سفارتکاری

غنی: علاقائی تعاون اور مذاکرات شدّت پسندی سے لڑنے کا واحد ذریعہ

پاکستان فارورڈ

افغان صدر اشرف غنی نے 19 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ غنی نے افغانستان کے رفقاء سے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مدد کا مطالبہ کیا۔ ]جیول صمد/اے ایف پی[

افغان صدر اشرف غنی نے 19 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ غنی نے افغانستان کے رفقاء سے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مدد کا مطالبہ کیا۔ ]جیول صمد/اے ایف پی[

اقوامِ متحدہ – افغان صدر اشرف غنی نے ایک مرتبہ پھر طالبان کو درونِ افغانستان کے مذاکرات میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں علاقائی اور بین الاقوامی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔

منگل (19 ستمبر) کو نیو یارک میں اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی کی 72 ویں نشست سے خطاب کے دوران غنی نے کہا کہ طالبان اور ان کے پشت پناہ عسکریت پسندانہ طریقہ سے فتح یاب نہیں ہو سکتے۔

انہوں نے کہا، ”ہم صرف سیاسی تصفیہ کی مدد سے ہی دیرپا امن حاصل کر سکتے ہیں، اور میں ہر درجہ کے طالبان سے درونِ افغانستان مذاکرات میں شامل ہونے کا مطالبہ کرتا ہوں۔“

غنی نے گزشتہ ستمبر افغان حکومت کی جانب سے گلبدین حکمت یار کی قیادت میں ایک مسلح گروہ، حزبِ اسلامی سے کیے گئے ایک امن معاہدہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت نے ثابت کیا ہے کہ وہ اندرونی کارگزاری سے امن کے حصول میں پر عزم ہے۔

انہوں نے پاکستان کی جانب ایک کلیدی علاقائی رفیق کے طور پر اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”اب ہم اپنے تمام قریبی اور دور کے ہمسایوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ امن اور علاقائی استحکام کے لیے ہماری جامع کاوشوں کے سلسلہ میں کابل پراسیس میں ہمارے ساتھ شامل ہوں۔“

انہوں نے کہا، ”اب ہمارے پاس اپنے ہمسائے سے اس امر پر مزاکرات کرنے کا بھی موقع ہے کہ دہشتگردی کے خاتمہ اور شدت پسندی کو روکنے کے لیے ہم مل کر کیسے کام کر سکتے ہیں۔ میں پاکستان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ امن، سلامتی اور آسودہ حالی کی جانب لے جانے والے علاقائی تعاون پر بین الریاستی جامع مذاکرات میں ہمارے ساتھ شامل ہوں۔“

غنی نے حال ہی میں افغانستان اور خطے کے لیے اعلان کی گئی نئی امریکی حکمتِ عملی کا خیر مقدم کیا، جس میں زمین پر امریکی افواج میں اضافہ شامل ہے۔

انہوں نے کہا، ”یہ حکمتِ عملی امریکی قوّت کے تمام آلات کو مجتمع کرتے ہوئے پیغام دیتی ہے کہ طالبان اور ان کے پشت پناہ کبھی عسکری ذریعہ سے فتح یاب نہیں ہو سکتے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ اس نئی حکمتِ عملی نے افغانستان کو ”پر یقینی کی راہ“ پر گامزن کر دیا ہے۔

غنی نے کہا، ”تاہم صرف ہمارے بین الاقوامی رفقاء کی جانب سے مضبوط اور پائدار عزم افغانستان میں ہماری اجتماعی کامیابی کا ضامن نہیں – کامیابی کی جڑیں دراصل ہم افغانوں کے اندر ہیں۔“

منگل کو افغان صدر کے اظہارِ رائے کے بعد طالبان کے خلاف ایک بڑھتا ہوا سخت نقطۂ نظر سامنے آیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عسکریت پسندی کے شکست خوردہ ہونے تک امریکی افواج کو افغانستان میں رکھنے کے عزم کے بعد اگست میں غنی نے طالبان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ”تم یہ جنگ نہیں جیت سکتے“۔

اگرچہ ٹرمپ نے اپنے اعلان میں افواج کی تفصیلی تعداد شامل نہیں کی، تاہم وائیٹ ہاؤس کے اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ وہ پہلے ہی 3,900 مزید فوجیوں کی تعیناتی کی اجازت دے چکے ہیں۔

پاکستان کے پاس دہشتگردی کے خلاف لڑنے کے علاوہ ”کوئی راستہ نہیں“

کابل سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار نثار احمد ترکئی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”علاقائی ممالک کے پاس دہشتگردی سے لڑائی کرنے اور افغانستان میں امن لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔“

پاکستان کوبطورِ خاص امریکہ کی جانب سے افغانستان میں اضافی افوج بھیجے جانے کے بعد غنی کے مذاکرات اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں زیادہ تعاون کے مطالبہ پر توجہ دینی چاہیئے۔

ترکئی نے کہا، ”علاقائی ممالک کو دہشتگردی کے خطرہ کا ادراک کرنا چاہیئے اور انہیں اس مہم میں امریکہ اور افغانستان کی پیروی کرنی چاہیئے؛ بصورتِ دیگروہ خود ]دہشتگردی کا [ شکار بن جائیں گے۔“

کابل کے ایک اور سیاسی تجزیہ کار میاں گل وقاص نے کہا، ”اگرافغان آج دہشتگردی کا شکار ہیں، تو یہ امر کل دیگر علاقائی ممالک کو مشکل میں مبتلا کرے گا۔“

انہوں نے کہا، ”لہٰذا خطے کے ممالک کے لیے افغانستان اور امریکہ کے ساتھ مل کر اس صورتِ حال کے خلاف لڑنا ضروری ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ان علاقائی ممالک میں سے ایک ہے جو دہشتگردی کے خلاف لڑ کر امن و استحکام کے حصول میں افغانستان کی مدد کر سکتے ہیں۔

واسق نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے اور امریکہ سے معاونت حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو خطہ اور بطورِ خاص افغانستان میں امن لانے کے لیے ایک مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔“

[کابل سے سلیمان نے اس رپورٹ کی تیاری میں حصہ لیا.]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

افغان صدر اپنی تقریر میں افغانستان کو درپیش مسائل بیان کرتے ہیں اور وہ ان مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ انہوں نے حزبِ اسلامی اور دیگر مسلح گروہوں کے مابین امن معاہدے کا حوالہ دیا۔ وہ مزاکرات کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے قول و فعل میں تضاد ہے، یہ ہی ان کا مسئلہ ہے۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ مسائل میں اضافہ کا باعث بنے گا۔ حکومتِ افغانستان بنیادی مسئلے کا ادراک نہیں کر رہی جو کہ افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی ہے، اگر امریکی افواج افغان سرزمین چھوڑ دیں تو مسائل اپنے آپ حل ہو جائیں۔ حکومتِ پاکستان اس مسئلہ پر نقطۂ نظر رکھتی ہے، وہ ہمیشہ حکومتِ افغانستان کو مزاکرات کا راستہ اختیار کرنے کا کہتی ہے۔ میری رائے میں اگر حکومتِ افغانستان، افغانستان میں امن کی خواہاں ہے تو اسے تمام عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ امن مزاکرات کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور امریکی حکومت سے کہنا ہوگا کہ وہ افغانستان سے اپنی افواج نکالیں۔ یہ افغانستان کے مسئلہ کا بہترین حل ہے۔

جواب