جرم و انصاف

پاکستان میں 'انتقامی زیادتی' کے واقعہ میں گرفتاریاں

اے ایف پی

ایک پاکستانی شحض اس گھر کی طرف اشارہ کر رہا ہے جہاں ایک 16 سالہ لڑکی کو ملتان کے مضافات مظفر آباد میں 26 جولائی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مقامی جرگہ کے ارکان کو مبینہ طور پر لڑکی سے سزا کے طور پر زیادتی کرنے کا حکم دینے پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ لڑکی کے بھائی سے زیادتی کا جرم سرزد ہوا تھا۔ ]ایس ایس مرزا /اے ایف پی[

ایک پاکستانی شحض اس گھر کی طرف اشارہ کر رہا ہے جہاں ایک 16 سالہ لڑکی کو ملتان کے مضافات مظفر آباد میں 26 جولائی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مقامی جرگہ کے ارکان کو مبینہ طور پر لڑکی سے سزا کے طور پر زیادتی کرنے کا حکم دینے پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ لڑکی کے بھائی سے زیادتی کا جرم سرزد ہوا تھا۔ ]ایس ایس مرزا /اے ایف پی[

ملتان -- پاکستانی پولیس نے جمعرات (27 جولائی) کو چار افراد کو نوجوان لڑکی سے زیادتی کے واقعہ میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ لڑکی کو اس کے بھائی کی طرف سے کیے جانے والے جرم پر یہ سزا دی گئی تھی۔

پولیس کے ایک ذریعہ نے تصدیق کی کہ تازہ ترین گرفتاریاں جن میں اس شخص کی گرفتاری بھی شامل ہے جس نے مبینہ طور پر "انتقامی زیادتی" کی تھی، سے کل گرفتار شدہ افراد کی تعداد 18 ہو گئی ہے۔

ملتان، صوبہ پنجاب کے مضافات میں ایک جرگہ نے مبینہ طور پر 16 سالہ لڑکی سے سزا کے طور پر زیادتی کرنے کا حکم دیا تھا کیونکہ اس سے پہلے اس کے بھائی نے ایک 12سالہ لڑکی سے زیادتی کی تھی۔

خاندان کے ایک رکن، 25 سالہ محمد بلال نے اے ایف پی کو بتایا کہ جب انہیں پہلی زیادتی کے بارے میں پتہ چلا -- جو پچھلے ہفتے ہوئی تھی-- تو وہ معافی مانگنے کے لیے بارہ سالہ لڑکی کے خاندان کے پاس گئے تھے۔

اس نے کہا کہ "ان کی عورتوں نے چلانا شروع کر دیا اور مردوں نے کہا کہ پہلے وہ عمر کی بہن (16 سالہ لڑکی) کو لے کر آئیں پھر وہ اس بارے میں بات کریں گے"۔

اس نے کہا کہ "جب ہم لڑکی کے ساتھ واپس آئے تو مردوں اور جرگے نے فیصلہ کیا کہ یہ ہی کام اس لڑکی کے ساتھ بھی کیا جائے۔ ہم کیا کر سکتے تھے؟ ہمارے گاوں میں جھگڑوں کا فیصلہ اسی طرح ہوتا ہے"۔

دونوں لڑکیاں اب خواتین کے ایک دارالامان میں رہ رہی ہیں اور وہ پنجاب کے وزیراعلی شہباز شریف جو کہ وزیراعظم کے بھائی ہیں، سے جمعرات کی شام کو ملاقات کریں گی۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی اس واقعہ کی تفتیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

جرگے جو کہ مقامی بزرگوں پر مشتمل گاوُں کی کونسل ہوتے ہیں، پاکستان کے دیہی علاقوں میں، جہاں عدالتیں اور وکیل نہ تو قابلِ رسائی ہوتے ہیں اور نہ ہی ان پر اعتماد کیا جاتا ہے، جھگڑوں کو نپٹانے کا طریقہ ہیں۔

ایسی کونسلیں غیر قانونی ہیں اور اپنے متازعہ فیصلوں کی وجہ سے، خصوصی طور پر خواتین سے متعلق، تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔

جرگہ کے ایک رکن، 45 سالہ محمد امین جو کہ اب پولیس کی حراست میں ہیں نے کہا کہ "ہم نے جو کیا وہ غلط تھا مگر یہاں پر اسی طرح کام ہوتا ہے۔ ہم معافی مانگتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ دوبارہ ایسا نہیں کریں گے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اگر حکومت پاکستان یا ججز کو ذرا سی غیرت بھی ہے تو اس طرح کے فیصلے کرنے والے فرعونوں کی بوٹی بوٹی کرکے کتوں کے آگے ڈال دینی چاہیے میں حکومت پاکستان اور سپریم کورٹ کے ججز سے اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ پاکستان سے اس طرح کے گندے فحاش لوگوں کا خاتمہ کیا جائے

جواب