سلامتی

پاکستان جشن میں ہوائی فائرنگ کے طاعون سے نبردآزما

پاکستان فارورڈ

قبائلی علاقوں میں ہوا میں چند راؤنڈ فائر کرنا شادیوں، مذہبی تقریبات اور کھیلوں کی فتوحات منانے کی ایک پوری طرح سے رائج رسم ہے مگر طویل عرصہ سے رائج یہ روایت ایک مہلک قیمت پر مروج ہے۔ ]آفتاب احمد/اے ایف پی ٹی وی/اے ایف پی[

نوشہرہ – رواں موسمِ گرما جب بھارت کے خلاف کرکٹ میں ایک حیران کن فتح پر پورا پاکستان عالمِ بیخودی میں پھٹ پڑا، اسی وقت اکثر مہلک ثابت ہونے والی اس روایت: تقریباتی فائرنگ کی ایک ننھی شکار، پانچ سالہ نورین پشاور کے ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں تھی۔

پاکستان میں ہوا میں چند راؤنڈ فائر کرنا شادیاں، مذہبی تقریبات اور کھیلوں کی فتوحات منانے کی ایک پوری طرح سے رائج رسم ہے، جہاں افغان سرحد کے ساتھ ساتھ چور بازاروں میں آتشیں اسلحہ بھرا پڑا ہے اور اکثر شہروں میں بندوقوں سے متعلقہ جرائم عام ہیں۔

جون میں چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان کی جانب سے روایتی حریف بھارت کو شکست کے بعد ملک بھر میں جشن کے دوران کرکٹ شائقین کی جانب سے ہوائی فائرنگ کے دوران کم از کم دو افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔

نوشہرہ، خیبر پختونخوا (کے پی) میں لئیق شاہ اپنے بیٹے کے ساتھ پارک میں تھا جب جشن شروع ہوا اور ایک اندھی گولی پانچ سالہ بچے کے سر میں آ لگی۔

کرکٹ میں روایتی حریف بھارت کو ہرانے پر جشن میں ہونے والی فائرنگ کی اندھی گولی سے جانبحق ہونے والی – نوین کی بہنیں وریشہ (دائیں) اور ضوفشاں 24 جولائی کو نوشہرہ، خیبر پختونخوا میں اس کی سکول کی ایک تصویر اٹھائے ہوئے ہیں۔ ]عبدالمجید /اے ایف پی[

کرکٹ میں روایتی حریف بھارت کو ہرانے پر جشن میں ہونے والی فائرنگ کی اندھی گولی سے جانبحق ہونے والی – نوین کی بہنیں وریشہ (دائیں) اور ضوفشاں 24 جولائی کو نوشہرہ، خیبر پختونخوا میں اس کی سکول کی ایک تصویر اٹھائے ہوئے ہیں۔ ]عبدالمجید /اے ایف پی[

20 اگست 2012 کو اسلام آباد میں ایک پاکستانی لڑکا کھلونا بندوق اٹھائے ہوئے ہے۔ حکومت پاکستان کی جڑوں کی گہرائی میں رچی بندوقوں کی ثقافت کی اصلاح کرنے پر کام کر رہی ہے۔ ]عامر قریشی/اے ایف پی[

20 اگست 2012 کو اسلام آباد میں ایک پاکستانی لڑکا کھلونا بندوق اٹھائے ہوئے ہے۔ حکومت پاکستان کی جڑوں کی گہرائی میں رچی بندوقوں کی ثقافت کی اصلاح کرنے پر کام کر رہی ہے۔ ]عامر قریشی/اے ایف پی[

لڑکے کو پشاور کے ایک ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہونے سے قبل 60 گھنٹے تک قوما میں رہا۔

شاہ نے کہا، ”کوئی لاعلمی میں کسی دوسرے کا گھر تباہ کر سکتا ہے۔“

جڑوں میں رچی بندوقوں کی ثقافت

قبائلی شمال مغرب میں بندوقوں کا غلبہ بطورِ خاص نمایاں ہے، جہاں آتشیں اسلحہ موبائل فونز سے زیادہ سستا ہے اور زیادہ تر آدمی مسلح چلتے ہیں۔ اسلحہ اس قدر فراواں ہے کہ اسے تقریباً زیورات کی طرح دیکھا جاتا ہے۔

1980 میں افغانستان پر سوویت یورش کے بعد پاکستان کی جڑوں میں عمیق طور پر رچی بندوقوں کی ثقافت کی شدّت میں مزید اضافہ ہو گیا اور خطے میں اسلحہ کی طغیانی نے ”کلاشنکوف کلچر“ کہلائے جانے والی ثقافت کو جنم دیا۔

