رواداری

پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے عزم کے ساتھ 70واں یوم آزادی منایا

محمد شکیل

پاکستانی نوجوان اسلام آباد میں 14 اگست کو ملک کا 70واں یوم آزادی منانے کی تقریب میں پرچم کشائی کے بعد گا رہے ہیں۔ 1947 میں برطانوی راج کے اختتام پر اس روز تعطیل منائی جاتی ہے۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

پاکستانی نوجوان اسلام آباد میں 14 اگست کو ملک کا 70واں یوم آزادی منانے کی تقریب میں پرچم کشائی کے بعد گا رہے ہیں۔ 1947 میں برطانوی راج کے اختتام پر اس روز تعطیل منائی جاتی ہے۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

اسلام آباد – اعلیٰ فوجی حکام نے ایک ہلاکت خیز دھماکے کے چند دن بعد دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے عزم کے ساتھ پیر (14اگست) کو 70رواں یوم آزادی منایا۔

جشن نصف شب کو اہم شہروں میں آتشبازی کے مظاہرے کے ساتھ شروع ہوا۔

پاکستانی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارت سے ملنے والی انتہائی اہم علامتی واہگہ سرحد پر ایک 400 فٹ اونچے ستون پر ایک بڑا پرچم لہرایا جبکہ مجمع حب الوطنی پر مبنی نعرے بلند کر رہا تھا۔

باجوہ نے بتایا ملک ترقی کر رہا ہے اور وعدہ کیا کہ "پاکستان میں ہر ایک دہشت گرد کا پیچھا کیا جائے گا۔"

پشاور میں 14 اگست کو یوم آزادی منانے کے سلسلے میں ایک شخص پاکستانی جھنڈا لہرا رہا ہے۔ [محمد شکیل]

پشاور میں 14 اگست کو یوم آزادی منانے کے سلسلے میں ایک شخص پاکستانی جھنڈا لہرا رہا ہے۔ [محمد شکیل]

پشاور میں 14 اگست کو یوم آزادی منانے کے دوران ایک سکھ دیگر شہریوں کے ہمراہ نعرے لگا رہا ہے۔ [محمد شکیل]

پشاور میں 14 اگست کو یوم آزادی منانے کے دوران ایک سکھ دیگر شہریوں کے ہمراہ نعرے لگا رہا ہے۔ [محمد شکیل]

انہوں نے بتایا، "ہم نے ماضی میں کچھ غلطیاں کی ہیں لیکن ہم اپنے آئین کی رہنمائی میں ترقی کی راہ پر گامزن ہیں

دہشت گردی کے مقابلے کے لئے اتحاد کا چناؤ

پیر کو، پاکستانیوں نے ثابت کیا کہ وہ ایک نئے جذبے، ولولے اور قوم کے مستقبل پر اعتماد کے ساتھ جشن منانے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

اسلام آباد میں دن کا آغاز 21 توپوں کی سلامی سے ہوا اور اور مساجد میں پاکستان کے لئے امن، خود مختاری اور وقار کے لئے خصوصی دعائیں کی گئیں۔

صدر ممنون حسین نے پاکستانیوں پر اتحاد کے لئے زور دیا۔

آئیے، اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کر مادر وطن کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ہاتھ ملائیے، انہوں نے ایک بیان میں بتایا۔ آزادی کو اس کے حقیقی معنیٰ میں منانے کے لئے نفرت اور بدگمانیوں پر قابو پاکر محبت اور یگانگت کو فروغ دیں اور مایوسی کو امید میں بدل کراپنی قوم کے مستقبل کو محفوظ بنائیں۔

خیبر پختونخواہ (کے پی) کے گورنر ظفر اقبال جھگڑا نے اتحاد کے لئے صدر کی دعوت کو دہراتے ہوئے کہا کہ یہ آزادی کی تحریک اور ان کے لئے جنہوں نے قوم کے بہتر مستقبل کے لئے قربانی دی بہترین خراج عقیدت ہو گا۔

انہوں نے کہا" یہ دن ہمیں آزادی کے انمول مقصد کے حصول کے لئے، جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی دی ہوئی انگنت قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔"

اسلام آباد میں سکھ برادری نے بھی یوم آزادی کے حوالے سے ایک ریلی نکالی۔ ڈھول کی تھاپ پر ناچتے ہوئے، سکھ برادری نے "پاکستان زندہ باد " اور "پاکستان پائندہ باد" کے نعرے لگا کر وطن سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔

کراچی میں، دن کا آغاز بانئ پاکستان، محمد علی جناح کے مزار پر گارڈ کی تبدیلی سے ہوا، جہاں سیاستدانوں اور فوجی کمانڈروں نے پھولوں کی چادریں چڑھائیں۔

یوم آزادی کی تقریبات کے سلسلے میں بروز اتوار (13 اگست ) ایک خصوصی "آزادی ٹرین" پشاور سے روانہ ہوئی۔ 25 اگست کو کراچی پہنجنے سے پہلے یہ پاکستان کے کئی شہروں سے گزرے گی۔

