جو کہ ملا ہیبت اللہ سے وفاداری رکھنے والے دوسرے طالبان کمانڈر ہیں، نے اپنے آقاوں یعنی کہ پاکستان، ایران اور روس -- کے احکام پر عمل کرتے ہوئے، مجھے قتل کرنے کے لیے تین خودکش حملہ آوروں کو بھیجا"۔

انہوں نے کہا کہ "تاہم، ہماری فورسز نے ان حملوں سے پہلے ہی انہیں گرفتار کر لیا"۔

نامعلوم تاریخ کی ایک تصویر میں، پکڑے جانے والے تین مبینہ خودکش بمبار ملا منان نیازی کے سامنے بیٹھے ہیں اور وہ اپنے پیروکاروں سے خطاب کر رہے ہیں۔ ]بہ شکریہ ملا منان نیازی[

نامعلوم تاریخ کی ایک تصویر میں، پکڑے جانے والے تین مبینہ خودکش بمبار ملا منان نیازی کے سامنے بیٹھے ہیں اور وہ اپنے پیروکاروں سے خطاب کر رہے ہیں۔ ]بہ شکریہ ملا منان نیازی[

انہوں نے مزید کہا کہ "خودکش حملہ آوروں نے تسلیم کیا کہ انہیں دھوکہ دیا گیا تھا اور انہیں اپنے کاموں پر پچھتاوا ہے۔ اس لیے ہم نے انہیں آزاد کر دیا کیونکہ ان کے خاندان ہیں"۔

کہا جا رہا ہے کہ رسول کا طالبان کے بانی ملا محمد عمر کی ۲۰۱۳ میں ہلاکت سے پہلے،جو طالبان نے ۲۰۱۵ میں ظاهر کی ملا عمر کے ساتھ قریبی تعلق تھا مگر اس سال رسول طالبان کے مرکزی گروہ سے الگ ہو گیا اور اس نے اپنی تحریک بنا لی جسے "اسلامی امارات افغانستان کی ہائی کونسل" کہا جاتا ہے۔

رسول کے پیروکاروں نے طالبان کے سابقہ راہنما ملا اختر محمد منصور جنہیں 2016 میں پاکستان میں ہلاک کر دیا گیا تھا، کی ترقی اور ملا ہیبت اللہ کی قیادت پر اعتراض کیا تھا۔

نیازی نے کہا کہ "نہ تو ملا اختر منصور اور نہ ہی ملا ہیبت اللہ کے پاس طالبان کی قیادت سنبھالنے کے لیے درکار اتھارٹی اور موزونیت موجود تھی"۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ دونوں افراد طالبان کے ارکان کی اکثریت کی حمایت کے بغیر ہی اقتدار میں آئے تھے۔

ایک گہری تقسیم

نیازی نے رسول کے ذیلی گروہ اور ہیبت اللہ کی زیرِ قیادت کام کرنے والے طالبان کے درمیان موجود فرق پر دوبارہ سے زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ "ان سے 2015 میں علیحدگی کے بعد سے، ہم منصور اور پھر ہیبت اللہ سے ہرات، ہلمند، زابل، فراہ، غور اور بادغیس میں لڑ رہے ہیں"۔

نیازی نے کہا کہ "حال ہی میں، ہمارے اور ملا ہیبت اللہ کی زیرِ قیادت افواج میں شدید جنگ ہوئی، جس کے دوران ہم نے ہیبت اللہ کے 16 جنگجووُں کو ہلاک کر دیا۔ ہم نے ان سے جو ہتھیار قبضے میں لیے وہ بہت جدید تھے اور ان پر دوربینیں لگی ہوئی تھیں۔ وہ روسی ساختہ تھیں اور انہیں ایران کے علاقے سے اسمگل کیا گیا تھا"۔