جلد ہی کلاشنکوف اور عسکری سطح کے اسلحہ نے قدیم طرز کی بولٹ ایکشن اور فلنٹلاک بندوقوں کی جگہ لے لی اور خوشی منانے والے، شادیوں اور کھیلوں کی فتوحات پر خودکار فائر کے برسٹ ہوا میں چھوڑتے ہیں۔

لیکن قدیمی طور پر رایج یہ ثقافت ایک مہلک قیمت کی حامل ہے۔

مہلک روایت

اگرچہ اندھی گولیوں سے ہونے والی اموات کے کوئی سرکاری اعدادو شمار نہیں، تاہم حکام کا کہنا ہے کہ چند برسوں کے دوران ممکنہ طور پر سینکڑوں ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔

اپنے بیٹے کی موت کے بعد شاہ نے کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے مساجد سے درخواست کی اور مساجد کے سربراہان سے مطالبہ کیا کہ وہ نمازِ جمعہ میں اپنی کمیونیٹیز کو یہ ثقافت چھوڑ دینے کی ہدایت دیں۔

شاہ نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ماضی میں لوگ ہوائی فائرنگ کر کے جشن مناتے تھے کیوں کہ ہمارے یہاں کھلے میدان تھے۔“

”اب ہوا میں چلائی گئی ہر گولی کسی نہ کسی کو لگے گی، اور کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ کسی کھلے مقام پر گرے گی۔“

مقامی حکام نے بھی ذمہ داری لی ہے، اور نوشہرہ اور دیگر اضلاع میں پولیس پمفلٹ اور پوسٹر تقسیم کر نے کے ساتھ ساتھ اس آفت سے لڑنے کے لیے کمیونیٹی سے بات چیت کرنے کے اقدام بھی کر رہی ہے۔

پشاور میں سینیئر سپرانٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) آپریشنز سجّاد خان نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہم عوامی حمایت کے بغیر اس لعنت پر قابو نہیں پا سکتے۔“

پشاور کے کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر محمّد طاہر نے جشن منانے والے ممکنہ افراد سے مطالبہ کیا کہ وہ آسمان میں گولیوں کی بوچھاڑ کرنے کے بجائے گولیوں پر صرف ہونے والی رقم خیرات پر خرچ کریں۔

انہوں نے کہا، ”ایک راؤنڈ پر 60 تا 70 روپے (0.67 ڈالر) لاگت آتی ہے؛ ہم یہ رقم غریبوں پر خرچ کر سکتے ہیں۔“

بندوقوں کے قوانین میں تبدیلی سست رفتار

پاکستان میں بندوق رکھنے کے لیے لائسنس درکار ہوتا ہے اور بھاری اسلحہ اور خودکار بندوقیں رکھنے کے لیے خصوصی اجازت نامے درکار ہیں۔

پشاور کے علاقہ نوتھیا قدیم کے میئرصفدر خان باغی کے مطابق، ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے پکڑے جانے والوں کو اس جرم پر 1,000 روپے (9.49 ڈالر) جرمانہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے— لیکن اس قانون کا اطلاق کم ہی ہوتا ہے۔

پشاور کے ایس ایس پی انوسٹیگیشن ناصر احمد خان نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس خطرناک عمل کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے لیے کے پی پولیس سخت تر قوانین اور سزائیں تجویز کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا، ”حکومت کو سخت قوانین تجویز کرنے کے ساتھ ہم نے گزشتہ چار برس کے دوران ہوائی فائرنگ کے تقریباً 2,200 واقعات کی تفصیلات جمع کرانے کے لیے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔“

خان نے کہا، ”اس عمل کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے کے پی پولیس حکومت کو ہوائی فائرنگ پر سزاؤں اور جرمانوں میں اضافہ تجویز کرے گی۔“

جون میں کے پی انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین خان محسود نے پولیس کو صوبے بھر میں تقریباتی فائرنگ کو بند کرنے کے لیے وسیع مہم شروع کرنے کی ہدایت دی تھی۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز (ڈی پی اوز) کو عوام سے بات چیت کرنے اور ہوائی فائرنگ کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے عوامی مقامات، مساجد، ہجروں اور ناظموں کے دفاتر کا دورہ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