یہ ٹرین پانچ آرٹ گیلریوں اور شہداء کی تصاویر کے ساتھ چھ فلوٹس پر مشتمل ہے۔

بازار، سڑکیں اور تنگ گلیاں ہفتوں پہلے سے حب الوطنی منانے کی اشیا بیچنے والے خوانچہ فروشوں سے بھر گئی ہیں اور گھروں، حکومتی عمارات، اور کاروں اور موٹر سائیکلوں پر ہزاروں پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں۔

دہشتگردی، خوف کو شکست

پشاور میں چاچا یونس پارک کے سیکیورٹی انچارج ارشد خان نے کہا، ”ملک میں دہشتگردی کے سنگدلانہ ظہور [اور] عسکریت پسندی کے مہیب خطرہ کی وجہ سے ہماری قوم بوکھلاہٹ کا شکار ہو رہی تھی۔“

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”خوف اور غیر یقینی خیبر پختونخوا کے عوام پر حاوی تھے، اور انہیں بیرونی اور تفریحی سرگرمیاں ختم کرنے پر مجبور کر رہے تھے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ ایک وقت پر ”صورتِ حال ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بھیانک تر ہوتی جا رہی تھی۔“

انہوں نے کہا کہ اب خوف اور مایوسی زائل ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ”آپریشن ضربِ عضب، ردّالفساد اور خیبر-IV کی کامیابیوں نے ایک مرتبہ پھر عوام میں اعتماد پیدا کر دیا ہے، جو ماضی کی طرح دوبارہ پورے جوش اور توانائی کے ساتھ قومی تقریبات کا جشن منا رہی ہے۔“

انہوں نے کہا، ”ملک بھر میں جشن اور شادمانی ۔۔۔ اس امر کا ثبوت ہیں کہ عوام کے ذہنوں سے عسکریت پسندی کے اثرات زائل ہو رہے ہیں۔“

خان نے کہا کہ یومِ آزادی سے قبل کے ہفتہ میں پارک میں آنے والوں میں ”نمایاں اضافہ“ تھا۔

انہوں نے اسے ”ایک قوم کے لیے امّید کی کرن“ قرار دیتے ہوئے کہا، ”اپنے ہم وطنوں کو اپنا یومِ آزادی مناتے دیکھنے سے زیادہ اطمینان بخش کچھ نہیں ہو سکتا۔“

انہوں نے کہا، ”قومی یگانگت ۔۔۔ امن کے لیے ہمارے عزم کے استحکام اور ملک کے دشمنوں کو ہماری للکار کی شدّت کو بھی بیان کرتی ہے۔“

خوشی اور آزادی کے ساتھ جشن

پشاور کے دسویں جماعت کے ایک طالبِ علم وجاہت فرید، جو نوشہرہ کے قریب کند پارک میں اپنے چچا کے ساتھ یومِ آزادی منانے کا ارادہ رکھتے ہیں، نے کہا، ”ایک غیر یقینی صورتِ حال دیکھنے کے بعد، ہم ایک خوش آئند اور حوصلہ افزا ماحول میں یومِ آزادی منا رہے ہیں۔“

انہوں نے کہا، ”قبل ازاں، خراب سیکیورٹی کی وجہ سے ہمارے لیے آزادانہ طور پر قومی تقریبات منانا ناممکن تھا۔ لیکن شورشیوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی کامیابیوں نے ہمیں مناسب طور پر یہ تقریبات منانے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔“

انہوں نے کہا، ”یومِ آزادی ایک ایسا موقع ہے جو قوم سے اختلافات سے انحراف کر کے ایک مشترکہ مقصد کے لیے متحد ہونے کا متقاضی ہے۔“

پشاور میں سکھوں اور ہندوؤں کی ایک بڑی آبادی والے علاقہ دبگڑھی بازار کے ایک دکاندار اشفاق اعوان نے کہا کہ یومِ آزادی کی تقریبات میں تمام پاکستانیوں کی شرکت ظاہر کرتی ہے کہ قوم متحد ہے اور اپنے آباؤاجداد کی قربانیوں کی یاد دلاتی ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”میں نے اپنے چھوٹے سے سٹال پر 40,000 روپے (380 ڈالر) مالیت کا [یومِ آزادی سے متعلقہ متعدد سامان] فروخت کیا ہے، جو گزشتہ برس کی نسبت تقریباً دو گنا ہے۔“

انہوں نے کہا، ”نہ صرف مسلمان، بلکہ سکھ ، ہندو اورمسیحی بھی 70 واں یومِ آزادی منانے میں شریک ہیں، جو اپنی سرزمینِ سکونت کے لیے ان کے پیار کا مظاہرہ ہے۔“

انہوں نے کہا کہ تقریبات میں اقلیتیوں کے ارکان کی شرکت ”ملک کی بطورِ کل سلامتی صورتِ حال پر ان کے اعتماد کی عکّاسی ہے۔“

اگست 1947 میں برطانوی راج کا خاتمہ ہونے کے ساتھ برِّ صغیر – ہندو اکثریتی بھارت اور مسلم اکثریتی پاکستان – دو خودمختار ریاستیں بن گیا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500