سلامتی

آپریشن خیبر چہارم میں پاکستانی فوج اپنے شیڈول سے آگے ہے

از محمد شکیل

21 جولائی کو دہشت گردوں کے قبضے سے چھڑوانے کے بعد پاکستانی فوجی خیبر ایجنسی میں برخ محمد کنڈاؤ چوٹی پر تصویر بنواتے ہوئے۔ [فوج کا شعبۂ تعلقاتِ عامہ]

21 جولائی کو دہشت گردوں کے قبضے سے چھڑوانے کے بعد پاکستانی فوجی خیبر ایجنسی میں برخ محمد کنڈاؤ چوٹی پر تصویر بنواتے ہوئے۔ [فوج کا شعبۂ تعلقاتِ عامہ]

پشاور -- حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے وادیٔ راجگال، خیبر ایجنسی میں عسکریت پسندوں کے خلاف شروع ہونے والے، آپریشن خیبر چہارم میں تاریخی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 5 اگست کو علاقے کا دورہ کیا اور انہیں آپریشن کی پیش رفت پر بریفنگ دی گئی۔

مقامی عسکری حکام نے انہیں پاک افغان سرحد کے ساتھ برخ محمد کنڈاؤ نامی حساس چوٹی کا کنٹرول سنبھالنے کے متعلق بتایا اور یہ بھی بتایا کہ مختلف دہشت گرد گروہوں کے زیرِ تسلط علاقے کو 90 فیصد تک خالی کروا لیا گیا ہے۔

آپریشن خیبر چہارم 16 جولائی کو شروع کیا گیا تھا اور اس کا ہدف وادیٔ راجگال میں لشکرِ اسلام، جماعت الاحرار، تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے کارکنان ہیں۔

پاکستانی فوج کے مطابق برخ محمد کنڈاؤ چوٹی پاک افغان سرحد پر واقع ہے اور دہشت گردوں کے لیے نگرانی کی چوکی، بیس اور ذخیرے کا کام دیتی تھی۔ پاکستانی فوج نے 21 جولائی کو آپریشن خیبر چہارم کے جزو کے طور پر اس پہاڑی کو دہشت گردوں سے واپس لے لیا۔ [فوج کا شعبۂ تعلقاتِ عامہ]

پاکستانی فوج کے مطابق برخ محمد کنڈاؤ چوٹی پاک افغان سرحد پر واقع ہے اور دہشت گردوں کے لیے نگرانی کی چوکی، بیس اور ذخیرے کا کام دیتی تھی۔ پاکستانی فوج نے 21 جولائی کو آپریشن خیبر چہارم کے جزو کے طور پر اس پہاڑی کو دہشت گردوں سے واپس لے لیا۔ [فوج کا شعبۂ تعلقاتِ عامہ]

پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر)، پاکستانی فوج کے میڈیا ونگ نے 22 جولائی کو ایک بیان میں کہا کہ فوج نے برخ محمد کنڈاؤ چوٹی کو کچھ دیر سے خالی کروانے کی منصوبہ بندی کی تھی، لیکن "اس سے منصوبہ بندی کردہ وقت سے کافی پہلے خالی کروا لیا گیا ہے۔"

بیان میں کہا گیا، "دہشت گردوں نے سخت مزاحمت کی لیکن پُرعزم پاکستانی جوانوں کے سامنے کھڑے نہیں رہ سکے۔"

آئی ایس پی آر کے مطابق، پاکستانی فوج نے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو تباہ کر دیا اور دیسی ساختہ بموں، ہتھیاروں اور گولہ بارود کی ایک بڑی کھیپ قبضے میں لے لی۔ بہت سے دہشت گرد مارے گئے اور کچھ افغانستان فرار ہو گئے۔

چوٹی کو آزاد کروانے کے ساتھ ہی، آئی ایس پی آر نے خیبر چہارم کے پہلے مرحلے کے اختتام کا اعلان کر دیا ہے۔

