جرم و انصاف

پاکستان 'غیرت کے نام پر قتل' کے خلاف کارروائی کر رہا ہے

از ضیاء الرحمان

انسانی حقوق کے حمایتی 16 ستمبر کو کراچی میں تانیہ خاصخیلی، ایک 19 سالہ خاتون جسے سیہون میں قتل کر دیا گیا تھا، کے قاتل کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے۔ اس روز پولیس نے ملزم اور 15 مبینہ ہمراہیوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ [ضیاء الرحمان]

انسانی حقوق کے حمایتی 16 ستمبر کو کراچی میں تانیہ خاصخیلی، ایک 19 سالہ خاتون جسے سیہون میں قتل کر دیا گیا تھا، کے قاتل کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے۔ اس روز پولیس نے ملزم اور 15 مبینہ ہمراہیوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی -- کراچی کے مضافات میں علی بروہی گوٹھ کے مکین ابھی بھی نوجوان جوڑے کے اس سفاکانہ قتل کے بارے میں بات کر رہے ہیں جنہیں اگست کے وسط میں بجلی کے جھٹکے لگا کر مار دیا گیا ، مبینہ طور پر یہ کام ان کے والدین نے ایک قبائلی جرگے کے حکم پر کیا تھا۔

پولیس کے مطابق، جوڑے کے اپنی مرضی سے شادی کرنے کی خواہش کرنے کے بعد، 15 اگست کو، مہمند قبائلی ارکان کے ایک جرگہ نے 15 سالہ بخت تاج اور 17 سالہ غنی رحمان کی موت کا حکم جاری کیا تھا۔

ملیر کے علاقے میں ایک اعلیٰ پولیس افسر، راؤ انوار نے کہا کہ خاندان کے افراد نے تاج اور رحمان کو بالترتیب 16 اور 17 اگست کو، انہیں ایک چارپائی کے ساتھ باندھ کر کرنٹ لگا کر ہلاک کر دیا تھا۔

انوار نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "انہیں ہلاک کرنے کے بعد، جرگہ کے ارکان نے انہیں خاموشی سے بغیر نمازِ جنازہ ادا کیے مقامی قبرستان میں دفن کر دیا تھا۔"

13 ستمبر کو کراچی پولیس ایک نوجوان جوڑے کی قبر کے گرد ایک خیمہ نصب کرتے ہوئے جنہیں ایک جرگہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے مبینہ طور پر ان کے خاندانوں نے کرنٹ لگا کر مار دیا تھا۔ پولیس نے دونوں کے باپوں اور دو چچاؤں کو گرفتار کر لیا ہے اور جرگہ کے ارکان کی تلاش میں ہے۔ [ضیاء الرحمان]

13 ستمبر کو کراچی پولیس ایک نوجوان جوڑے کی قبر کے گرد ایک خیمہ نصب کرتے ہوئے جنہیں ایک جرگہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے مبینہ طور پر ان کے خاندانوں نے کرنٹ لگا کر مار دیا تھا۔ پولیس نے دونوں کے باپوں اور دو چچاؤں کو گرفتار کر لیا ہے اور جرگہ کے ارکان کی تلاش میں ہے۔ [ضیاء الرحمان]

پانچ روز بعد، پولیس کو اس افسوسناک مبینہ "غیرت کے نام پر قتل" کے متعلق معلوم ہوا اور اس نے جوڑے کے باپوں اور دو چچاؤں کو گرفتار کر لیا۔

انوار نے کہا کہ پولیس جرگے کے 30 ارکان، خصوصاً اس کے سربراہ سرتاج خان، کے تعاقب میں ہے، جو پولیس کی کارروائی شروع ہونے کے بعد روپوش ہو گیا ہے۔

طبی افسران، جنہوں نے 13 ستمبر کو نعشوں کا بعد از مرگ معائنہ کیا تھا، نے تصدیق کی کہ وجۂ اموات کرنٹ لگنا تھی۔ انہوں نے کہا کہ نعشوں پر تشدد کے نشانات تھے۔

ایک اعلیٰ طبی افسر، ڈاکٹر قرار علی عباسی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں والدین کے ہاتھوں نام نہاد 'غیرت کے نام پر' ایسا سفاکانہ قتل نہیں دیکھا ہے۔"

'غیرت' کے نام پر قتل جاری

"غیرت کے نام پر قتل" کے خلاف فتاویٰ اور وفاقی قوانین کے باوجود، حالیہ سفاکانہ قتل اس کردار کا مظاہرہ کرتے ہیں جو جرگے اس رسم میں ادا کرتے ہیں۔

جون 2016 میں سنی اتحاد کونسل نے اپنے فتویٰ میں کہا، "ایسا لگتا ہے کہ ہم بربریت کے دور کی طرف واپس جا رہے ہیں۔ خواتین کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کی پاداش میں زندہ جلایا جانا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔"

تاہم، "غیرت کے نام پر قتل" انتباہی شرحوں سے جاری ہیں۔

صوبہ سندھ کے ضلع جامشورو کے شہر سیہون میں، ایک بااثر زمیندار (وڈیرے) خان نوہانی اور اس کے مسلح ساتھیوں نے 9 ستمبر کو مبینہ طور پر 19 سالہ تانیہ خاصخیلی کو اس وقت ہلاک کر دیا تھا جب اس کے اہلِ خانہ نے اس کے رشتے کو ٹھکرا دیا تھا۔

اے آر وائی نیوز نے بتایا کہ پولیس نے نوہانی کو 16 ستمبر کو داریجو، بلوچستان سے گرفتار کر لیا تھا۔ دیگر 15 ملزمان، بشمول دو خواتین کو نگاوال، جامشورو سے گرفتار کیا گیا تھا۔

