دہشتگردی

پولیس کے یومِ شہدا پر کے پی نے شہید ہیروز کو خراجِ تحسین پیش کیا

جاوید خان

کے پی کے انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین محسود (درمیان میں) 4 اگست 2017 کو پولیس کے یومِ شہدا کے موقع پر پشاور میں ملک سعد شہید پولیس لائنز میں شہدا کی یادگار پر پھولوں کی چادر چڑھا رہے ہیں۔ ]بہ شکریہ خیبر پختونخواہ پولیس[

کے پی کے انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین محسود (درمیان میں) 4 اگست 2017 کو پولیس کے یومِ شہدا کے موقع پر پشاور میں ملک سعد شہید پولیس لائنز میں شہدا کی یادگار پر پھولوں کی چادر چڑھا رہے ہیں۔ ]بہ شکریہ خیبر پختونخواہ پولیس[

پشاور -- خیبر پختونخواہ (کے پی) نے جمعہ (4 اگست) کو ان پولیس اہلکاروں کو خراجِ عقیدت پیش کیا جنہوں نے ملک میں امن کی بحالی کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دی۔

یومِ شہدا پولیس، ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس اور فرنٹئر کانسٹیبلری کمانڈنٹ صفوت غیور جو کہ صوبہ میں ہلاک ہونے والے سینئر ترین پولیس افسر ہیں، کی برسی کے موقع پر منایا جاتا ہے۔ غفور 4 اگست 2010 کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے پشاور میں ہونے والے خودکش حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

اس سال کی یادگاری تقریب کا آغاز سینئر اور جونیئر پولیس افسران کی طرف سے شہید ہونے والے ہیروز کی قبروں کو سلوٹ کرنے سے ہوا۔

سینئر سپریٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) پشاور ساجد خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) محمد طاہر نے صفوت غیور کی قبر کو سلوٹ پیش کیا جب کہ میں نے ساجد خان محمد کی قبر کو صبح کے وقت سلوٹ پیش کیا"۔

ڈیرہ اسماعیل خان پولیس افسران پولیس کے ہفتہِ شہدا کے حصہ کے طور پر 31 جولائی کو خون کا عطیہ دے رہے ہیں۔ ]جاوید خان[

ڈیرہ اسماعیل خان پولیس افسران پولیس کے ہفتہِ شہدا کے حصہ کے طور پر 31 جولائی کو خون کا عطیہ دے رہے ہیں۔ ]جاوید خان[

ساجد خان محمد، بلوچستان میں قلعہ عبداللہ میں ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) تھے۔ وہ 10 جولائی کو چمن میں ہونے والے خودکش حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

خان نے کہا کہ "خیبر پختونخواہ بھر میں دوسرے افسران کی قبروں کو بھی سلوٹ پیش کیا گیا تاکہ ان کی بلند ترین قربانی کو خراجِ تحسین پیش کیا جا سکے"۔

پولیس کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانا چاہیے

پشاور میں نشتر ہال میں ایک بہت بڑی تقریب منعقد ہوئی جہاں سینئر پولیس افسران، سیاسی راہنماؤں اور دوسروں نے خراجِ عقیدت پیش کیا۔

پاکستانی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ٹوئٹر پر پوسٹ کیے جانے والے پیغام میں فوج اور پولیس کے شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ "ہماری قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانا چاہیے"۔

کے پی کے وزیراعلی پرویز خٹک نے کہا کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے پاکستان میں امن بحال کرنے کے لیے دہشت گردوں کے خلاف عظیم ترین قربانی دی ہے۔

انہوں نے پولیس کے یومِ شہدا کے موقع پر ہونے والی ایک تقریب میں کہا کہ "یہ کے پی پولیس اور سیکورٹی فورسز کی قربانیوں کی بدولت ہی ہے کہ صوبہ میں امن کافی زیادہ حد تک بحال ہو گیا ہے"۔

کے پی کے گورنر اقبال ظفر جھگڑا نے امن کی بحالی کے لیے پولیس اور سیکورٹی فورسز کی قربانیوں کو سراہا۔

شہداِ پولیس ہفتہ

کے پی پولیس نے بہت سی تقریبات کے انعقاد سے ہفتہِ شہدا منانے کا آغاز کیا جن میں واکس، پولیس کے شہیدوں کے اہلِ خاندان کے لیے تفریحی پروگرام موم بتیاں جلا کر یادگاری تقریبات، قرآن خوانی اور خون کا عطیہ دینے کی مہمات شامل ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس فدا حسین شاہ نے پاکستان فاروڈ کو بتایا کہ "ہم نے ہفتہِ شہدا کے سلسلے میں ڈیرہ اسماعیل خان میں خون کا عطیہ دینے کا کیمپ 31 جولائی کو لگایا جس میں پولیس اہلکاروں اور دیگر افراد کی بڑی تعداد نے خون کا عطیہ دیا"۔