ایک سنگِ میل کامیابی

اسلام آباد میں سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، امتیاز گل نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "آپریشن خیبر چہارم کی کامیاب مہم ۔۔۔ کو قبائلی پٹی، جو باغیوں کی جانب سے داخلے اور اخراج کے لیے استعمال کی جاتی تھی، کے موجودہ سیکیورٹی منظر نامے پر اس کے نتائج اور مضمرات کی وجہ سے اسے ایک سنگِ میل کہا جا سکتا ہے۔"

انہوں نے کہا، "ان ناقابلِ رسائی علاقوں کو خالی کروانا اور انہیں موزوں نگرانی اور چوکسی کے ذریعے سیکیورٹی کے حصار میں لانا نہ صرف در اندازی کے امکان کو کم کرے گا بلکہ ملک میں امن و امان کو برقرار رکھنے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششوں میں اضافہ بھی کرے گا۔"

انہوں نے کہا کہ عملی تواتر پاکستان کی سرحدوں کو ایک ایسے دشمن سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے جو موقع پرست ہے اور خود کو چھپانے اور بدلنے کے مکمل طور پر قابل ہے۔

یہ کارروائیاں پورا سال، چوبیس گھنٹے جاری رہنی چاہیئیں کا اضافہ کرتے ہوئے، گل نے کہا، "ان علاقوں کو ہدف بنانا جو عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کی جانب سے ہتھیار جمع کرنے، [حملوں کی] منصوبہ بندی کرنے اور چھپنے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے، نہ صرف ہمارے خارجی دفاع کو مضبوط کرے گا بلکہ منظم جرائم پر قابو بھی پائے گا۔"

انہوں نے کہا کہ برخ محمد کنڈاؤ چوٹی پر قبضہ کرنا عسکریت پسندی کی بیخ کنی کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔

انہوں نے کہا، "ان باغیوں کو ناقابلِ اعتبار پہاڑی چوٹیوں سے بھگانا ایک کامیابی ہے اور اس کے سرحدی علاقوں میں امن و امان کی مجموعی صورتحال پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور دہشت گردوں کو ایک پیغام ملے گا کہ ان کا تعاقب کیا جائے گا اور حالات جو بھی ہوں انہیں نیست و نابود کر دیا جائے گا۔"

عسکریت پسندوں کے نفوذ پر قابو پانا

قبائلی پٹی میں ہونے والے واقعات کی کوریج کرنے والے پشاور کے ایک مقامی صحافی، رسول داور نے کہا، "داعش کی جانب سے منصوبہ بندی کردہ اور قبول کردہ دہشت گردی کے واقعات کی زمانی ترتیب سے عیاں ہوتا ہے کہ اس کی چھتری تلے مصروفِ عمل کارکن پاکستان میں اپنی معمولی موجودگی کے باوجود زیادہ منظم، پُرعزم اور اپنے مقاصد کے حصول میں سخت ہیں۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ داعش کے خلاف حکمتِ عملی ایک زیادہ مربوط اور کثیر شاخہ سوچ کی متقاضی ہے۔

داور نے کہا، "پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے وادیٔ راجگال کو خالی کروانا اور افغان سرحد کے ساتھ ساتھ حساس مقامات پر قبضہ کرنا دہشت گردوں کو قبائلی علاقہ جات میں گھسنے سے روکے گا اور انہیں مقامی تنظیموں کے ساتھ نئے روابط بنانے سے روکے گا۔"

انہوں نے کہا، "سرحدوں کو محفوظ بنانا دہشت گردوں کو ان علاقوں میں پناہ گاہیں بنانے سے باز رکھے گا جو کبھی ان کے سخت علاقے، دوردرازی اور مسام دار نوعیت کی وجہ سے ان کے لیے موزوں ترین تصور کیے جاتے تھے۔"

