دہشتگردی

شہریوں نے دہشت گردوں کی طرف سے پاک-افغان سرحد پر افراتفری پھیلانے کی کوششوں کی مذمت کی ہے

اشفاق یوسف زئی

ایک پاکستانی فوجی اگست میں افغان سرحد پر چوکس کھڑا ہے۔ ]قاسم یوسف زئی[

ایک پاکستانی فوجی اگست میں افغان سرحد پر چوکس کھڑا ہے۔ ]قاسم یوسف زئی[

پشاور -- پاکستان-افغانستان کی سرحد کے قریب موجود عسکریت پسند، دونوں ملکوں میں تاجروں، ٹرانسپوٹروں اور دیگر شہریوں کو دشمن بنا رہے ہیں۔

گزشتہ سال کے دوران بڑے پیمانے پر ہونے والے دہشت گردی کے کاموں نے سرحد پار کرنے کے مقامات کو بند کیا اور افراد و املاک کی نقل و حرکت کو محدود کیا ہے۔

افغان شہری، غریب گل جو کہ پشاور میں سبزیوں کے دکان دار ہیں، نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "دہشت گردی کے باعث ہمیں سرحد کی دونوں طرف کئی دنوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے جس سے ہمارا کام متاثر ہوتا ہے"۔

گل نے کہا کہ وہ ہر ماہ طورخم کی سرحدی کراسنگ کے راستے، جلال آباد، افغانستان میں اپنے گھر جاتے ہیں اور دہشت گردی کے کاموں اور سرحد کے بند ہو جانے کے باعث انہیں اور دوسرے لوگوں کو وقت اور پیسے کا قابلِ قدر نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

3 اگست کو طورخم کی سرحدی کراسنگ دکھائی گئی ہے۔ ]اشفاق یوسف زئی[

3 اگست کو طورخم کی سرحدی کراسنگ دکھائی گئی ہے۔ ]اشفاق یوسف زئی[

طورخم کی کراسنگ پاکستان کے خیبر پختونخواہ (کے پی) صوبہ اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کو ننگرہار صوبہ، افغانستان سے ملاتی ہے۔

پشاور کے سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ایک سابقہ صدر زاہد شینواری نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ یہ دونوں ممالک کے درمیان مصروف ترین سرحدی کراسنگ ہے اور اسے 15,000 سے 20,000 پیدل چلنے والے اور سینکڑوں گاڑیاں روزانہ پار کرتی ہیں۔

سرحد، شورش پسندوں کی طرف سے دستی بموں کے جڑواں دھماکوں، جن میں 7 افراد زخمی ہوئے جن میں فرنٹئر کور (ایف سی) کے 6 ارکان بھی شامل تھے، کے بعد 16 ستمبر کو بند ہو گئی۔ ہزاروں مسافر دو دنوں تک پھنس کر رہ گئے۔

گل نے کہا کہ "یہ بہت خوشی کی بات تھی جب 18 ستمبر کو سرحد دوبارہ کھل گئی اور ہم نےغول در غول اسے پار کیا"۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرحد کا بند ہو جانا اکثر ہوتا رہتا ہے۔

16 فروری کو طورخم کی سرحدی چوکی پاکستان میں خودکش دھماکوں کے ایک سلسلے، جس میں "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کی طرف سے صوفی بزرگ لال شہباز قلندر کے سہون، صوبہ سندھ کے مزار پر ہونے والا خودکش حملہ بھی شامل ہے، کے بعد چھہ دنوں تک بند رہی تھی۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس حملے میں کم از کم 88 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

چمن، بلوچستان کی ایک اور بڑی کراسنگ بھی اسی وجہ سے بند کی گئی تھی۔

دونوں سرحدی کراسنگز کو پاکستان اور افغانستان کی سیکورٹی فورسز اور سیاسی راہنماوُں کے درمیان مذاکرات کے بعد، تقریبا ایک ماہ بعد، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کھول دیا گیا تھا تاکہ ہزاروں عام شہریوں اور خوراک اور دیگر سامان کو افغانستان جانے والی گاڑیوں کو راستہ دیا جا سکے۔

