میڈیا

پاکستانی طالبان کی طرف سے خواتین کے جریدے کو تشہیری حربے کے طور پر استعمال کرنے کی مذمت

از جاوید محمود

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا خواتین کا نیا جریدہ سنگین مضمرات کا حامل ایک تشہیری حربہ ہے۔ [فائل]

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا خواتین کا نیا جریدہ سنگین مضمرات کا حامل ایک تشہیری حربہ ہے۔ [فائل]

کراچی -- تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا حال ہی میں خواتین کے لیے ایک آن لائن جریدے کا اجراء ایک حربہ ہے جس کا مقصد سوشل میڈیا پر موجودگی ظاہر کرتے ہوئے عالمی توجہ حاصل کرنا ہے۔

سول سوسائٹی کے کارکنان کی جانب سے قائم کردہ اسلام آباد میں ایک دفاعی تھنک ٹینک، سنٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز کے انتظامی ڈائریکٹر امتیاز گل نے کہا، "طالبان کو عسکریت پسندی کے پھیلاؤ میں خواتین کے کردار کی اہمیت کا احساس ہو گیا ہے، اور انہوں نے خواتین کو عسکریت پسندی میں شامل ہونے کی تحریک دینے کے لیے 'سنتِ خولہ' نامی جریدے کا آغاز کیا ہے۔"

گُل نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ ٹی ٹی پی کو توقع ہے کہ متعصب خواتین کا ہونا دہشت گرد حملے کرنے، جنگجوؤں کو بھرتی کرنے اور پاکستان میں اپنے ختم ہوتے ہوئے نیٹ ورک کو وسیع کرنے میں ان کی مدد کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران عسکری کارروائیوں نے طالبان کی دہشت گرد حملے کرنے کی صلاحیت کو کم سے کم کر دیا ہے اور اب ٹی ٹی پی اپنی طاقت کو بحال کرنے کی نئی حکمتِ عملیاں تلاش کر رہی ہے۔

انگریزی زبان کا جریدہ خواتین کو اکساتا ہے کہ وہ سیکھیں کہ ہتھیار اور دستی بم کیسے استعمال کرنے ہیں، بچپن کی شادیوں کی حمایت کرتا ہے اور خواتین کو 'ہم خیال جہادی بہنوں' کو ساتھ ملانے کی ترغیب دیتا ہے۔ [فائل]

انگریزی زبان کا جریدہ خواتین کو اکساتا ہے کہ وہ سیکھیں کہ ہتھیار اور دستی بم کیسے استعمال کرنے ہیں، بچپن کی شادیوں کی حمایت کرتا ہے اور خواتین کو 'ہم خیال جہادی بہنوں' کو ساتھ ملانے کی ترغیب دیتا ہے۔ [فائل]

طالبان پاکستان کے آسان اہداف کے متلاشی

تجزیہ کاروں نے متنبہ کیا ہے کہ اگرچہ نئے جریدے کا اجراء مشہوری کا ایک حربہ ہے، اس کے سنگین مضمرات ہیں۔

گل نے کہا کہ طالبان پاکستان میں زد پذیر شعبے تلاش کر سکتے ہیں، خصوصاً ایسے شعبے جنہیں مردانہ شاونیت کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا، "خیبر پختونخوا اور بلوچستان صوبوں میں، زیادہ تر خواتین خاندان کے مرد افراد [جیسے کہ ان کے] والد، بھائی یا شوہر، کے احکامات پر عمل کرتی ہیں۔"

سیکیورٹی فورسز پر لازم ہے کہ خواتین کو انتہاپسندی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرنے والے ٹی ٹی پی کے ارکان کو گرفتار کرے، کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "ملک میں حفاظتی نظام اور سول سوسائٹی کو طالبان کے ۔۔۔ اس جریدے کے اجراء یا کسی بھی [خواتین کی بھرتی کے] دیگر حربے کی پرزور مخالفت کرنی چاہیئے۔"

روزنامہ پاکستان کے کراچی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر، مبشر میر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "طالبان ان پاکستانیوں جو عسکریت پسندوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں کے اندر جھوٹے بیانیئوں کو فروغ دیتے ہوئے اسلام کو غلط استعمال کرتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے اور زیادہ سے زیادہ خواتین کو دہشت گردی میں ملوث کر رہی ہے۔

میر نے کہا کہ مزید برآں، اپنے جریدے کے عنوان میں مشہور عرب خاتون مسلم جنگجو اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین پیروکاروں میں سے ایک کے نام کو استعمال کر کے طالبان نے بے حسی کا ثبوت دیا ہے۔

حضرت خولہ بنت الازوار اپنے بھائی، حضرت ضرار بن ازوار کے ساتھ 7 ویں صدی میں کچھ جنگوں میں شریک ہونے کی وجہ سے واجب الاحترام ہیں۔

انہوں نے کہا، "[خولہ] ایک ہیروئین کے طور پر مشہور ہیں، جبکہ طالبان پوری دنیا میں بطور ولن مشہور ہیں۔"

ٹی ٹی پی کا عالمی توجہ حاصل کرنے کا 'حربہ'

ایک تحقیقی ادارے، نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی اسلام آباد شاخ کے چیئرمین، مرتضیٰ مغل نے کہا کہطالبان "بزدل" ہیں جو دہشت گردی کی سرگرمیوں میں خواتین اور بچوں کو استعمال کر رہے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہم ۔۔۔ دینی محققین، علماء، سول سوسائٹی اور عوام الناس کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ عسکریت پسندوں کے مذموم عزائل کے خلاف آواز اٹھائیں جو پاکستان کو بدنام کرنے، عالمی توجہ حاصل کرنے اور سوشل میڈیا پر اپنی طاقت اور موجودگی دکھانے کے لیے نئی حکمتِ عملیاں [دریافت کر رہے] ہیں۔"

انہوں نے کہا، "اسلام معاشرے میں امن، رواداری اور ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے، لیکن انتہاپسند ۔۔۔ اپنا ذاتی ایجنڈہ نافذ کرنے اور اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔"

مغل نے کہا کہ فوجی آپریشنضربِ عضباوررد الفساد، جو جون 2014 اور فروری 2017 میں شروع ہوئے تھے، نے عسکریت پسندوں کے مضبوط ٹھکانوں کا خاتمہ کر دیا ہے اور دہشت گردوں کے پاس اس کے سوا کوئی اختیار نہیں رہنے دیا کہ وہ پاکستان اور افغانستان میں زیرِ زمین چلے جائیں۔

انہوں نے کہا، "فوجی کارروائی ضربِ عضب شروع ہونے سے پہلے، پورے ملک میں عسکریت پسند گروہوں کے بہت سے مضبوط ٹھکانے اور پناہ گاہیں تھیں۔ لیکن اب ہم ٹی ٹی پی یا دیگر تنظیموں کے کوئی مضبوط ٹھکانے نہیں دیکھتے۔"

انہوں نے کہا، "ایک آن لائن جریدے کا اجراء عالمی توجہ حاصل کرنے اور دنیا کو سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی دکھانے کے لیے ٹی ٹی پی کا ایک حربہ لگتا ہے۔"

پاکستان میں طالبان کے اثر و رسوخ کے عروج میں، عسکریت پسند گروہ نئے لوگوں کو راغب کرنے کی امید پر، باقاعدگی سے اردو اور انگریزی میں مطبوعات چھاپتے تھے۔

دہشت گرد تنظیم فیس بُک اور ٹوئٹر پر بھی متحرک تھی، لیکن اس کے زیادہ تر سوشل میڈیا پیجز کو اب بند کر دیا گیا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500