کھیل

میران شاہ میں پاکستان اور برطانیہ کے درمیان کرکٹ میچ عسکریت پسندی کا استرداد ہے

محمد آحل

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابقہ کپتان انضمام الحق، قبائلی پگڑی پہنے ہوئے، 25 ستمبر کو میران شاہ کے ایک اسٹیڈیم میں کرکٹ کے کھلاڑیوں کی سربراہی کر رہے ہیں۔ ]بہ شکریہ آئی ایس پی آر[

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابقہ کپتان انضمام الحق، قبائلی پگڑی پہنے ہوئے، 25 ستمبر کو میران شاہ کے ایک اسٹیڈیم میں کرکٹ کے کھلاڑیوں کی سربراہی کر رہے ہیں۔ ]بہ شکریہ آئی ایس پی آر[

میران شاہ -- ایک پاکستانی کرکٹ ٹیم اور برطانیہ کی ٹیم نے جمعرات (21 ستمبر) کو میران شاہ میں ایک ایسا کرکٹ میچ کھیلا جو چند ماہ پہلے تک سوچنا بھی ناممکن تھا۔

سالوں تک، شمالی وزیرستان کو دہشت گرد گروہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا تھا اور یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں فوج تک داخل نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ شہرت فوج کی کسی سالوں تک جاری رہنے والی بے رحم مہمات کے بعد ختم ہوئی جس میں ضربِ عضب بھی شامل ہے جس کا آغاز جون 2014 میں ہوا تھا۔

میران شاہ میں ہونے والے پیس کپ 2017 کے میچ میں، پاکستان XI ٹیم نے دورہ کرنے والی یو کے XI ٹیم کو شکست دی جبکہ شمالی وزیرستان کے شادمان شہریوں نے ملکی ٹیم کی حوصلہ افزائی کی۔

پاکستان کے لیے اہمیت

اس میچ کی اہمیت سے کھلاڑی اور شائقین دونوں ہی آگاہ تھے۔ لاہور میں 2009 میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد سے، سارا پاکستان، یہاں تک کہ نسبتاً محفوظ علاقے بھی تمام کھیلوں کی زیادہ تر غیر ملکی ٹیموں کے لیے نو گو ایریاز رہے ہیں۔ اس حملے میں سات پاکستانی ہلاک اور سری لنکا کے سات شہری زخمی ہوئے تھے۔

میران شاہ میں 21 ستمبر کو، پیس کپ 2017 کی ٹرافیوں کو دکھایا گیا ہے۔ ]بہ شکریہ آئی ایس پی آر[

میران شاہ میں 21 ستمبر کو، پیس کپ 2017 کی ٹرافیوں کو دکھایا گیا ہے۔ ]بہ شکریہ آئی ایس پی آر[

میران شاہ میں ایک غیر ملکی ٹیم کی میزبانی کرنا، قبائلی آبادی کی طرف سے عسکریت پسندوں کو مسترد کیے جانے اور ٹی ٹی پی کے سابقہ کمانڈ اور کنٹرول سینٹر میں مسلسل سیکورٹی کو حاصل کیے جانے کی نمائندگی کرتی ہے۔

پاکستان XI کے کپتان اور قومی ٹیم کے سابقہ کپتان، انضمام الحق نے میچ کو "ایک خواب کا حقیقیت" بن جانا قرار دیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ شمالی وزیرستان میں کھیلنے کا خواب "صرف علاقے میں امن کی بحالی" کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "قبائلی افراد امن سے محبت کرتے ہیں"۔ انہوں نے کہا کہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں کھیلوں کے فروغ سے "ہم فاٹا کی ایماندارانہ ساکھ کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں ٹیلنٹ کو ڈھونڈنے کے قابل بھی ہو جائیں گے"۔

کرکٹ میں عمومی طور پر ملوث افراد یا خصوصی طور پر اس میچ میں شامل افراد نے اس تقریب پر اپنے بھرپور اطمینان کا اظہار کیا۔

پاکستان سپر لیگ کی ظالمی ٹیم کے چیرمین جاوید آفریدی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ امن کے لیے بہت بڑا موقع ہے۔ ہم برطانیہ کے کھلاڑیوں کو خوش آمدید کہتے ہیں"۔

یو کے میڈیا XI کے کپتان اور مصنف پیٹر اوبورن نے میچ کے بعد ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ "پاکستان ایک دوستانہ اور خیر مقدم کرنے والا ملک ہے۔ کرکٹ کی دوسری ٹیموں کو بھی یہاں آنا چاہیے"۔

انہوں نے مزید بتایا کہ "مقامی ہجوم کے سامنے کھیلنا ایک اعزاز رہا ہے"۔

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹ کیا کہ "این ڈبیلو اے میں امن جیت گیا"۔

مزید تقریبات کا مطالبہ

میچ میں شرکت کرنے والے شمالی وزیرستان کے شہریوں نے ایسی مزید تقریبات کا مطالبہ کیا۔

ایک قبائلی ملک، عالم نے کہا کہ "یہ بہت عظیم تقریب تھی۔ ایسے مزید اقدامات ہمارے نوجوانوں کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کریں گے اور انہیں دہشت گردی سے دور رکھیں گے"۔

کرکٹ کے نوجوان کھلاڑی رحیم گل نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "میں نے ستاروں جیسے کہ انضمام، عمر گل اور جاوید آفریدی سے ملاقات کا خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ یہ سب اس میچ کی وجہ سے ہوا"۔

قبائلی بزرگ نور خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یو کے میڈیا XI کے دورے سے "ثابت ہوتا ہے کہ ہم کتنے پرامن ہیں۔ میں دنیا سے کہتا ہوں کہ وہ آئیں اور ہمیں دیکھیں۔ ہمیں تنہا نہ چھوڑیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500