مردان کے ڈی پی او میاں سعید احمد نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”پولیس کی جانب سے مہم اور صوبے بھر میں سخت کاروائی کے بعد اس عمل میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ مردان پولیس نے 19 جون کو پاکستان کی فتح کے بعد ہوائی فائرنگ پر49 افراد کو گرفتار کر کے چارج لگایا۔

کھلونا بندوقوں پر چھاپے

ملک میں بڑھتی ہوئی بندوق ثقافت سے نمٹنے کے لئے پاکستان بھر میں صوبائی حکام نے ہتھیاروں سے ملتے جلتے کھلونوں کی بچوں کو فروخت پر پابندی کے لئے کئی برسوں سے اقدامات کیے ہیں۔

تاہم، پشاور کے ایک حالیہ دورے کے دوران دیکھا گیا کہ شہر کے سب سے بڑے بازار میں پستول اور کلاشنکوف کی شکل کے کھلونے بھرے پڑے تھے۔

دکان دار شریف خان نے بتایا، "حکومت نے کھلونا بندوقوں کی فروخت پر پابندی لگا دی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ بچوں کے ذہنوں منفی اثر ڈالتے ہیں، اس سے بہتر ہے کہ انھیں قلم اور دیگر کھلونے دیے جائیں۔"

"لیکن بچوں کے پاس کوئی اور متبادل نہیں ہے; کھیلنے کے لئے کچھ دستیاب نہیں ہے۔"

زندگیاں تباہ

متاثرین اور ان کے خاندانوں کے لئے ہوائی فائرنگ کے اثرات دیرپا ہیں۔

پشاور کے مضافات کے رہائشی سفیر اللہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "میں بچہ تھا جب 1984 میں اپنے گھر کے باہر مجھے ایک بھٹکتی ہوئی گولی لگی۔"

سفیر اب 42 سال کا ہے اور عرصے تک صاحب فراش رہا اور کئی سال تک زیرعلاج رہا۔ اب وہ سہارے کے ذریعے آہستہ آہستہ چل پھر سکتا ہے۔

"یہ ہمیشہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے جب آپ دوڑ نہیں سکتے یا کھیل نہیں کھیل سکتے یا بغیر سہارے کے کچھ نہیں کرسکتے،" انہوں نے مزید کہا، "یہ اور زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے جب وہ مجرم کے بارے میں سوچتے ہیں کیونکہ اسے کبھی پتہ بھی نہیں چلے گا کہ اس نے کس طرح کسی کی زندگی تباہ کردی۔

شاہ کے خاندان کو نقصان پہنچ چکا ہے۔

اپنے بیٹے کی موت کے بعد، شاہ نے بتایا، کہ گھر والوں نے نوئین کا تمام سامان، جوتے، اسکول کا بستہ اور کپڑے اپنے گھر سے ہٹا دیے۔

نقصان کی یاد دلانا بہت زیادہ تکلیف دہ تھا۔

شاہ نے بتایا اس کی بیوی اب بھی صدمے سے دوچار ہے، جبکہ اس کی بیٹی کو یہ سمجھنا مشکل ہو رہا ہے کہ جشن کے لئے بندوقیں کیوں ضروری ہیں۔

نوئین کی بہن وریشہ نے سوال کیا، "لوگ ہوائی فائرنگ کے ذریعے کیوں خوشی مناتے ہیں؟"

"اگر آپ خوش ہیں تو اللہ کا شکر ادا کریں۔"

[پشاور میں جاوید خان نے اس رپورٹ کی تیاری میں تعاون کیا۔]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

بہت سے دیگر مقامات پر بھی ایسا ہوتا ہے! سالِ نو کی عید پر ایک مرتبہ لاس اینجلیس میں میرے ساتھ ایسا ہوا، اور نصف شب ہم سب باہر جا کر شورشرابا وغیرہ سے لطف اندوز ہونے کے لیے محفل سے نکلے لیکن میں نے ایک نہیں متعدد مرتبہ جس پہاڑ کی چوٹی پر ہم تھے، اس کے نیچے وادی سے ایسا شور سنا جو ہلکے آتشیں اسلحہ کی گولیوں سےمشابہ ہو سکتا تھا (جن میں سے بہت سے خودکار اور نیم خودکار ہوں)، میں تیزی سے واپس گھر آیا اور تھوڑی دیر کے لیے انگیٹھی کی جانب پشت کر کے آتشدان کے قریب بیٹھ گیا۔ کہیں پر گولیوں کے نشان نہ تھے، کم از کم جس گھر میں ہم تھے، اس میں تو نہیں۔ سالِ نو مبارک!

جواب