سخت سرحدی حفاظت پاکستان میں قدم جمانے کے متلاشی عسکریت پسندوں کی حوصلہ شکنی کرے گی، کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک ویزہ اور امیگریشن پالیسی متعارف کروانا اور پاک افغان سرحد پر خاردار باڑ لگانا غیر قانونی داخلوں کو روکے گا۔

پاکستانی سرحدوں کو محفوظ بنانا

راولپنڈی کے مقامی پاکستان ایکس سروس مین ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل، بریگیڈیئر (ر) سید مسعود الحسن نے کہا کہ شہریوں کو زندگی گزارنے کے لیے تحفظ کا احساس دلانا اور بغیر خوف کے جدوجہد کرنے کی یقین دہانی کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے، اور اس مقصد کی کامیابی اس وقت ممکن ہے جب ملک کی تمام سرحدیں نامطلوب یورشوں سے محفوظ ہوں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "سیکیورٹی فورسز کی کوششیں اور حکومت کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان میں اختیار کردہ حکمتِ عملی قابلِ تحسین ہیں۔ لیکن ہماری مسام دار سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے ایک جامع وسیع البنیاد منصوبہ عسکریت پسندی کے خطرے کے خلاف ہماری تمام کوششوں کے لیے عمل انگیز ہو گا۔"

انہوں نے کہا، "ایسے علاقوں کو خالی کروانا جنہیں کبھی قانون کی دسترس سے باہر تصور کیا جاتا تھا اور جو عسکریت پسندوں سے بھرے پڑے تھے، ایک قابلِ ذکر کامیابی ہے جو دراندازوں کے خلاف ہمارے دفاع کو مزید مضبوط بنائے گی۔"

انہوں نے کہا، "کامیاب آپریشن کے بعد ان علاقوں کی سخت نگرانی اور چوکسی باغیوں کے نیٹ ورکس کو توڑے گی اور قانون کی حکمرانی کو غارت کرنے کے لیے ان کی حوصلہ شکنی کرے گی، ایک حربہ جو وہ اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے مقامی آبادی میں خوف اور بدامنی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 14

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

مجھے پاک فوج سے پیار ہے۔

جواب

میں اگلے پاک آرمی پی ایم اے لانگ کورس میں داخلے کے امتحانات کی تاریخیں جاننا چاہوں گا

جواب

میں پاک آرمی میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتا ہوں کیونکہ میں اپنے ملک کو بچانا اور حفاظت کرنا چاہتا ہوں

جواب

مجھے پاک فوج پسند ہے

جواب

i love pak army mery jan asrmy pakistan is my cute countery my wish to jion pak army pakistan zindabad pak army salamat rahooo duaaa haiii ap sab k sath

جواب

برائے مہربانی مجھے پاک فوج میں شامل ہونا ہے کیوں کہ مجھے پاک فوج سے پیار ہے ”پاکستان زندہ باد“

جواب

مجھے پاک فوج میں شامل ہونا ہے، انشاءاللہ؛ پاکستان زندہ باد

جواب

مجھے پاک فوج سے پیار ہے

جواب

مجھے پاک فوج پسند ہے

جواب

پاک فوج کو میرا سلام ۔ خدا پاک فوج کو ہمیشہ سلامت رکھے! آمین۔ ہم پاک فوج کی وجہ سے پاکستان میں آزاد زندگی گزار رہے ہیں۔

جواب

allah pak apko hr buri nazar syyy bachae aameen

جواب

Allha hu Akbar may Pak army may bohot jald ana chata ho may apnay mulk ki salamti k liye Jan de sakta ho mojay Pak army ka hisa banaya Jay mojay bhe Pakistani honay par fakar ho long live Pakistan Pakistan first....Pak army zinda bad

جواب

میں پاک فوج سے محبت کرتا ہوں

جواب

انشااللہ میں پاک فوج میں شامل ہوں گا۔ پاکستان زندہ باد۔

جواب