سلامتی

مطلوب ترین دہشتگردوں کا پیچھا کرنے کے لیے پاکستانی صوبوں کا تعاون

محمّد آحل

پولیس کے مطابق، 24 ستمبر کو آپریشن ردّالفساد کے جزُ کے طور پر ڈیرہ اسماعیل خان میں انٹیلی جنس پر مبنی ایک آپریشن میں مشترکہ افواج نے گاڑا مادا کے علاقہ میں تین مطلوب دہشتگردوں کو ہلاک اور متعدد دیگر کو زخمی کر دیا۔ حکام کی جانب سے تمام صوبوں اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے مابین 109 مطلوب دہشتگردوں کی ایک فہرست جاری کیے جانے کے بعد ایسے آپریشنز میں اضافہ ہو گیا ہے۔ [ڈیرہ اسماعیل خان پولیس]

پولیس کے مطابق، 24 ستمبر کو آپریشن ردّالفساد کے جزُ کے طور پر ڈیرہ اسماعیل خان میں انٹیلی جنس پر مبنی ایک آپریشن میں مشترکہ افواج نے گاڑا مادا کے علاقہ میں تین مطلوب دہشتگردوں کو ہلاک اور متعدد دیگر کو زخمی کر دیا۔ حکام کی جانب سے تمام صوبوں اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے مابین 109 مطلوب دہشتگردوں کی ایک فہرست جاری کیے جانے کے بعد ایسے آپریشنز میں اضافہ ہو گیا ہے۔ [ڈیرہ اسماعیل خان پولیس]

پشاور – سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مطلوب دہشتگردوں کو تلاش کرنے میں بین الصوبائی تعاون پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیاب ثابت ہو گا۔

سیکیورٹی عہدیداران نے تنبیہ کی کہ پاکستان کی قبائلی پٹی میں اپنی کمین گاہوں سے بے دخل کر دیے جانے کے بعد، متعدد اعلیٰ پائے کے دہشتگرد فرار ہیں اور شہری علاقوں میں پناہ تلاش کر رہے ہیں۔ لیکن مشترکہ کاوشیں اور معلومات کا تبادلہ مطلوب دہشتگردوں کے زیادہ عرصہ روپوش رہنے کو ناممکن بنا دے گا۔

اس امر کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے پنجاب کے صوبائی عہدیداران نے ستمبر کے وسط میں حکومتِ خیبر پختونخوا اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) سمیت تمام دیگر صوبائی حکام کے ساتھ 109 مطلوب دہشتگردوں کی فہرست کا تبادلہ کیا جن کے سر پر 500,000 روپے (4,700 ڈالر) تا ایک کروڑ روپے (95,000 ڈالر) انعام ہے۔

یہ افراد شہریوں اور ان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عہدیداران اور سیکیورٹی اہلکاروں کے خلاف دہشتگردانہ سرگرمیوں میں اپنی مبینہ شمولیت کی وجہ سے مطلوب ہیں۔

پنجاب صوبائی حکام 2015 سے اب تک 109 مطلوب دہشتگردوں کی (دکھائی گئی) فہرست کی تالیف کر رہے تھے۔ انہوں نے حال ہی میں دہشتگردوں کو تلاش کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کی کوششوں کو منظم کرنے کے لیے پاکستان بھر میں اس فہرست کا تبادلہ کیا۔ [فائل]

پنجاب صوبائی حکام 2015 سے اب تک 109 مطلوب دہشتگردوں کی (دکھائی گئی) فہرست کی تالیف کر رہے تھے۔ انہوں نے حال ہی میں دہشتگردوں کو تلاش کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کی کوششوں کو منظم کرنے کے لیے پاکستان بھر میں اس فہرست کا تبادلہ کیا۔ [فائل]

پاکستان کی مطلوب ترین کی فہرست

یہ فہرست جسے پنجاب 2015 سے مرتب کر رہا ہے، مطلوب دہشتگردوں اور پرتشدد شدّت پسندی میں ملوث افراد کے ناموں اور القاب، ان کے خلاف الزامات، کالعدم تنظیموں کے ساتھ ان کے معلوم الحاق اور دستیاب ہونے پر ان کی تصاویر پر مشتمل ہے۔

اس میں دیگر کے ساتھ ساتھ سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز، سابق صدر پرویز مشرف اور سابق وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو (جو 2007 میں قتل کر دی گئیں) کے خلاف قاتلانہ حملے کرنے کے سلسلہ میں مطلوب اعلیٰ سطح کے دہشتگرد شامل ہیں۔

اس فہرست میں القاعدہ کے 8 تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) یا ٹی ٹی پی سے ملحقہ گروہوں سے 36، کالعدم سپاہِ محمّد سے 30، لشکرِ جھنگوی (ایل ای جے) سے 28، تحریکِ جعفریہ پاکستان ( ٹی جے پی) سے 27، سپاہِ صحابہ پاکستان (ایس ایس پی) سے 14 اور جیشِ محمّد سے 3 افراد شامل ہیں، جبکہ 14 دہشتگردی کی انفرادی کاروائیوں میں ملوث ہیں اور ان کا کوئی الحاق نہیں۔ چند ایک کے ایک سے زائد الحاق ہیں۔

اس فہرست میں چوٹی پرپنجاب کے ضلع بہاولپور سے تعلق رکھنے والا مطیع الرّحمٰن المعروف صمد المعروف استاد طلحہٰ شامل ہے جس پر 2004 میں اسلام آباد میں شوکت عزیز کے خلاف خود کش حملے، 2002 میں کراچی شیراٹن ہوٹل کے باہر ہونے والے حملے اور 2010 میں کراچی شعبۂ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کے سول لائنز دفتر کو ہدف بنانے والے ایک دھماکے میں ملوث ہونے سمیت متعدد دہشتگردانہ کاروائیوں کا الزام ہے۔

