دہشتگردی

داعش پاکستان کے یومِ آزادی کے جشن کو تہ و بالا کرنے میں ناکام

پاکستان فارورڈ

12 اگست کو کوئٹہ، بلوچستان میں ایک دھماکے کے بعد ایک پاکستانی رضاکار متاثرین کی مدد کرنے کے لیے بھاگ رہا ہے۔ اس دھماکے میں کم از کم 15 افراد جاںبحق ہوئے۔ [بنارس خان/اےایف پی]

12 اگست کو کوئٹہ، بلوچستان میں ایک دھماکے کے بعد ایک پاکستانی رضاکار متاثرین کی مدد کرنے کے لیے بھاگ رہا ہے۔ اس دھماکے میں کم از کم 15 افراد جاںبحق ہوئے۔ [بنارس خان/اےایف پی]

کوئٹہ — حکام کا کہنا ہے کہ ہفتہ (12 اگست) کی رات ایک فوجی گاڑی کو نشانہ بنانے والا طاقتور دھماکہ ”دولتِ اسلامیۂ“ (داعش) کی جانب سے پاکستان کے یومِ آزادی کے جشن کو سبوتاژ کرنے کی ایک سوچی سمجھی کوشش تھی۔

اس دھماکے سے بلوچستان کے صدرمقام، کوئٹہ کے ایک بس سٹاپ پر کم از کم 15 افراد جاںبحق ہوئے، اور دھماکے کے بعد جلد ہی علاقہ میں آگ لگ گئی۔

پاک فوج کے ایک بیان میں کہا گیا کہ اس دھماکے میں ڈیوٹی پر موجود ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا اور متعدد دیگر گاڑیوں کو آگ لگ گئی۔

بیان میں کہا گیا، ”آتش گیر مواد استعمال کیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں قریب کھڑی گاڑیوں کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سات شہریوں سمیت پندرہ افراد شہید ہوئے۔“

صوبائی وزیرِ داخلہ میر سرفراز بگٹی اور حکومت کے ترجمان انوارالحق کاکڑ نے اموات کی تعداد کی تصدیق کی اور زخمیوں کی تعداد 32 بتائی۔

ایس آئی ٹی ای مانیٹرنگ گروپ کے مطابق، داعش خراسان شاخ – کے پاکستان اور افغانستان میں ملحقینن نے حملہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا۔

بیان میں کہا گیا کہ دھماکے کے پیچھے ایک خودکش موٹرسائیکل سوار بمبار تھا۔

پاکستان دہشت کے خلاف متحد

یہ دھماکہ پاکستان کے 70 ویں یومِ آزادی سے دو روز قبل ہوا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ یہ جشن کو خراب کرنے کی ایک کوشش تھی۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا، ”ہمارا عزم کسی چیلنج کے سامنے مطیع نہیں ہو گا۔“

ماضی میں بھی داعش اور طالبان نے کوئٹہ پر حملے کیے ہیں۔

بگٹی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”کوئٹہ اور بدامنی کے شکار بلوچستان کے دیگر حصّوں میں حالیہ دہشتگردانہ حملوں میں ملوث عسکریت پسند گروہ بلوچستان کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ 12 اگست کو پشین سٹاپ کوئٹہ کے قریب ایک فوجی ٹرک پر خود کش حملے نے ثابت کر دیا کہ عسکریت پسند جشنِ آزادی کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔“

انہوں نے کہا، ”ہم حالتِ جنگ میں ہیں اور دشمن ہمارے صوبے میں امن کے دیرپا عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ عسکریت پسند گروہ آزادی کے موقع پر تباہی پھیلانا چاہتے ہیں۔“

انہوں نے کہا، ”ہم قوم کو کبھی مایوس نہ ہونے دیں گے؛ حکومت صوبے میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لا رہی ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ جاری عسکری آپریشنز نے عسکریت پسندوں کی سرگرمی کی استعداد کو خاصی حد تک کم کر دیا ہے۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک سیکیورٹی تجزیہ کار میجر (ریٹائرڈ) محمّد عمر نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہمیں وسیع تر تناظر میں بلوچستان میں عسکریت پسندی کو دیکھنا ہو گا، کیوں کہ دشمن ہم سے تمام حلقوں میں نبردآزما ہے۔“

انہوں نے کہا، ”جشنِ آزادی کے دوران امنِ عامہ کی ایک صورتِ حال پیدا کر کے عسکریت پسند گروہ دنیا کو اس امر پر قائل کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام قومی جشن کے خلاف ہیں۔“

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں قدم جمانے کی غرض سے داعش خراسان شاخ صوبے میں حالیہ متعدد بڑے پیمانے کے حملوں کی پشت پر ہے، انہوں نے مزید کہا، ”ان عناصر سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومت کو ایک جامع حکمتِ عملی مرتب کرنا ہو گی۔“

انہوں نے کہا، ”داعش نے اپنی ہی جیسی ذہنیت کے حامل کالعدم عسکریت پسند گروہوں کے ذریعے اعلیٰ پائے کے اہداف پر مربوط حملے کرنے کے لیے نہایت شاطرانہ حکمتِ عملی اپنا رکھی ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ ”تمام تر حامی نیٹ ورک کو تباہ کرنا“ ناگزیر ہے۔

[کوئٹہ سے عبدالغنی کاکڑ نے اس رپورٹ کی تیاری میں حصہ لیا۔]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500