اگرچہ وہ طالبان کے دوسرے ذیلی گروہوں سے جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور افغان امن کے عمل میں شامل ہونے سے انکاری ہیں مگر نیازی نے جاری جنگ پر تھکن کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ "چالیس سال طویل جنگ نے افغانستان اور افغانیوں کو تھکا دیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سارے افغان اکٹھے ہو جائیں اور اپنے اندرونی مسائل کو مذاکرات کی میز پر حل کریں۔ ہم افغانستان کے سارے قبائل میں قومی اتحاد چاہتے ہیں اور ہم امن اور استحکام کی خواہش رکھتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "جنگ اب حل نہیں رہی ہے

اس کے باجود، نیازی نے کہا کہ ان کا گروہ عسکری طور پر مضبوط اور تیار ہے اور "وہ ہیبت اللہ کے گروہ سے اس وقت تک جنگ جاری رکھے گا جب تک وہ اسے تباہ نہیں کر دیتا"۔

اختلافات سے تشدد اور اندرونی لڑائی شروع ہوئی

نیشنل ڈائریکٹرییٹ آف سیکورٹی (این ڈی ایس) کے سابقہ ڈائریکٹر رحمت اللہ نبیل نے 30 ستمبر کو سلام ٹائمز کو ایک ای میل میں لکھا کہ "ملا رسول گروپ کے ملا اختر گروپ سے 2015 میں الگ ہو جانے کے بعد، بہت سے مواقع پر دونوں گروہوں کے ارکان نے ایک دوسرے پر حملہ کیا ہے"۔

انہوں نے نومبر 2015 کو منصور داداللہ، جو کہ رسول کے نائبین میں سے ایک تھا، کے زابل صوبہ کی خاکِ افغان ڈسٹرکٹ میں قتل اور مارچ 2016 میں ملا راز محمد ننگیلائی پر ہرات صوبہ کے زرکوہ گاوُں میں ہونے والے حملےکا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "یہ کوئی پہلی کوشش نہیں ہے۔

نبیل نے کہا کہ طالبان کو سب سے زیادہ ڈر اندرونی تقسیم اور جھگڑوں سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ "اختر منصور کے قتل کے بعد، ملا ہیبت اللہ کو طالبان کا سپریم لیڈر تعینات کرنے کی وجوہات میں سے ایک یہ تھی کہ رسول کے طالبان کے ذیلی گروہ کی دوبارہ سے شامل ہونے پر حوصلہ افزائی کی جائے۔ کسی حد تک اس نے کام بھی کیا"۔

انہوں نے کہا کہ "ملا رسول کے پیروکاروں میں واحد شخص جو ابھی سرگرم اور تنقید کرنے والا ہے، وہ ملا منان نیازی ہے جو انہیں اگلا نشانہ بنا دیتا ہے"۔

نبیل نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ افغان حکومت کو طالبان کی کمزوری اور افغانوں میں کم ہوتی ہوئی حمایت کا فائدہ اٹھانا چاہیے، کہا "ان میں سنگین اختلافات اور جھگڑے موجود ہیں"۔

داود کالاکانی جو پارلیمنٹ میں کابل کی نمائندگی کرتے ہیں نے کہا کہ "ملا ہیبت اللہ اور حقانی نیٹ ورک کی زیرِ قیادت کوئٹہ کونسل (شوری) دوسرے ممالک کے مخصوص مفادات کے لیے کام کرتی ہے۔ ان کا افغان حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے"۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "انہوں نے طالبان کے ارکان جیسے کہ ملا رسول، منان نیازی اور کچھ ایسے دوسرے طالبان راہنما جو امن کی طرف جھک رہے ہیں، کو قتل کرنے اور ختم کرنے کے منصوبے تیار کر رکھے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "حال ہی میں طالبان کے درجنوں سینئر ارکان پاکستان چھوڑ گئے ہیں۔ انہوں نے جنگ ترک کر دی اور وہ اپنے اہلِ خاندان کے ساتھ قندہار آ گئے ہیں۔ اس سے طالبان کی صفوں میں مزید تقسیم اور انتشار کی عکاسی ہوتی ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

امیرالمومینین ملآ ھیبت اللہ اخونذادہ ھی طالبان کا سپریم کمانڈر اور ملآء محمد عمر مجاھد کا اصل جانشین ھے

جواب