ترتیب میں اس کے بعد کراچی سے تعلق رکھنے والا منصور المعروف چھوٹا ہے۔ وہ ایل ای جے اور ٹی ٹی پی سے منسلک ہے اور اس کے سر پر 5 ملین روپے (47,500 ڈالر) انعام ہے۔ وہ مشرف کو ہدف بنانے والے حملے، جس میں 17 افراد جانبحق اور 49 دیگر زخمی ہوئے، میں ملوث ہونے پر مطلوب ہے۔

اس کے بعد فہرست میں، اکوڑہ خٹک کے پی میں واقع مدرسہ، دارالعلوم حقّانیہ کا سابق طالبِ علم فیاض محمّد شامل ہے جس پر 24 جانوں کے ضیاع کا باعث ببنے والے حملے، بھٹو قتل میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ فیاض محمّد اور بھٹو قتل کے ایک اور ملزم، جنوبی وزیرستان ایجنسی کے اکرام اللہ، دونوں کے سر پر 2 ملین روپے (19,000 ڈالر) کا انعام ہے۔

معلومات کا تبادلہ

اس فہرست کا تبادلہ کے پی اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا)، ہر دو میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ کیا گیا ہے، اور مطلوب دہشتگردوں کا شکار کرنے کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔

عسکریت پسندی اور قبائلی علاقہ جات کے علوم کے ماہر، جامعہ پشاور کے شعبۂ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ پروفیسر سیّد حسین شہید سہروردی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”معلومات کا ایسا تبادلہ اہم ہے کیوں کہ اس سے چوٹی کے مفرور دہشتگردوں کے لیے جگہ تنگ ہو جاتی ہے اور حکام کو ان کی شناخت کر کے ان کا پیچھا کرنے میں مدد ملتی ہے۔“

انہوں نے کہا، ”کے پی کی نفاذِ قانون کی ایجنسیوں کے پاس ایسے چوٹی کے دہشتگردوں کو گرفتار کرنے اور انہیں ہلاک کرنے کی ممتاز مہارتیں ہیں۔ القاعدہ، ٹی ٹی پی اور یہاں تک کہ اب پاکستان میں ['دولتِ اسلامیۂ' (داعش)] نیٹ ورک کے متعدد ارکان قبائلی علاقہ جات سے پکڑے جا چکے ہیں۔“

نہوں نے کہا کہ یہ قرینِ قیاس نہیں کہ مطلوب دہشتگرد کے پی یا فاٹا میں چھپے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا، ”بجائے اس کے، متعدد سوراخ دار سرحدی علاقہ سے پار کر کے خود کو پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ غیر آباد زمین پر پناہ دیے ہوئے ہیں،“ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ”ایک اچھی علامت ہے کہ۔۔۔ ان کی شناخت اور گرفتاری کے لیے۔۔۔ ان سے متعلق معلومات دستیاب ہیں“۔

انصاف ہونا چاہیئے

فی الوقت پشاور میں مقیم ایک سابق پاکستانی سفیر برائے افغانستان رستم شاہ مہمند نے معلومات کے تبادلے کو سراہا اور بتایا کہ ایسا بہت پہلے کیا جانا چاہیئے تھا۔

"یہ حملے سالوں پہلے کیے گئے تھے،" انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا۔ "اب ان دہشت گردوں کا پتہ نشان مبہم ہے، لیکن انھیں انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیئے۔"

انہوں نے بتایا،وقت گزرنے کے باوجود "انصاف کیا جانا" چاہیئے۔ "واحد راستہ ہے کہ ان دہشت گردوں کو تلاش کیا جائے اور انھیں قرار واقعی سزا دی جائے۔"

"مطلوب دہشت گردوں کو گرفتار کرنے، مقدمہ چلانے اور سزا دینے کے لئے ریاست کو موثر حکمت عملی وضع کرنا چاہیئے،" مہمند نے مزید بتایا کہ انصاف کے کٹہرے میں لانے کے علاوہ ان دہشت گردوں کے نیٹ ورکس توڑنے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔

پشاور یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ کانفلکٹس اسٹڈیز کے ایک اسکالر اختر امین نے بتایا، پاکستان کو انتہائی مطلوب دہشت گردوں سے متعلق معلومات کا تبادلہ دو طرح سے مددگار ہے۔

انہوں نے بتایا، پہلا، فہرست قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سرگرمی سے ان کا پیچھا کرنے میں مدد گار ہے، اور دوسرا یہ کہ عام عوام معلومات دینے اور ریاست کی مدد کے لئے آگے آرہی ہے۔

"ان دہشت گردوں کو ڈھونڈھ نکالنے اور انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے ان دہشت گردوں کے سر کی قیمت بہت اہمیت کی حامل ہے،" انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا۔ "یہ نہ صرف لوگوں کا اعتماد بحال کرنے میں اہمیت رکھتا ہے بلکہ ان مطلوب دہشت پھیلانے والوں کی گرفتاری اور سزائیں خطہ کو انتہاپسند اور دہشت گرد سوچ سے پاک کرنے میں دیرپا ثابت ہو گا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

انشاء اللہ

جواب

مجھے امّید ہے کہ انشاءاللہ میں پاک فوج میں شامل ہوں گا، میں پاکستان کو ایک مکمّل ملک بناؤں گا۔ میں فوج کو اور ان لوگوں کو سلام کرتا ہوں جو پاکستان کے لیے کام کرتے ہیں۔

جواب

اچھا ہے

جواب