16 ستمبر کو ہی، پشاور کے نواح میں اچار کلے میں، عبدالغنی نے مبینہ طور پر خاندانی وقار کے نام پر اپنی دو کم سن بیٹیوں کو قتل کر دیا تھا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پولیس غنی کی تلاش میں ہے۔

کراچی میں ناظم آباد کے علاقے میں، 22 سالہ ساجدہ بہادر اور 20 سالہ کلثوم کو 21 جولائی کو چھریوں کے وار کر کے قتل کر دیا گیا تھا جو کہ مبینہ طور پر کلثوم کے والد اور بھائی نے غیرت کے نام پر کیا تھا۔

"غیرت کے نام پر قتل" کی ایک اور واردات میں، جون کے آخر میں خیبر ایجنسی میں ایک قبائلی جرگے نے مبینہ طور پر رشتہ داروں کو ایک 13 سالہ لڑکی نغمہ کے قتل کا حکم دیا تھا، جس پر دو لڑکوں کے ساتھ بھاگنے کی کوشش کرنے کا الزام تھا۔

مقامی ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ لڑکے "خوف کی وجہ سے" اسے اکیلا چھوڑ گئے تھے۔

لنڈی کوتل کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ نیاز محمد نے صحافیوں کو بتایا کہ نغمہ کے گھر واپس آنے پر، اسے سیکیورٹی فورسز نے حراست میں لے لیا تھا۔ انہوں نے اسے رشتہ داروں کی جانب سے یہ یقین دہانی کروانے کے بعد چھوڑ دیا تھا کہ وہ اسے جان سے نہیں ماریں گے۔

پولیس نے کہا کہ تین روز بعد نغمہ کے رشتہ داروں نے اسے گولی مار دی اور مقامی قبرستان میں دفن کر دیا۔

ڈان نے 30 جون کو بتایا کہ مبینہ طور پر اس واقعہ میں ملوث دونوں لڑکوں کو اسی جرگے نے حراست میں لے لیا تھا۔ ان کے انجام کی کوئی خبر نہیں ہے۔

'غیرت کے نام پر قتل' کی رپورٹ کم ہوتی ہے

انسانی حقوق کے حمایتیوں کا کہنا ہے کہ "غیرت کے نام پر قتل" کے واقعات کی رپورٹ بہت کم ہوتی ہے اور بہت سے قتلوں پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے یا خودکشی قرار دے دیئے جاتے ہیں۔

اسلام آباد کی مقامی حقوقِ نسواں کی ایک تنظیم، عورت فاؤنڈیشن کی کراچی شاخ کی مقامی ڈائریکٹر، مہناز رحمان نے حقائق معلوم کرنے کے ایک مشن کے ساتھ حال ہی میں علی بروہی گوٹھ کا دورہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایک غیر قانونی یا شادی سے پہلے کے ایک تعلق کی بھنک بھی خاتون، مرد یا دونوں کی قتل پر منتج ہو سکتی ہے۔

مہناز نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "قتل عام طور پر اہلِ خانہ کی جانب سے کیے جاتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اس تعلق نے ان کے سماج میں ان کی بدنامی کروائی ہے۔ ایسے جرائم کی موجودگی پورے معاشرے کی خوفناک سفاکی ہے۔"

انصاف کے جرگہ نظام کے خلاف کارروائی

جبکہ سول سوسائٹی اور حقوقِ نسواں کے گروہ گزشتہ دو دہائیوں سے "غیرت کے نام پر قتل" کے خلاف مہم چلاتے رہے ہیں، حالیہ قانون سازی اور فیصلوں نے مہم کو مضبوط کیا ہے تاکہ مجرموں کو انصاف سے بھاگنے سے روکا جا سکے۔

گزشتہ اکتوبر میں، پارلیمنٹ نے اتفاقِ رائے سے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قوانیناور زنا باالجبر کے خلاف قوانین منظور کیے تھے، جن میں مجرموں کے لیے سخت سزائیں متعارف کروائی گئی تھیں، حتیٰ کہ اگر مجرم کو خاندان کے کسی دوسرے فرد کی جانب سے معاف بھی کر دیا جائے۔

اپریل 2004 میں، سندھ ہائی کورٹ نے جرگہ کے نظام کے تحت کیے گئے تمام مقدمات پر پابندی عائد کر دی تھی۔

قبائلی عمائدین کے خلاف عدالت سے تحفظ طلب کرنے کے خواہشمند شادی شدہ جوڑے کے مقدمے میں دیئے گئے فیصلے میں، عدالت نے کہا کہ یہ پولیس کا فرض ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں جرگوں کے انعقاد کو روکے۔

جون 2016 میں، پاکستان کی وزارت برائے انسانی حقوق نے ایک ہیلپ لائن -- 1099 -- قائم کی تھی تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی، بشمول "غیرت کے نام پر قتل" اور خواتین پر تشدد کا نشانہ بننے والوں کو قانونی اور نفسیاتی امداد فراہم کی جائے۔

انسانی حقوق کے وزیر ممتاز احمد تارڑ نے "غیرت کے نام پر قتل" کے حالیہ واقعات، خصوصاً کراچی میں نوجوان جوڑے کے "بہیمانہ اور سفاکانہ" قتل کی مذمت کی۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ جوڑے کو کرنٹ لگا کر مارنا "نہ صرف انسانی حقوق کے خلاف ہے بلکہ پوری قوم اور معاشرے میں اجتماعی انسانی ضمیر پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔"

تارڑ نے کہا، "وفاقی حکومت نے متعلقہ حکام سے کہا ہے کہ وہ قتل کے اس غیر قانونی اور غیر انسانی فعل میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کریں اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لائیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500