تعلیم

سکول جانے والے افغان بچوں کے لیے طورخم سے سرحد پار کرنے میں آسانی

محمّد شکیل

19 جولائی کو طورخم سرحدی چوکی پر سکول جانے والے افغان لڑکے شناخت کی تصدیق کے لیے قطار میں انتظار کر رہے ہیں۔[محمّد شکیل]

19 جولائی کو طورخم سرحدی چوکی پر سکول جانے والے افغان لڑکے شناخت کی تصدیق کے لیے قطار میں انتظار کر رہے ہیں۔[محمّد شکیل]

پشاور – پاکستان نے خیر سگالی کی علامت کے طور پر افغانستان کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے سکول جانے والے افغان بچوں کی قریبی پاکستانی سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے میں مدد کے لیے انہیں مخصوص انٹری پاس جاری کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔

پاکستان – افغانستان سرحد کے قریب رہنے والے سکول جانے والے ان بچوں کو ریڈیو فریکوینسی آئڈنٹیفیکیشن (آر ایف آئی ڈی) کارڈ جاری کیے جائیں گے جو روزانہ اپنی پڑھائی کے لیے طورخم سرحدی چوکی سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔

سکول جانے والے یہ بچے دو سکولوں میں جاتے ہیں: آکسفورڈ پبلک سکول اور لنڈی کوتل خیبر ایجنسی میں پاک انٹرنیشنل پبلک سکول۔

طورخم سے روزانہ ہزاروں افغانی نگہداشت صحت، تعلیم یا عمومی کاروبار کے لیے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ دوطرفہ تعلقات میں کشیدگی کے دوران انہیں سرحد کی بندش کا سامنا کرتے ہوئے بسا اوقات طویل قطاروں میں کھڑے ہونا پڑا ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق، پاک فوج کے کمانڈنٹ عمر فاروق نے 20 جولائی کو کہا ”یہ اقدام ہماری جانب سے خیرسگالی کی علامت تھی ۔۔۔ جس کا مقصد دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین تعلقات کو فروغ دیا جا سکے اور انہیں مستحکم کیا جا سکے۔“

انہوں نے کہا کہ آر ایف آئی ڈی کارڈز میں ہر کارڈ کے حامل سے متعلق کوڈِڈ معلومات ہوتی ہیں جو سرحد پر مخصوص کیوسک پر ہی پڑھی جا سکتی ہیں، اس سے کسی دھوکہ باز کے ہاتھوں اس کے غلط استعمال کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔

تعلیم کی تسہیل، تناؤ میں کمی

طورخم کے نائب تحصیلدار شمس الاسلام نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آنے والے سکول کے بچے سرحد سے 20 کلومیٹر علاقہ میں مقیم ہیں، لیکن اصل میں وہ ننگرہار، لغمان اور کابل تک کی مسافت سے آتے ہیں۔

انہوں نے کہا اس علامت کا مقصد آسانی سے تعلیم حاصل کرنے میں سکول جانے والے ان بچوں کی مدد کرنا تھا۔

انہوں نے کہا آر ایف آئی ڈی کارڈز کے حامل یہ بچے مخصوص کھڑؑکی استعمال کرتے ہوئے تیزی سے سرحد پار کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ”سکول جانے والے افغان بچوں کی تعلیم میں تسہیل کے ساتھ ساتھ یہ فیصلہ اعتماد پیدا کرے گا اور دونوں ملکوں کے درمیان برادرانہ تعلقات کو فروغ دے گا۔“

اصل میں صوبہ ننگر ہار کے ضلع مومند دارا سے تعلق رکھنے والے چوتھی جماعت کے طالبِ علم خاکسار نے کہا کہ دونوں ملکوں کے دوران سرحدی تناؤ کی وجہ سے رواں برس اس کی چھ ماہ کی سکول کی پڑھائی ضائع ہوئی۔

اس نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”میں پاکستان میں سکول تک تقریباً 30 منٹ میں پہنچ جاتا تھا، جبکہ میرے علاقہ میں قریب ترین سکول گاڑی کی ایک گھنٹے کی مسافت پر تھا۔“

مومند دارا ہی سے ایک چھٹی جماعت کے طالبِ علم زار خان نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”اگر ہمیں معاشرہ میں ایک باعزت مقام حاصل کرنا ہے تو ہمیں تعلیم کی اہمیت کو پہچاننا ہو گا۔“

اس نے کہا، ”غردی، مارکو اور داکا سمیت سرحدی علاقوں سے سکول جانے والے بچے [پاکستانی] سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور وہ ہر طرح کے حالات میں اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتے ہیں۔“

پاکستان-افغانستان تعاون میں توسیع

آکسفورڈ پبلک اسکول کے پرنسپل شہاب الدین نے بتایا، افغان بچوں کی تعلیم کے لئے سہولت فراہم کرنے کی پاکستانی کوششیں تعریف کی حقدار ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "اس اقدام سے نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مضبوط ہوں گے بلکہ مستقبل میں ہمارے لوگوں کے درمیان محبت پیدا کرنے کا سبب بنیں گے۔"

انہوں نے بتایا، " بچے کسی بھی معاشرہ کا مشترکہ سرمایہ ہوتے ہیں اور تعلیم کے ذریعے ان کو سنوارنے سے حیران کن نتائج حاصل ہوں گے۔"

انہوں نے بتایا، "اسکول جانے والے افغان بچوں کی تعلیم تک آسان اور بلا رکاوٹ رسائی ان کے زہنوں کو تبدیل کرکے مستقبل میں [پاکستانیوں کے ساتھ] ان کے باہمی تعاون کے لئے راستہ ہموار کرے گی۔"

پشاور میں مقیم ایک سیکورٹی تجزیہ کار اور افغانستان میں سابق پاکستانی سفارت کار رستم شاہ مہمند نے بتایا، بچے انمول انسانی سرمایہ ہیں، اور [ان] میں سرمایہ کاری دیرپا اثرات پیدا کرے گی۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "افغان بچوں کے ساتھ محبت کا سلوک، پاکستان میں تعلیم کے حصول کے لئے درکار سہولت یقینی بنانا دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے امکانات کو روشن کرے گا۔"

انہوں نے بتایا، اگر پاکستانی حکام پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے خواہشمند افغان اسکول کے بچوں کو مزید سہولت فراہم کریں تو باہمی احترام اور قبولیت حاصل کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے تجویز کیا، "افغان اسکول کے بچوں کے وظائف میں اضافہ کے ساتھ پاکستان میں فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے اداروں میں اضافی نشستیں بھی مختص کی جانی چاہیئیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ماشا؟الله بہت اچھا

جواب

Sultan shaba duin high school and college

جواب

Buhat hi Axhi Baat hai Taleem K Zariye es baat ki umeed hai k Pak Afghan Talukaat b behtar ho

جواب