ہنگو کی پولیس اکیڈمی نے ہفتہِ شہدا کے سلسلے میں ایک واک اور تقریری مقابلے کا انعقاد کیا جس کے دوران ڈی آئی جی کوہاٹ اول خان نے 260 پولیس رنگروٹوں سے ملاقات کی۔

ہنگو اکیڈمی کے کمانڈنٹ فصیح الدین نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "وہ شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے بھائی یا بیٹے تھے جنہیں صوبائی حکومت نے شہدا کے پیکیج جو کہ خدمات کی ادایئگی کے دوران شہید ہونے والے ہر پولیس اہلکار کو دیا جاتا ہے، کے حصہ کے طور پر بھرتی کیا تھا"۔

خاتون رشتہ دار بھی ایسی ملازمتوں کی اہل ہوتی ہیں مگر ابھی تک کسی نے اس کے لیے درخواست نہیں دی۔

پولیس حکام نے ہفتہِ شہدا کے دوران، پشاور کے چچا یونس پارک، ریگی اور حیات آباد میں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے بچوں اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ یہ دن منایا۔

سی سی پی او طاہر، ایس ایس پی ساجد خان اور دیگر پولیس افسران نے اپنے اہلِ خاندان کے ساتھ یہ دن شہدا کے بچوں کے ساتھ منایا۔

طاہر نے کہا کہ پشاور پولیس نے پشاور پولیس نے کسی بھی دوسری ڈسٹرکٹ کے مقابلے میں زیادہ قربانیاں دی ہیں اور وہ ملک میں امن کی بحالی کے لیے اسے جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "وہ لوگ جنہوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں وہ دیومالائی کردار ہیں اور ہم ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی خواہش رکھتے ہیں"۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان افسران کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا جن وردی پہنے ہوئے شہید ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "پشاور پولیس نے خون کے عطیات کے کیمپ منعقد کیے اور واکس اور موم بتیاں جلانے کی یادگاری تقریبات منعقد کیں اور شہدا کے بچوں کے ساتھ وقت گزارا"۔

حیات آباد کے سابقہ ناظم عثمان خان نے امن کی بحالی میں پولیس کے کردار کی تعریف کی۔

حیات آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خان نے کہا کہ "جنہوں نے جانیں قربان کیں اور جو ہماری حفاظت کر رہے ہیں وہ ہمارے ہیرو ہیں"۔

پولیس کے شہدا کی امداد میں اضافہ

جمعرات کو، کے پی کے گورنر نے ڈیوٹی کے دوران شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے اہلِ خاندان کے لیے امدادی پیکیجوں میں قابلِ قدر اضافے کا اعلان کیا۔

کے پی کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) صلاح الدین محسود نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "مجوعی طو رپر شہدا کے پیکیج کو تقریبا دوگنا کر دیا گیا ہے"۔

محسود نے کہا کہ "ہم نے پیکیج میں اضافے کے لیے حکومت کے ساتھ طویل عرصے سے کام کیا ہے اور دوسرے صوبوں نے اس میں پہلے سے ہی اضافہ کر دیا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسے آخرکار 3 اگست کو منظور کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ کے پی پولیس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس نے کسی بھی دوسری سویلین فورس سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ ان کی بہادری کے باوجود، امدادی پیکیج دوسری صوبوں کی نسبت کم رہا ہے۔

اب، نئے منظور ہونے والے پیکیج کے تحت، کانسٹیبل، ہیڈ کانسٹیبل، اسسٹنٹ سب انسپکٹر، سب انسپکٹر یا انسپکٹر کو 10 ملین روپے (94,900 ڈالر) کا امدادی پیکیج ملے گا۔

ڈپٹی سپریٹنڈنٹ آف پولیس یا اسسٹنٹ سپریٹنڈنٹ آف پولیس کے خاندان کو 15 ملین روپے (142,350 ڈالر) ملیں گے۔

ایس ایس پی، سینئر ایس ایس پی، ڈی آئی جی اور اس سے اوپر کے عہدہ داروں کے اہلِ خاندان کو 20 ملین روپے (189,800 ڈالر) ملیں گے۔

محسود نے کہا کہ "ہم نے کانسٹیبل سے لے کر ایڈیشنل آئی جی پی تک کے عہدہ داروں کی قربانی دی ہے۔ وہ ہمارے ہیرو ہیں اور ہم آج انہیں یاد کر رہے ہیں"۔

پولیس کے ریکارڈ کے مطابق، 1970 سے اب تک کے پی پولیس کے 1,644 افسران شہید ہوئے ہیں۔

ان میں سے 2006 سے اب تک 1,261 پولیس اہلکار کے پی میں خودکش دھماکوں، گھریلو ساختہ بموں کے دھماکوں، حملوں اور دہشت گردوں اور مجرموں کے ساتھ مقابلوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

مجھے پولیس سے پیار ہے۔

جواب

کے پی کے پولیس پاکستان کی بہترین فورس ہے۔ کے پی کے پولیس کے لیے پیار۔

جواب

جی ہاں

جواب