انتشار اور افراتفری کی تلاش

پشاور سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگار خادم حسین نے کہا کہ عسکریت پسند ہمسایہ ممالک میں تجارت اور انسانی تعلقات کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "طالبان کے عسکریت پسند، پاکستان اور افغانستان میں برادارانہ تعلقات کے انتہائی سخت مخالف ہیں اس لیے وہ ان کے تعلقات کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے"۔ انہوں نے مزید بتایا کہ برادارانہ تعلقات کو بہتر بنانے سے دہشت گردی کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ "عالمی برادری اور سرحد کی دونوں اطراف موجود آبادی مکمل امن چاہتی ہے کیونکہ وہ دہشت گردی کے نہ ختم ہونے والے سلسلے سے تنگ آ چکے ہیں جس نے تجارت کو نقصان پہنچایا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "عسکریت پسندی عبور اور تجارت کو انتہائی زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے اور دونوں ممالک کی تاجر برادریاں اس سے متاثر ہو رہی ہیں"۔

پاکستان افغانستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے چیرمین محمد زبیر موتی والا نے کہا کہ سرحد کے بند ہو جانے سے دونوں ممالک کے درمیان ایک سال سے زیادہ کے عرصے سے تجارت متاثر ہو رہی ہے۔

دیگر بندشیں

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ طورخم سرحد کے ایک اور بندش 18 اگست 2016 کو، قریب ہی ہونے والی ایک متشدد افراتفری کے باعث ہوئی جس سے "دنوں ممالک کے درمیان تجارت کو قابلِ قدر نقصان پہنا"۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرحد یکم ستمبر 2016 کو دوبارہ کھل گئی۔

موتی والا نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ ہم سرحدی سیکورٹی کے حکام کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کو بہتر بنانے اور مستقبل میں ایسے سرکش واقعات کو روکنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سراہتے ہیں"۔

انہوں نے "سرحدوں کے درمیان نیٹ ورکنگ کے واقعات" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "ہم دونوں ممالک کے درمیان روابط کو بحال کرنے اور اعتماد بحال کرنے کے اقدامات کا ایک سلسلہ شروع کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "کاروباری برادری امن چاہتی ہے اور افغانستان کے ساتھ تجارت کو ترقی دینا چاہتی ہے۔ تجارت سے نہ صرف کاروباری برادریوں بلکہ دونوں ممالک کے عوام کو بھی فائدہ پہنچتا ہے"۔

بلوچستان میں پاکستان کے حکام نے سرحدی گارڈز اور مسافروں میں ہونے والے تنازعہ کے بعد، جس کے نتیجہ میں ایک شخص ہلاک ہو گیا تھا، چمن کی کراسنگ کو 2 اپریل کو بند کر دیا تھا۔ یہ 22 دنوں کے بعد دوبارہ کھلی تھی۔

موتی والا نے کہا کہ ایسے بار بار، تشدد سے سرحد بند ہونے کے واقعات، دونوں ممالک کے شہریوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔

ان لوگوں کے لیے مصائب جو اس کے متحمل نہیں

پشاور یونیورسٹی کے محقق محمد عبیداللہ نے گزشتہ پندرہ سالوں میں پاکستان- افغانستان کی سرحد کے بار بار بند ہو جانے کا حوالہ دیتے ہوئے، پاکستان فاروڈ کو بتایا کہ"جو اس سے نقصان اٹھاتا ہے وہ عام آدمی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "سرحد کے بند ہو جانے سے افغانستان میں قیمتیں بڑھ جاتی ہیں جہاں صارفین پاکستان سے آنے والی خوراک پر انحصار کرتے ہیں"۔

موتی والا کے مطابق، اگر 2017 کے آغاز کا طور طریقہ چلتا رہا تو پاکستان اور افغانستان میں سالانہ تجارت 3 بلین ڈالر سے کم ہو کر 2017 میں 2 بلین ڈالر تک ہو جانے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

تجارت وہ واحد سرگرمی نہیں ہے جسے دہشت گردی سے نقصان پہنچتا ہے۔

پاکستانی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے افغانی بچوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور اس کے ساتھ ہی پاکستان میں علاج کروانے والے مریضوں کو بھی۔

لوگر صوبہ کے ایک کسان ملتان خان نے کہا کہ "ہم خصوصی علاج کے لیے مکمل طور پر پاکستان کے ہسپتالوں پر انحصار کرتے ہیں۔ جب سرحد بند ہوتی ہے تو افغانستان سے تعلق رکھنے والے مریض کئی دنوں تک سرحد پر انتظار کرتے ہیں"۔

خان کی والدہ کو جو کینسر کی مریضہ ہیں، ہر دو ماہ بعد پشاور سے علاج کروانا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرحد بند ہو جانے سے ان کی جان خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500